اکیسویں صدی میں جرائد کا قبلہ

May 02, 2014

ہر شہر اور ہر ضلع میں پولیو کے مریض بچّوں کی طرح کم از کم ایک دو ادب کے نام پر رسائل ضرور شائع ہوتے ہیں۔ ہر رسالے کی Recipi ایک ہی ہوتی ہے۔ دو چار حمد، تین چار نعتیں، تین چار تدریسی زیادہ اور تحقیقی کم مضامین، دس بارہ غزلیں، چار پانچ نظمیں، اتنے ہی افسانے، شخصیات اور فکاہیہ کے علاوہ آٹھ دس صفحات پہ مبنی خطوط، ممکن ہوا تو ایک دو مقامی اشتہارات اور رہے اللہ کا نام۔
سنا گیا ہے اور تجربات نے ثابت بھی کیا ہے کہ ہر جریدے کے پیچھے اس کی شخصیت جھلکتی ہے۔ ہر چند کہ صہبا لکھنوی کا انکار اور اظہر جاوید کا تخلیق مسلسل نکلتے رہے مگر ان کا کردار، موہوم اور اوسط درجے ہی کا رہا جبکہ ماہِ نو محمد حسن عسکری، وقار عظیم یا میرے زمانے میں سرکاری ہونے کے باوجود کبھی متنازع، کبھی ترقی پسند نظریات کا حامل رہا، نیا دور جو اب مفقود ہو چکا ہے کو جب تک ممتاز شیریں نے نکالا اس کی علمی اور تحقیقی ہئیت ہی اور تھی۔ بعدازاں ڈاکٹر جمیل جالب اور جمیلہ ہاشمی کی مساعی سے یہ سہ ماہی پرچہ نکلتا تو رہا ہے مگر وہی واجبی فارمولے کے تحت۔ شخصیات چاہے ڈاکٹر سہیل احمد خان کی ہوں کہ صلاح الدین محمود کی، سویرا کو الگ رنگ دے دیتی تھیں۔ طویل عرصے تک فنون اور اوراق، مستند ادبا کی نگرانی میں نکلتے رہے مگر فہرست میں آنکھ بند کر کے، انگلی رکھ کر ترتیب کے ناموں کو بتایا جا سکتا تھا جو 90% فیصد درست ہوتے تھے کہ دونوں شخصیات کا اپنا دائرۂ فکر بلکہ پوری طرح پیری مریدی کا قصّہ ہوتا تھا۔ بہت کم لوگ لائن کراس کرتے تھے۔ نئے لوگوں کیلئے اسی طرح احتیاط ملحوظ رکھنی ہوتی تھی۔ ساقی ایسا پرچہ تھا جس کی کاپیاں جوڑنے سے لے کر ٹکٹیں لگا کر ڈسپیچ کرنے تک کے سارے مراحل خود شاہد احمد دہلوی ادا کرتے تھے جس میں خطوط کا جواب دینا بھی شامل ہوتا تھا۔ وہ پرچہ شاہد احمد دہلوی کے ساتھ ہی بستر مرگ پر چلا گیا۔
سبط حسن نے پاکستانی ادب اور فہمیدہ ریاض نے آواز نکالا جو ضبط ہو گیا۔دونوں پرچے اپنے مدیروں کے سیاسی اور علمی قوت کے آئینہ دار تھے۔ ’ادب لطیف‘ ایسا پرچہ ہے جس کے مدیروں میں مرزا ادیب اور انتظار حسین کے علاوہ ایک سال تک غالب احمد، مستنصر حسین تارڑ، ذوالفقار تابش اور خود صدیقہ بیگم ادارت میں شامل رہیں۔ وہ زمانہ مارشل لاء کا تھا۔ پہلے شمارے میں انور سعید اور افشار کی لائن ڈرائنگز شامل تھیں۔ فہرست کے صفحے پر ڈرائنگ تھی جس میں دل پر 440؍واٹ کا تالا لگا ہوا تھا۔ بازو اور ٹانگیں گھٹنوں اور کہنیوں تک کٹے ہوئے تھے اور قلم گھٹنے میں لگا ہوا دکھایا گیا تھا۔ یہ پرچہ لے کر ایک فوجی افسر میرے پاس آیا کہ آپ کیا سمجھتی ہیں کہ ہم نے ادباء کے بازو اور ٹانگیں کاٹ دی ہیں۔ میں نے فوراً چپراسی بلایا اور کہا ’’دھیان رکھنا کوئی اندر نہ آئے‘‘ میں راز کی بات کر رہی ہوں پھر میں نے فوجی افسر کو بتایا کہ دراصل یہ طنز ہے۔ اس پرچے میں تمام لکھنے والوں پر کہ یہ تحریریں اتنی خراب ہیں کہ یہ نہ صرف ہاتھ پائوں سے نہیں بلکہ گھٹنے سے لکھی گئی معلوم دیتی ہیں اور ان سب کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ فوجی افسر نے کہا ’’آپ سچ کہہ رہی ہیں‘‘ میں نے کہا بالکل سچ۔ آپ لوگ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ یہ مارشل لاء کا زمانہ تھا۔ وہ فوجی افسر مطمئن ہو کر چلا گیا۔ اس زمانے میں بہت سے الفاظ فحش قرار دے دیئے گئے تھے مثلاً ’’رات‘‘ کا لفظ استعمال کرنے کی ممانعت تھی۔ اسی طرح وصل، وصال، بوسہ، جسم کے کسی حصّے کا بیان یہ سب ممنوع تھے، پرچہ نہ تھا، بالکل بہشتی زیور بنا کر نکالنا پڑتا تھا مگر کچھ چالاکیاں سنسر والوں کی نالائقی سے سیکھ لی تھیں۔
