کانٹا غم کا

March 26, 2014

کانٹا غم کا ،کہ کھٹکتا ہے، عوام کا بیشتر حصہ سیاسی، سماجی، تعلیمی ، صحت ، نظم ونسق سے کٹ چکا۔ ارضِ وطن کے اٹھارہ کروڑ عوام اپنے وطن میںہی جلاوطن ۔ ایم کیو ایم بہترین قومی مفاد میں مرکز حکومت کاحصہ تو نہ بن پائی البتہ سندھ حکومت میں گنجائش موجود۔ الطاف حسین کا تازہ بیان کہ ’’مذاکرات کے باوجود طالبان اپنی کاروائیوں سے باز نہیں آرہے ‘‘ میرارونابھی یہی کہ کراچی میں ساری جماعتیں حکومت میں لیکن ’’مقامی طالبان‘‘ دہشت گردی کی ہنر مندی سے بہرہ مند۔ گورنر خیبر پختونخوا کی تبدیلی کی خبروں پر چیئرمین تحریک ِ انصاف سیخ پا ، احتجاج کا حق محفوظ ،شور مچانے سے اجتناب ، 35پنکچر اور دھاندلی کا غصہ نیانیاکافورہوا۔ پچھلے ہفتے کالم میں نواز عمران ملاقات ، کارکنان کی رنجیدگی، کبیدگی دیدنی۔کئی پیغامات موصول ہوئے کہ کالم ،مری روڈ سے ’’ڈریم ہائوس‘‘( بنی گالہ) تک 95 کروڑ کی سڑک کے ذکر سے خالی کیوں؟حضور! ڈیڑھ بلین ڈالریا 95 کروڑ روپے کی سڑک جیسے تحائف بادشاہوں کے شایان شان۔ KPK میں حکومتی کارکردگی پرکئی سوالیہ نشان ،کورکمیٹی کا فیصلہ کہ نااہل کابینہ مکمل ناکام،تحریک انصاف کے ’’صاحبانِ جوہر‘‘ سرجوڑ کر بیٹھے ہیں ، نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن،کابینہ میں تبدیلی کا مژدہ موجود، تبدیلی بس میں نہیں ۔بیرونی کُمک جہانگیر ترین ، اسد عمر ، نعیم الحق ، عرف موبی، علیم خان تقریباََ ایک جہاز، ہیلی کاپٹر یا بلٹ پروف کار میں سمو جانے والوں پر انحصارکے بغیر چارہ نہیں۔انرجی کے معاملات پر اسد عمر کافی کہ اس سے پہلے بہت استفادہ فرماچکے، تشہیری معاملات، بینک، صنعت وتجارت جہانگیر ترین کے سپرد کہ نابغہ روزگار، لیکن شوکت یوسف زئی جیسے سلیقہ مند کی موجودگی میں’’ صحت کا انصاف ‘‘کا باہر سے کنٹرول ،چہ معنی۔( لطیفہ: 28 لاکھ آبادی کے شہر پشاور میں 17لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے)کروڑوں پر پھیلی میڈیا مہم بغیر مسابقت ،ٹینڈرایک ایسی کمپنی کو تفویض کرناکہ کمپنی مالک اور لاہور کے ایک رئیل اسٹیٹ ڈیلر کی کامیاب کاروباری شراکت داری۔مزید KPK کے ہائوسنگ پراجیکٹ کے لیے’’ اسی ایوارڈ یافتہ‘‘ اور’’ سزا یافتہ‘‘ کاروباری پارٹی لیڈر اپنے کاروباری پارٹنر ’’موبی ‘‘کے ساتھ دودھ کے رکھوالے ’’باگھڑ بلے‘‘۔ پارٹنر ،جماعت اسلامی کی چیں بچیںجائز کہ ’’دال کم اور کالا ضرورت سے زیادہ ۔پچھلا ہفتہ مسافت کی نذر، اختتام 23 مارچ کو لاہور میوزیم کے ہال میں استحکام پاکستان کونسل کے زیرِاہتمام یوم پاکستان کی تقریب پر ہوا۔ اسی دن جماعت الدعوۃ بھی احیائے نظریہ پاکستان کا پرچم اٹھائے، لاہور کو سرپر اٹھا چکی تھی۔ جماعت الدعوۃ جس کا انگ انگ وطن عزیز کی دفاع و ترقی کے لئے خرچ ہوچکا، دشمنانِ وطن کے دلوں میں کانٹا،ملکی تعمیر وترقی کے لیے جان ومال ہتھیلی پر، امریکی اور بھارتی ہمدردوںکی طعن وتشنیع سے بے پرواملک کے طول وعرض پر چھائی رہی۔ دکھ کہ جماعت الدعوۃ اورجماعت اسلامی کے علاوہ کوئی دوسری جماعت اس دن کو شایانِ شان نہ منا سکی۔ کاش آج بھی حکمران اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتے کہ واحد راہ نجات، عمیق گہرائیوں سے نکل کر آسمان کو چھونے کا نسخہ بھی یہی۔ 22 مارچ کی رات اسلام آباد جو کہ پاکستان میں ہے بھی اور نہیں بھی، میں سید مشاہد حسین کے بیٹے اور افراسیاب خٹک کی بیٹی کی تقریب شادی سال ِرواں میں منعقدہ ساری تقریبات پر حاوی ۔بہترین پہلو کہ مشاہد حسین نجیب الطرفین ’’پنجابی سید‘‘ جبکہ افراسیاب خٹک نجیب الطرفین پٹھان، ایسی جوڑہ بندی وطن عزیز کے روح فرساء ماحول میں روح افزا ۔اس سے پہلے اپنی جنم بھومی میانوالی میں، سرگودھا یونیورسٹی کے زیراہتمام سمینار کا حصہ رہا۔ میانوالی کی حالت ِ زارکا پچھلے 50 سال سے بقائمی ہوش وحواس شاہد، ناقابل بیان۔سڑکیں آج بھی ہمیشہ کی طرح مضروب، اسکول، اسپتال، پبلک مقامات ناگفتہ بہ۔ عمران خان اس حلقے سے دومرتبہ منتخب ہوئے ، توقعات اونچی نہ تھیں کہ اپوزیشن میں۔ اب جب سے وزیراعظم نے خان صاحب کی وش لسٹ کو پذیرائی بخشی انواع اقسام کے مطالبات، تجاوزات ہٹانے سے لے کر موصوف کے گھر تک سڑک بنوانے کی ٹھانی تواہالیان ِ میانوالی کے زخموں پرنمک پاشی ہی ٹھہری، بپھرنا لازم۔کاش عیاری اور مکاری ہماری جان چھوڑ دے۔
برادرم ڈاکٹر حسین احمد پراچہ اور پروفیسر نعیم مسعود صاحب کے زیربار، حکم حاکم مرگِ مفاجات سرگودھا یونیورسٹی کے انتہائی شاندار فنکشن کے منتظمین کو، انکار ناممکن۔سرگودھا یونیورسٹی کے ہر دلعزیز، ہمہ گیر، طالب ’’علم وکمال‘‘وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چوہدری جو سراپا ہلچل، چند سالوں میں سرگودھا یونیورسٹی کو تعلیم، تدریس، تحقیق میںباقی یونیورسٹیوں کے ہم پلہ بلکہ کچھ آگے۔موضوع بھی من بھاتا’’ترقی بذریعہ تعلیم‘‘،وائے نصیب ، کہ وطن ِعزیز میں 10 کروڑ لوگ 20 سال سے کم عمر ، ڈیڑھ کروڑ یونیورسٹی انرولمنٹ کے قابل، فقط 11 لاکھ بچے بچیاں ملک کے طول وعرض میں یونیورسٹی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ہائی سکول کا عالم یہ کہ تعداد کا85 فیصد میٹرک،10 فیصد مدرسے سے اور5 فیصداولیول ۔ او لیول اور اے لیول ہی تعلیم ،باقی سب دھوکاکہ میٹرک ، مدرسہ ملکی ضروریات میں مس فٹ۔ قائدین کے بلند بانگ دعوے سنیں’’جھوٹ نہیں بولوں گا، ایک نظام ِ تعلیم لائوں گا‘‘،کہاںگئے تیرے وعدے؟
