بے وطنی بے گھری اور مواقع

August 14, 2014

وہ ملک جو 14اگست 1947کو چٹاگانگ اور کاکسس بازار سے لے کر لنڈی کوتل تک بنا تھا وہ سیاسی و غیرسیاسی حکمرانوں کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں سے گھٹتے گھٹتے ، 14اگست 2014آتے آتے گویا پاکستانی پنجاب کے جی ٹی روڈ کے اضلاع تک محدود ہوگیا ہے ۔
اب جان بچائو تحریک سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کو مشرف بچائو تحریک کا سامنا ہے۔ ان کی طاقت کے مرکز وسطی پنجاب میں ہی انہوں نے پینک بٹن بہت ہی عجلت میں دبادیا ہے۔ اب بادشاہت سے زیادہ تخت لاہور کی حکومت گولی اور لاٹھی کی سرکار لگتی ہے۔ مانا کہ لاشک یہ قدیم یونانی دیو مالائی قصوں میں گنہگاروں کی طرح دیوتائوں کو سخت ناراض کرنے کے موجب بنے ہیں۔ بقول عاصمہ جہانگیر کہ آبپارہ والوں کا پارہ چڑھا ہوا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پارہ اترا کب تھا! بالکل ایسے جیسے اصل میں واقعی اس ملک سے دفعہ ایک سو چوالیس تو کیا مارشل لا بھی ختم کب ہوئے تھے۔ بس ختم ہونے کے وقفے ہی ہوتے رہے ہیں۔ وہ طاہرالقادری جو کبھی اتفاق فائونڈری کی ہی مسجد میں میاں صاحبان کے ہاتھوں لنگر تقسیم کروانے کی نگرانی کیا کرتے تھے وہی آج کل انکے خلاف انقلاب لانے کے درپے ہیں۔ خونی انقلاب۔ کیل دار ڈنڈوں والا۔ اس طرف عمران خان آزادی مارچ ۔ بس1977 کاایکشن ری پلے ہے۔ اس پرانی فلم کے ڈائیریکٹر وہی ہیں صرف اداکار تبدیل ہوئے ہيں۔ زرداری سے موجودہ حکمرانوںنے جیل میں رہنے کے ڈھنگ پر اسباق حاصل کئے تھے تو ان سے کم از کم یہ بھی سیکھ لیتے کہ حکومت کی ریل گڈی پر بیٹھتے ہوئے ایسی انقلابی شعبدہ بازیوں اور مجمع بازیوںکو کیسے برتا جائے۔ زرداری کو تو بس ایسی صورتحال میں انکے پیر نے مشورہ دیا تھا کہ وہ کچھ دنوں کیلئے اس مقام پر منتقل ہوجائیں جو جگہ سمندر کے قریب ہو۔تو وہ پس ایک آدھ ماہ کو کراچی بلاول ہائوس آ گئے تھے۔ انکے دارالحکومت کو کنٹینروں نے گھیرا تھا۔ کینیڈا والوں نے دسمبر میں ایک خراب سانتا کلاز بھیجا تھا۔ کل کسی نے یہ تک کہہ دیا ایسے سارے فتنےاور لڑائیاں جھنگ سے ہی کیو ں آتی ہیں۔ جھنگ سیالوں سے۔اب تخت لاہوراورراولپنڈی براہ راست مدمقابل تو نہیں لیکن کون نہیں جانتا کہ بذریعہ قادری اورعمران خان مدمقابل ہیں۔حکمرانوں کی ناقابل علاج عدم برداشت اور درگزر نہ ہونے کی پالیسی نے دیوتائوں کے بھیجے گئے شعبدہ بازوں کو اور بھی شہ دے دی ہے۔ یہ سب کچھ ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دنوں جیسا لگتا ہے ۔ جب انہوں نے کہا تھا کہ ان کی کرسی مضبوط ہے اور سب نے حلفیہ وفاداری کا اعلان کیا لیکن پھر ہوگیا تھا ’’عزیز ہموطنو! السلام علیکم‘‘ اگر ایسا آج کے دور میں ممکن نہ بھی رہا ہے، پر یہ طے ہے دیوتائوں نے وزیراعظم کو راہ راست پر لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ راہ راست پر آ بھی جائیں لیکن سوال ہے قادری اور کرکٹ خان جیسے جن بوتل میں واپس کیسے جائيں گے۔ کیا ان کو بوتل میں لانے کا وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جو کراچی میں حقیقی اور مجازی کو بوتل میں واپس لانے کا کیا گیا تھا، یا طالبان کو بوتل میں واپس لانے کا کیا گیا ہے۔ بس دھواں ہی دھواں ہے جن غائب ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ آقا اس سے کیا مقصد جاصل کرنا چاہتے ہیں؟ لیکن حکمرانوں کا اصل جرم کیا ہے ؟ سابق فوجی آمر مشرف کے خلاف مقدمہ یا ان کی بھارت اور افغانستان پالیسی ؟
