حامد میر پر قاتلانہ حملہ اور اسمگلنگ کی وباء

April 22, 2014

اس ہفتے شعبہ صحت کے اور کچھ دیگر مسائل کے بارے میں لکھنے کا ارادہ تھا کہ ہفتہ کی شام کو یہ افسوس ناک خبر جیو پر آئی کہ حامد میر قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئے۔ یہ خدا کا شکر ہے کہ ان کی جان بچ گئی۔ اگرچہ حملہ بہت شدید تھا اور حملہ کرانے والوں کے ارادے بالکل ٹھیک نہیں تھے لیکن مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے بھی حامد میر کی گاڑی میں بم رکھا گیا تھا۔
پاکستان صحافیوں کے لئے پچھلے کچھ عرصہ سے ایک خطرناک ملک بن گیا ہے اور اپنے فرائض منصبی اور سچ لکھنے کی پاداش میں کئی صحافی مارے گئے اور زخمی ہوئے جو کہ انتہائی قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ قائد اعظم ؒ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا ’’سچ لکھو چاہے تمہارا قائد اعظم ہی کیوں نہ ناراض ہو جائے‘‘۔ پھر 19ستمبر 1918ء کو قائد اعظمؒ نے فرمایا کہ بے قصور اور بے گناہ لوگوں کو تحفظ فراہم کیجئے جو اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔ وہ حکومت پر بے باکی اور دیانت داری سے نکتہ چینی کر کے حکومت اور عوام دونوں کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ایک طرف بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ خود صحافیوں کو یہ کہہ رہے ہیں۔ دوسری طرف آج قائد کے ملک میں صحافی محفوظ نہیں۔ صحافت پر حملے کرکے ہم دنیا بھر میں کیا منہ دکھا رہے ہیں۔ ویسے تو برصغیر میں تحریک پاکستان کے دنوں میں کئی صحافیوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اخبارات بند کرائے۔ جن میں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہرؔ، مولانا حسرت موہانی اور مولانا ابوالکلام آزادؔ کے نام قابل ذکر ہیں اور صحافتی تاریخ کا اہم باب ہیں۔ حامد میر کے والد اور معروف صحافی، دانشور اور پروفیسر وارث میر میرے اساتذہ میں سے تھے۔ میرے ایم اے صحافت کے تھیسس کے وہ نگران بھی تھے جبکہ میرا وائیوا(VIVA) حمید جہلمی مرحوم نے لیا تھا اور وارث میر کے تیسرے صاحبزادے اور حامد میر کے چھوٹے بھائی عامر میر (جو اس وقت پی ٹی وی میں ایگزیکٹو پروڈیوسر ہیں) کو میں فورمین کرسچین کالج (یعنی ایف سی کالج) میں بی اے میں دو برس صحافت کا مضمون پڑھایا ہے۔ میں ایک زمانے میں شوقیہ فوٹو گرافی کیا کرتا تھا۔ ویسے یہ شوق آج کل بھی کبھی کبھار کرتا ہوں، تو وارث میر صاحب نے اپنی فیملی کی تصاویر مجھ سے بنوائی تھیں، تب یہ بچے ابھی چھوٹے تھے۔ بہرحال وارث میر کا جب انتقال ہوا تو ان کا کوئی بچہ برسرروزگار نہیں تھا۔ فیملی میں حامد میر بڑے ہیں۔ انہوں نے بڑی محنت کی، ایم اے صحافت کیا۔
وارث میر بھی ننگی تلوار تھے۔ سرکار کی نوکری کرتے ہوئے بھی اخبارات میں تنقیدی مضامین اور تقاریر کیا کرتے تھے اور پنجاب یونیورسٹی میں اکثر ان کے سچ کہنے پر ان کو مسائل کا سامنا رہتا تھا۔ سو حامد میر میں بھی اپنے والد کی تمام خوبیاں موجود ہیں اور حامد میر چونکہ ہمارے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے، وہ بھی ایک نڈر اور بیباک صحافی ہے۔ آج پوری دنیا کے صحافی اور خصوصاً پاکستان کے تمام صحافتی حلقے ان کی جرأت اور بیباکی کو سلام پیش کرتے ہیں۔ پرویز رشید کا یہ کہنا کہ دہشت گرد قلم کی آواز کو گولی سے نہیں دبا سکتے، مگر عملاً کیا ہو رہا ہے۔ دہشت گرد ہوں یا کوئی اور ہو، حامد میر پر قاتلانہ حملہ انتہائی افسوسناک اور دکھ والی بات ہے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوں اور اپنے کیپٹل ٹاک میں ہمیں پھر سے نظر آئیں۔ اس سلسلے میں حکومت سے درخواست ہے کہ ان کے علاج کے لئے بہترین ڈاکٹروں پر مشتمل ایک بورڈ ہونا چاہئے کیونکہ انہیں آئندہ چند ہفتے صحت کے حوالے سے سخت ترین احتیاط اور بہترین علاج کی ضرورت ہے جو ملک کے انتہائی سینئر ترین پروفیسروں پر ہونا چاہئے۔
