آغا ناصر، معراج محمد خان اور گمنام شاعر کا نوحہ

July 24, 2016

الیکٹرانک میڈیا کی پُروقار ترین شخصیت آغا ناصر صاحب کے دُنیا سے رخصت ہونے کا غم کیا کم تھا کہ معراج محمد خان بھی اللہ کو سدھارے۔ ایسے جاندار، ایسے انسان دوست اور ایسے غضب کے انقلاب آفریں لوگ، ایسے چپ چاپ رخصت ہو جائیں گے، یقین آنے کو نہیں۔ آغا صاحب تو الیکٹرانک میڈیا کے پاکستان میں بانیوں میں سے تھے۔ ڈرامہ نویس، پروڈیوسر، ادیب، مصنف اور فنونِ لطیفہ کے شیدائی اور ایسے حلیم انسان کم ہی ملتے ہیں جو زمانے کو بُرے سے اچھے دنوں میں بدلنے کی آرزو کا غم لئے دُنیا سے رخصت لیں۔ نوجوان انقلابی رہنما معراج محمد خان کو کون نہیں جانتا۔ کوئی ہے اُن جیسا آج، کوئی ہمیں چراغ لے کر اِس گھپ اندھیرے میں دکھلائے تو۔ طالب علم رہنما کے طور پر اُنھوں نے نیشنل اسٹوڈینٹس فیڈریشن کو چار چاند لگائے اور ایوب خان کی آمریت کے خلاف سُرخ پھریرا اُٹھا میدان میں اُترے۔ 1968ء کی عوامی تحریک نے ہزاروں سیاسی رہنما اور ترقی پسند کارکن پیدا کئے، لیکن معراج محمد خان لاکھوں میں ایک تھے۔ بھٹو صاحب ایک ہی نظر میں اُن کے گرویدہ ہو گئے اور اُنھیں اپنا جانشین بھی بنا دیا۔ زمانے کی ہوا بڑی انقلابی تھی اور معراج محمد خان انتخاب کی بجائے انقلاب پر مصر تھے۔ بھٹو صاحب نے ہزار جتن کئے وہ الیکشن نہ لڑے جبکہ کراچی میں اُن جیسا لیڈر نہ تھا جو اُن سے زیادہ مقبول ہو۔ انتخابات ہوئے اور بے شمار برج اُلٹ گئے۔ عوامی حکومت بنی تو وہ بھی کچھ مہینوں کے لئے وزیر بنے، لیکن جب کراچی میں مزدوروں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، اُنھوں نے بھٹو صاحب سے راہیں جدا کیں اور دوسرے سر پھروں کی طرح اپنے انقلابی رستے پر چل کھڑے ہوئے۔ اُسی دور میں جب پولیس کی لاٹھیوں سے اُن کا سر پھٹا تو دُنیا نے اُنھیں بھٹو کا متبادل سمجھ کر اُن سے یگانگت کا اظہار تو کیا، لیکن ابھی بھٹو صاحب کا طوطی خوب بول رہا تھا کہ کوئی باغی جانشین کے ساتھ چل پڑتا۔ معراج محمد خان نے قومی محاذ آزادی بنائی اور نوجوانوں کو ملک بھر میں حقیقی عوامی ایجنڈے پر اکٹھا کرنے چل پڑے کہ اتنے میں ردِّ انقلاب کی قوتوں نے بھٹو صاحب کا تختہ ہی نہیں کیا بلکہ تختے پر چڑھا بھی دیا۔ بھٹو صاحب کے بے شمار ساتھی اُنھیں چھوڑ گئے اور یہ باغی اُن کے لئے میدان میں ڈٹ گیا اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں معتوب ہوا اور تشدد کا نشانہ بھی بنا۔ مارشل لاء کی طویل رات میں معراج جیسے لوگوں نے جمہوریت کی شمع جلائے رکھی اور تحریکِ بحالی جمہوریت کے ذریعہ اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ اتنے میں معراج محمد خان کی نظر عمران خان پہ پڑی کہ کیوں نہ اسے آزمایا جائے۔ جلد ہی وہ تحریکِ انصاف کے قائد کے غیرجمہوری ناطوں سے پریشان ہو گئے اور پھر سے قومی محاذ آزادی کو بحال کرنے میں مگن ہو گئے۔ ساری زندگی وہ اس ملک کو سماجی جمہوریت سے فیضیاب کرنے میں مگن رہے اور بغیر کسی لغزش اور طمع کے محنت کش عوام کے حقوق کے لئے سینہ سپر۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ تاریخ اتنی سفاک بھی ہو سکتی ہے اور اسے کیوں اچھے بُرے کی پہچان نہیں، یہاں تک کہ یہ ایسے شاندار لوگوں کے گزرنے سے اور بھی کنگال ہوئی جاتی ہے۔ اور ایسا تاریخ میں ہوتا رہا ہے کہ تاریخ رقم کرنے والے ایسے تاریخی دھارے سے الگ ہو جائیں جہاں صرف ابن الوقتوں کی فصلیں پکتی ہیں۔ وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے اور بس اُس کے سوا کیا نوحہ کنی کی جائے۔