دکھ اور تکلیف ،نوجوان FA/BA بذریعہ میٹرک و مدرسہ ، ملک کے بالائی نظم ونسق میںقابلیت کے جوہر دکھانے سے یکسرقاصر کہ نظام اجازت نہیں دیتا،چنانچہ 18 کروڑ عوام کا نظام سے کٹ جاناامرِلازم ۔کیا دنیا میں کوئی اور مثال بھی کہ 95 فیصد آبادی ہنرآزمائے بغیر جان جان آفریں کے سپردکرجائے ۔ 95 فیصد آبادی میں سے پتہ نہیں کتنے اقبال، ارسطو، افلاطون، آئین سٹائن جو بن آزمائے رخصت ہوئے۔ لارڈ مکالے نے لوگوں کو ان پڑھ رکھنے کے لیے جو نظام مرتب کیا، پوری آن بان سے آج بھی موجود۔ میانوالی میں مقولہ کہ ’’آب آب کریندا، فارسیاں گھر گالے ‘‘۔آج پھر زبان مخلوق ِ خداکو گونگا بنا چکی۔ کمر پر زہر آلود خنجر پیوست ہونے سے سالوں پہلے، 2001 میں ’’ ڈئیرکزن ‘‘ کی انتخابی مہم کو ترتیب دینے کے لیے ڈیڑھ سال میانوالی منتقل رہا۔بھلے وقتوں میں نیازی قبیلہ میں کمر پر وار کرنے والے کو اول درجے کا بے غیرت سمجھا جاتا تھا ۔ ڈیئر کزن NA-71 سے منتخب ہوئے ، سیاست بال بال بچی ۔ اظہارِ تشکر کے لیے چھوٹے بڑے گائوں جانے کاقصد کیاایسے ہی ایک موقع پر،میںڈرائیونگ سیٹ پر، ایک معمر آدمی بمع نوجوان گاڑی کے سامنے،گاڑی روکنے میں کامیاب۔ شیشے اتار کر نصیب کی گردش کا حال دیا، ’’خانصاحب غریب گھر ،کباڑ خانہ بیچ کر اس نوجوان کو بی اے کروایا ، پچھلے تین سالوں سے جانوروں کا چارہ، جنگل بیاباں سے لکڑی کاٹنے میں جُتا ہوا، براہ مہربانی اس غریب بچے کو کہیں چپڑاسی ، کلرک بھرتی کروادیں‘‘ قائد ِ محترم کے اندر ہمدردی کے سوتے پھوٹے، درخواست اس کے ہاتھ سے لے کر شیشہ بند کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ ’’دیکھو میرٹ پر پورا اترا تو ضرور سفارش کروں گا‘‘ ۔ میری خشمگین تشویش، حضور! کیاآپ کے تصورِمیرٹ پر سیر حاصل بحث ممکن ہے ؟ ڈیئرکزن نے استفہامیہ نگاہوں سے دیکھا ،میں نے عرض کیا، BA کی ڈگری فوج کا کمیشن یا سول سروس جائن کرنے کی بنیادی ضرورت پورا کرتی ہے، ہمارے ہزاروں افراد ایسی ڈگریوں سے پیراستہ ، بدقسمتی کہ مقابلہ کے امتحانات میں جوذریعہ اظہار ، اس کے لیے مکمل ان پڑھ۔اس بچے کا موزانہ اپنے بچوں سے کراناظلم۔
ستم ظریفی 18 کروڑ یہ ’’معصوم بے وقوف لوگ‘‘ یکساں مواقع سے محروم ۔ چنانچہ غریب کے بچے کی قسمت میں چارہ کاٹنے اورلکڑی چننے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ترقی کے لیے تعلیم ہی زینہ مگر تعلیم کے نام پر دھوکا دہی، ناقابل برداشت۔ جس تعلیم پر نظام استوار، وہ 18 کروڑعوام کے لیے آئوٹ آف کورس ۔ ’’تعلیم بذریعہ ترقی‘‘مگر پہلے یکساں مواقع یک زبان ،یک نصاب ۔ اگر چین، کوریا ، جاپان، فلپائن ، تھائی لینڈ ، ایران، عرب ،اٹلی، سپین ، ڈنمارک ، فرانس ترقی کی راہ پر گامزن ہیںتووجہ کہ اپنی زبان میں ہی اپنی دنیا پیدا کر چکے ۔ اگر آگے بڑھنا ہے تو اردو زبان کی ترویج کے بغیر ناممکن۔