آیئے اب آپ کی توجہ ایک خبر کی طرف دلاتے ہیں اور اس پر بات کرتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو اسمگلنگ کی وجہ سے بہت منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ امریکہ بہادر پتہ نہیں افغانستان سے جاتا بھی ہے یا نہیں، البتہ نیٹو کی فوجوں کے لئے جو سامان اور جنریٹرز ان کے لئے امریکہ بہادر نے منگوائے تھے اب یہ بہت سارا سامان امریکہ کی فوج کا کچھ حصہ جانے کے بعد افغانستان سے سمگل ہو کر پاکستان آرہا ہے۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ جو لوگ اسمگلنگ کر رہے ہیں ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیکن جو لوگ پورے تقاضے اور حکومتی طریقہ کار کو اپنا کر یہ جنریٹرز خرید رہے ہیں ان کے گوداموں پر کسٹم انٹیلی جنس والے گھس کر انہیں ہراساں اور پریشان کر رہے ہیں۔ ایک تو انرجی بحران کی وجہ سے کاروبار پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے اور جو تھوڑا بہت کاروبار ہو رہا ہے ان کو اب کسٹم انٹیلی جنس والے پریشان کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسٹم حکام کی مرضی، منشا اور ان کو نذرانہ دیئے بغیر یہ کیسے ممکن ہے۔ افغانستان سے جنریٹرز اتنی تعداد میں آرہے ہوں اور حکام بے خبر رہیں۔ جو لوگ یہ جنریٹرز خریدوفروخت کر رہے ہیں ان کی منافع کی شرح نہایت کم ہے۔ اصل کمائی تو اسمگلنگ کرنے والا اور جو بارڈر کراس کرا رہا ہے، وہ کما رہا ہے اور کسٹم انٹیلی جنس کی یہ کیسی انٹیلی جنس ہے کہ اسے یہ خبر نہیں کہ کون اسمگلنگ کر رہا ہے اور وہ ان بے چارے دکانداروں اور امپورٹ کرنے والوں جو تمام قانونی تقاضے پورے کرکے یہ جنریٹرز منگوا رہے ہیں انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ آج پاکستان کی کون سی ایسی مارکیٹ ہے جہاں پر سمگل شدہ مال فروخت نہیں ہو رہا، جہاں پر کسٹم والوں کو کریک ڈائون کرنا چاہئے۔ وہاں پر خاموشی ہے اور جس طرف لوگ اپنا کاروبار قانونی تقاضے سے پورا کر رہے ہیں وہاں پر ان کو ہر طریقے سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو ملک کا قانون لوگوں کو تحفظ، آزادی اور عزت کے ساتھ رہنے کا یقین دلاتا ہے تو دوسری طرف لوگوں کی عزت اور نیک نامی پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔ کیا لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ، پشاور کا باڑہ، کراچی کی مارکیٹیں، راولپنڈی کے بازار سمگل شدہ اشیاء سے بھرے پڑے نہیں۔ بھارت، ایران اور افغانستان سے کھلی اسمگلنگ ہو رہی ہے۔ پاکستان میں اسمگلنگ کا آغاز 1960ء میں خیبر ایجنسی میں قائم ہونے والی چند دکانوں سے ہوا، پھر پورا پشاور باڑہ مارکیٹ بن گیا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق ایسے ممالک جن کے پاس بندرگاہ موجود نہ ہو، اپنی برآمدات کے لئے ہمسایہ ممالک سے ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولیات مانگ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افغانستان کے پاس کوئی سمندر نہیں اس وجہ سے اسے پاکستان سے ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولیات لینا پڑیں۔ چنانچہ 1965ء میں پاک افغان ایگریمنٹ ہوا۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ٹرانزٹ ٹریڈ تمام درآمدی ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں سے ماورا ہوتی ہے۔ اس ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں بھی اسمگلنگ ہو رہی ہے ۔
ہمارے ملک میں جو لوگ دوسرے ممالک سے سامان منگوا رہے ہیں ان کے لئے قوانین میں تبدیلی کرکے ایسی سہولیات پیدا کی جائیں جس سے کاروباری لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو اور کسٹم حکام کے لئے رشوت اور دو نمبر طریقوں سے مال کمانے کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ کبھی ہمارے سیاسی رہنمائوں نے جو حکومت میں ہوتے ہیں انہوں نے کسٹم میں کام کرنے والے افسروں کے اخراجات، ان کی کوٹھیاں ان کے بنگلے اور رہن سہن کا پتہ کیا۔ کیا کوئی اے سی کسٹم، کسٹمز کا اعلیٰ آفیسر اپنے بچوں کو بیرون ملک پڑھا سکتا ہے؟ پہلے کسٹم کے افسران سیاسی لوگوں کے ناجائز کام کرتے ہیں، ان کے قریب آتے ہیں پھر وہ ایک ’’جن‘‘ بن جاتے ہیں۔ تاجروں کو پریشان کرنے کی بجائے حکومت پہلے کسٹم افسران کے گوشوارے حاصل کرے، ان کے اخراجات کا جائزہ لے، وہ جس قدر قیمتی کپڑے، گھڑیاں پہنے ہیں جو گاڑیاں اور ڈیفنس میں کوٹھیاں بنا رہے ہیں، ان کا حساب لیا جائے۔ اسمگلنگ کی وجہ سے اس ملک کو جو لوگ اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں ان سے کون حساب لے گا؟