سانحہ ایک اور بھی ہوا ہے۔ بوسیدہ سماجی قدروں اور ظلم کے ضابطوں سے فرار ہونے والی قندیل بھی غیرت کے نام پر بجھا دی گئی۔ کسی دل جلے شاعر کی اِک گمنام نظم مجھے میرے گھر کے باہر کوڑے کے ڈھیر پہ ملی۔ حضرت ایدھی کی روایت پر چلتے ہوئےمیں نے اس لاوارث نظم کو اُٹھایا۔ سوچا کیا کروں؟ کیوں نہ اسے سوشل میڈیا کی نذر کر دوں جہاں قندیل مقبول تھی اور آزاد بھی اور ابھی بھی زندہ ہے۔ اس نوحے کے کچھ نثری نما شعر قارئین کی نذر:
اُس کے نام! جو، غیرت کو صبح شام۔ تارتار کرنے پہ تُلی تھی۔ جیسے زندگی کے خوفناک کھیل میں۔ ہر کوئی، ہر طرح کے آدرشوں اور رواجوں کی لاش پہ۔ اپنی اپنی خواہشوں کو۔ پورا کرنے کی دوڑ میں، ایسا مگن ہے، جیسے وقت کے جلاد کو۔ ہر نابر آواز کو دبانے کے جتن میں۔ کسی اصول، کسی ضابطے کی پروا نہیں۔ ان صاحب کی دعوت گناہ نے۔ اُس کی بڑی معصومانہ، حس شرارت کو۔ حضرت ابلیس نے ایسے۔ چھیڑا، کہ وہ پہنچی وہاں جہاں۔ وہ صاحب باوضو ہو کر۔ ماہ صیام کی افطاری پہ۔ اُسکے، اپنی چھلکتی بے تابیوں کے ساتھ، منتظر تھے۔ جانے اُس کو یہ کیا سوجھی کہ ذرا۔ وہ مولوی صاحب کی دستار کو۔ اپنے سر پہ رکھ کے۔ اِک ایسا ناچ کھیلے کہ، وہ صاحب۔ قندیل بن کے ، اُس کے پائوں میں گریں۔ اور، ناکردہ گناہوں کی معافی طلب کریں۔ اور، وہ بے حیا ئی کی پُتلی اُن کے گناہوں کی تلافی کیلئے دعا گو ہو۔ بس، پھر کیا تھا، قیامت سے کچھ کم نہیں۔ کہ گستاخ دوشیزہ کی یہ جرأت کہ۔ پیشوان مذہب کی خلوت کو، یوں بیچ چوراہے، رسوا کرے۔ وہ، جو اپنی پھوٹی تقدیر کے کشکول کو۔ پدر شاہی کے منہ پہ مار کے، نکل کھڑی تھی۔ جھوٹی دنیا کی، جھوٹی ریتوں کو، مسمار کرنے۔ اور اپنے حسن و جمال کے زعم میں۔ سارے جہاں کی، تمام تر۔ خوشیوں کو، اپنے خالی ہاتھوں میں، سمیٹ کر۔ پھر نہ مُڑ کے دیکھے، اُس نگر کو، جہاں۔ اُسکو ریا کار سیجوں، پہ سجا کر، روایت کی بھینٹ کیا گیا تھا۔ اُسے کیا خبر تھی، کہ۔ پسری غنیم، گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جن میں، اُس پر مردانہ وار کی جرأت نہیں تھی۔ اُس بھائی نے جس کو، اُس نے خدائے ذوالجلال کی قسم۔ اپنی کمائی سے، کسی کام جوگا کیا تھا۔ اس نے کہا کہ، لو میری پیاری بہن، اُس ماں کی کوکھ کی قسم۔ جس نے مجھ کو تُمکو جنم دیا ہے۔ لو، اُس کے دودھ کی قسم۔ یہ دودھ کا اِک گلاس پی لو،کہ تم ہمارے لئے خود کو جانے کہاں کہاں خراب کر کے۔ جانے کن خرابات سے آرہی ہو۔ لو یہ، پی لو میری ماں زاد۔ اور، وہ سو گئی کہ ایسے۔ کہ، اُس کے نامرد ماں جائے نے۔ اپنی خسی انا کی خاطر۔ اُس کا گلا گھونٹ کر۔ رب عزت کے حضور۔ سجدہ شکر ادا کیا۔ کہ گائوں میں مٹی غیرت کا، کوئی بھرم رکھا جا سکے۔ اور، مولوی صاحب کی، بد دعا کا، کچھ تو لحاظ رکھا جا سکے۔ یوں قندیل، مر کے اپنے پُرکھوں کی۔ غیرت کے کام آئی۔ کہ، بہن کے قاتل سر اُٹھا کے چلیں۔ اور، رہی ہے رسم کہ۔ کوئی بہن نہ سر اُٹھا کے چلے۔ کہ مردوں کی پدرشاہانہ عزت کیلئے۔ مفتی قوی صاحب کی خود نمائی کا بھرم رکھنے کیلئے۔ عورت زاد کو۔ زندہ درگور کیا جاتا رہے۔ نامراد شاعر بس یہیں نہ رُکا اور اپنے نوحے کی تان یہاں ختم کی کہ۔ اللہ چاہے جسے عزت دے اور جسے چاہے ذلت!
آغا ناصر اور معراج محمد خان کی جدائی کا غم اپنی جگہ۔ اِس کمبخت گمنام شاعر کے نوحے نے جیسے کلیجہ باہر نکال دیا اور ایسا جھنجھوڑا کہ میں اسے چُھپانے کی بزدلی کے باوجود نہ چُھپا پایا۔ بقول فیض:
گڑی ہیں کتنی صلیبیں میرے دریچے میں
ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لئے
ہر ایک وصل خداوند کی اُمنگ لئے
قندیل مر کر ہماری اسمبلیوں کے شرفا کو بھی جھنجھوڑ گئی کہ غیرت کے نام پر قتل اور زنا بالجبر کو روکنے کے لئے جو قانونی مسودے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں مشقِ ستم کا شکار تھے، اُنھیں اتفاقِ رائے نصیب ہوا۔ کاش یہ قوانین غیرت کے نام پہ جاری ہماری حوائوں کے قتلِ عام کو روکنے کا کوئی چارہ کریں اور زنا بالجبر کی ماری خواتین اُلٹا جیلوں میں پڑی نہ سڑتی رہیں۔