جمہوری اقدار اور احتجاجی سیاست

May 18, 2014

2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کو بنیاد بنا کر احتجاج اب سڑکوں پر آپہنچا ہے۔ احتجاج کرنے والوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کی کسی فورم پر شنوائی نہیں ہورہی، جس کے باعث انہوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ملک میں منتخب پارلیمنٹ موجود ہے اور اس میں وہ اچھی خاصی مؤثر نمائندگی رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنی آواز اس ایوان میں بلند نہیں کر پا رہے۔ جمہوری سیاست میں احتجاج کا راستہ اس وقت اختیار کیاجاتا ہے جب تمام راستے مسدود ہوجائیں۔ ابھی تو عمران خان نے اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ بھی سامنے نہیں رکھا تھا کہ احتجاج کا اعلان اس سے قبل ہی کردیا۔ جس قسم کی انتخابی اصلاحات وہ چاہتے ہیں، اس سے کسی کو بھی انکار نہیں لیکن اس کے لئے سڑکوں کا استعمال مناسب نہیں۔ بہتر یہ ہوتا کہ وہ اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ کے ذریعے پہلے حکومت اور سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی راہ اختیار کرتے اور کسی متفقہ اصلاحاتی پیکیج پر پہنچنے کی کوشش کرتے کیونکہ بار بار وہ اس بات کا اعادہ کر رہے ہیں کہ وہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنا نہیں چاہتے لیکن وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ مستقبل میں ایسی دھاندلی نہ ہو جیسا کہ 11مئی 2013ء کو مبینہ طور پر ہوئی۔ اگر ان کے اس استدلال کو مان لیا جائے تو پھر احتجاج کا جواز سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہتر یہی ہے کہ وہ احتجاج کی راہ ترک کر کے مذاکرات کا بہتر راستہ اختیا کریں۔ ان کا ایک الزام یہ بھی ہے کہ جیو نے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کی ہے، یہ الزام کسی ثبوت اور وضاحت کے بغیر ہی سامنے آگیا ہے۔ اگر کسی نے کسی مبینہ دھاندلی کو کامیاب کرنے کے لئے رائے عامہ ہموار کی ہے تو بات سمجھ میں آسکتی ہے لیکن ایک میڈیا گروپ براہِ راست کس طرح دھاندلی میں ملوث ہوسکتا ہے؟
الزامات خواہ کچھ بھی ہوں انہیں اپنے تمام تر الزامات کے شواہد و ثبوت کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ فوج اور حکومت کے مابین اختلافات کی باتیں مسلسل آرہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور مسلح افواج کے مشترکہ اجلاس کی خبریں بھی ذرائع ابلاغ پر نشر ہورہی ہیں۔ موجودہ حکومت سے اختلاف یا اتفاق سے قطع نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی اس حکومت کو اقتدار سنبھالے ایک برس کا عرصہ گزرا ہے۔ ہمیں اس پر برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ اب افراد نہیں بلکہ اداروں کو کامیاب کرنا ہوگا۔ جب تک افراد کامیاب ہوتے رہیں گے، ملک بحرانوں سے نہیں نکل سکے گا۔
ماضی میں اسلامی نظریاتی کونسل، سپریم جوڈیشل کونسل سمیت دیگر ادارے مکمل طور پر اپنا کردار ادا نہیں کرسکے۔ بعض قوتوں نے تو عدلیہ کے سابق ایک سابق سربراہ پر بھی انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کر ڈالا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ماضی میں ملک میں اداروں کے بجائے افراد کی جن میں پارلیمنٹ بھی شامل ہے۔ ماضی میں اگر پارلیمنٹ اپنا موثر کردار ادا کرتی تو فیصلوں کی ذمہ داری شخصیات پر عائد نہ ہوتی۔ لب لباب یہی ہے کہ بعض جگہ پر یہ بحث چل رہی ہے کہ پاکستان کو ایک نئے معاہدہ عمرانی کی ضرورت ہے۔کوئی بھی دنیاوی قانون حرفِ آخر نہیں ہوتا اور اس میں وقت کے ساتھ تبدیلی اور اصلاحات لائی جاسکتی ہیں لہٰذا اگر آج وقت تقاضا کررہا ہے تو آزادیٔ اظہارِ رائے کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جا سکتا ہے جس سے ملک کے قومی ادارے وحدت ، مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے فرقہ وارانہ نفرت کو کم کیاجاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح انتخابی اصلاحات کے لئے بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں ایسی قابل عمل اصلاحات لائی جاسکتی ہیں جن سے دھاندلی کے راستے کو روکاجاسکے۔ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں آزادی سے لے کر آج تک متعدد انتخابات ہو چکے لیکن ان کے اندر سے آج تک یہ آواز نہیں آئی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں جمہوری ادارے مضبوط اور روایات فروغ پارہی ہیں لہٰذا وقت نہیں گزرا اگر ہم آج بھی اس بات کا عزم کریں کہ ہم انسانی حقوق کے تحفظ اور آزادیٔ اظہار کے ساتھ ایک ایسا نظام وضع کریں گے جس میں ادارے مضبوط ہوں اور جمہوری روایات فروغ پائیں پھر شاید ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے کہ مسلح افواج کے سربراہ کے ساتھ وزیراعظم تصاویر بھی بنوائیں اور اجلاس کی فوٹیج بھی جاری کریں اور ہمیں سڑکوں پر آنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔
اس موقع پر کراچی کی صورت حال کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے اور بالآخر گزشتہ روز انتہائی اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کراچی کے امن کے لئے حتمی اور آخری مرحلے کی کوششوں کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس میں بھی ملک کے قومی اداروں کو اس امر کا خیال رکھنا ہوگا کہ ملزموں اور مجرموں کے بھی حقوق کا تحفظ دستورِ پاکستان کرتا ہے لہٰذا کسی کو بغیر مقدمہ چلائے نقصان نہیں پہنچنا چاہئے کیونکہ یہ عمل ریاست پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرسکتا ہے۔ اُمید ہے کہ پاکستان کے عوام میڈیا پر تنقید کرنے کے حق کو استعمال کریں گے لیکن اس کی بنیاد پر کسی کے آزادیٔ اظہار کے حق کو سلب نہیں ہونے دیں گے۔ غلطیاں ہوتی ہیں تو ان کی اصلاح بھی ہوتی ہے لیکن غلطیوں کی بنیاد پر دشمنیاں استوار نہیں کی جانی چاہئیں۔