ضیاء الحق کے زمانے میں محمد طفیل نے ’’نقوش‘‘ کا قرآن نمبر نکالا، جا کر ضیاء الحق سے ملے اور تجویز دی کہ سارے بیرکوں میں قرآن نمبر کا پہنچنا بے حد ضروری ہے۔ وہ بھی فوراً راضی ہو گئے اور 5؍لاکھ قرآن نمبر بیرکوں میں بھیجے گئے۔ سب کا بھلا، سب کی خیر۔ وہ پرچہ جس نے قاسمی صاحب اور ہاجرہ مسرور سے زندگی پائی تھی، وہ خاموش ہو گیا۔ ’’ادبی دنیا‘‘ مولانا صلاح الدین کی زندگی تک ہی چمکتا رہا، پھر وہ بھی غروب ہو گیا۔ کچھ نامعلوم سے پرچے جیسے ’’قندیل‘‘ شیر محمد اخترکی زندگی تک رہا۔ ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ سبط حسن کی سرکردگی میں اس وقت تک تابندہ رہا جب تک کہ سرکار نے پی پی ایل پر قبضہ نہیں کر لیا۔ سہ ماہی پرچوں کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ ہر تین ماہ بعد ہی نکلیں۔ اس میں اجراء، مکالمہ، اسالیب، ارتقاء کے علاوہ بہت سے شہروں سے نکلنے والے جریدے شامل ہیں۔ ان تمام رسالوں میں ارتقاء نہ صرف سیاسی اور نظریاتی پرچہ ہے بلکہ گزشتہ بارہ برس سے باقاعدگی سے نکل رہا ہے۔ ماہ نامہ ’’چہارسو‘‘ گزشتہ کئی سال سے کمپیوٹر پرنٹ اور شمارے کی شکل میں بھی شائع ہو رہا ہے مگر معیار کے لحاظ سے اوسط درجے کا پرچہ ہے۔ ’’چہارسو‘‘ اور اس طرح کے دیگر جریدے غیر ممالک میں مقیم اردو کے چاہنے والے اور نیم خوردہ ادیب نہ صرف پرچے کی پچاس کاپیاں خریدتے ہیں بلکہ اس طرح کے شماروں کے ذریعے اپنے آپ کو بطور شاعر اور ادیب دنیا بھر میں فروغ دیتے ہیں۔
نیم شاعر اور نیم ادیب فیس بک کے ذریعے اپنی تحریروں کو منظرعام پر لاتے ہیں۔ کچھ لوگ تو سیاسی اور علمی مباحث بھی فیس بک پر کرتے ہیں مگر اس بحث میں تسلسل اور سنجیدگی کی کمی ہوتی ہے۔ حمید شاہد کی مرتب کردہ کتاب راشد، میرا جی اور فیض ای میل پر مباحث کی عمدہ مثال ہے مگر وہ بھی کتابی شکل میں سامنے آئی ہے۔ آپ کو ناصر عباس نیر کا مضمون بہرحال کمپیوٹر سے پرنٹ آئوٹ میں نہیں مل سکے گا۔ اب تو عالم عام پرچوں کا یہ ہے کہ وہ واضح طور پر لکھ دیتے ہیں کہ اپنی تخلیقات کمپوز کر کے بھجوائیں۔ پرچہ خرید کر پڑھیں۔ ویسے اس طلب میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ڈاکٹر سلیم اختر کی طرح بہت سے مصنفین کی تحریریں تو پڑھی نہیں جا سکتی ہیں۔ میں جب ماہ نو میں تھی تو اس زمانے میں ان کے مضمون کے پروف پڑھنے کیلئے بھیج دیا کرتی تھی۔ عالمی سطح پر جو میگزین شائع ہوتے ہیں ان کے یہاں تو یہ لازمی ہے کہ مضمون یا نظم باقاعدہ کمپوز کر کے بھیجا جائے۔ البتہ میگزین میں جن مصنفین کی تخلیقات شائع ہوں ان کو شمارے کی ایک کاپی ضرور بھیجی جاتی ہے۔ یہی روایت ہمارے یہاں ’’آج‘‘ اور دنیا زاد نے بھی قائم رکھی ہوئی ہے۔
اب جبکہ عالمی سطح پر شائع ہونے والا میگزین ’’نیوز ویک‘‘ بند ہو چکا ہے۔ ’’ٹائمز‘‘ بھی لب دم ہے اور ریڈرز ڈائجسٹ بہت کم چھپتا ہے۔ ادھر پیرس ریویو اور پوئٹری ریویو جیسے مشہور جرائد بند ہو چکے ہیں تو اردو کے ماہ ناموں اور سہ ماہیوں کو کون پوچھے گا؟ اس لئے کتابی شکل میں جرائد نظر آتے ہیں۔ بھلا کون کمپیوٹر پر چھ سو صفحات کا رسالہ پڑھے گا؟ اب مختصر ضخامت کے پرچوں کا تھوڑا بہت مستقبل ہے، وہ بھی اس کے لکھنے والوں تک محدود ہے اور رہے گا۔ اب تو ادبی تنازعات اور ادباء کے جھگڑے ہیں کہ جو پرچوں کی خریداری میں اضافہ کرتے تھے۔