14 اور15 اگست 1947 کی تقسیم سے سب سے زیادہ پنجا ب متاثر ہوا جہاں دونوں طرف سکھوں، ہندوئوں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کا، پڑوسی نے پڑوسی کا ایسا قتل عام کیا جس کی خونی داستانوں کا ایک بڑا حصہ شاید اب تک منظر عام پر بھی نہیں آیا، اغوا، قتل،زبردستی تبدیلی مذہب، ریپس اور دسیوں لاکھ لوگوں کا ایک طرح سے ایک اور ہولوکاسٹ جس نے دھرتیاں تقسیم کردیں۔ ایک سے دو پنجاب بن گئے۔ لڑنے پر مجبور ہوئے آج بھی دونوں پار لاکھوں ہزاروں منقسم خاندان ہیں۔ برصغیر ہندو پاک سے نکالے ہوئے لوگ پھر نکلتے گئے، نقل مکانی، بے گھری، دربدری ، جلاوطنی، تقسیم در تقسیم۔ نقل وطنی کے اندر نقل وطنیاں۔
مسافر تھے مسافر ہیں مہاجر بن کر رہنا ہے
کراچی ہو کہ دلی ہو مہاجر بن کر رہنا ہے
جنگ اخبار نے تقسیم کے بعد کے اس زمانے میں اس دربدری کو’’طوفان نوح ‘‘ کا نام دیا تھا۔اگست 1947کے لاکھوں لوگوں میں جو اس خون آشام تقسیم سے بچتے بچاتے نئی سرحدی لکیر کے اس پار آنیوالی ٹرینوں میں ایک خاندان پاکستان کو چننے والے سرکاری ملازم سید مشرف علی کا بھی تھا جو ببول کے کانٹوں سے سلے تکیے کے غلاف میں سرکاری دفتری پیسے لیکر آئے تھے۔ اس خاندان کی بیگم سرکاری دفتر میں آفس سیکرٹری لگ گئی تھیں۔ اس خاندن نے یہ بٹوارہ قریب سے دیکھا تھا۔ کس نے جانا تھا کہ اسی خاندان کا پڑھائی سے زیادہ کھیل کود کا شوقین ایک بچہ پاکستان کا آمر بنے گا ، آئین توڑے گا ، مقدمے بھگتے گا اور پھر اسے مقدمات سے قانونی طرح نکالنے کے بجائے کچھ لو گ اسے با ہر بھیجناچاہیں گے۔ کچھ ایسا ہی اس ملک میں ہو رہا ہے جہاں پون صدی میں دخل ہونے کے باوجود اگر نہیں آئی تو آزادی نہیں آئی۔ ویسے تو ہرکوئی پدر مدر آزاد ہے۔ بڑی مچھلی چھوٹی کو کھاجانے کو یہاں آزاد ہے۔ مہاجریت وہ پھر سیاسی ہو کہ معاشی اسکی نفسیات ایک عجیب سے ہوتی ہے جو نسل در نسل چلتی رہتی ہے ۔ جیسے لاطینی مقولہ ہے کہ جلاوطنی وہ گائے ہےجو کبھی کبھار زہریلا دودھ دیا کرتی ہے۔ ایک خانواداہ جو امرتسر کے جاتی امراء سے پیٹ کی آگ میں لاہور نقل مکانی کر آیا، ایک خاندان جو کہتے ہیں کہ دہلی میں نہر والی حویلی چھوڑ کر آیا، اور ایک چشم چراغ جالندہریوں کا ( ویسے تو آمر جنرل ضیاء بھی جالندھر کا تھا ) ایک جھنگ کے سیالوں کا جو کینیڈا نقل وطنی کر گیا۔
اب دیکھیں تو ملک میں جو بھی نفسا نفسی ہے۔ کنٹری کے ساتھ کنٹینروں کا خونی کھیل جو کھیلا جا رہا ہے اس میں اپنے گھروں کو بوجہ کوئی بھی چھوڑنے والے ہی خاندانوں کے لوگ گتھم گتھا ہیں۔ یہ آزادی کن کیلئے دربدری تو کن کیلئے مواقع کا بڑا موجب بنی۔ اس تقسیم پر سب سے ایک بہتر انداز میں پھر وہی ڈاکٹر وزیرہ زمیندار نے اپنی کتاب دی لانگ پارٹیشن:میکنگ آف ماڈرن سائوتھ ایشیا میں بے تقسیم کی دربدری اور مواقع پرستی کو کسی سلیم صاحب کے انٹرویو کے ذریعے خوب بیاں کیا ہے:’’ میں گیا تھا (کراچی) باون تریپن میں ۔ دو سال رہا ہوں پاکستان۔ تو وہاں سب کے پاس اچھے فلیٹ تھے ۔ اچھے مکان تھے۔ اور باقی قائداعظم کے مزار کے پاس جھونپڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ بہت تعداد میں۔ بہنوں کے پاس گیا تھا ۔ میں نے سوچا کہ وہاں رہ جائوں ۔اس لئے یہاںہم رہتے تھے ۔ ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے۔ والد بہت سخت تھے، نہ کہیں باہر جانے دیتے تھے۔ نہ گھومنے۔ نہ کسی کے ساتھ جا سکتے تھے۔ وہاں ہم کو آزادی ملی۔ تو پرمٹ ورمٹ تھا۔ تو پاسپورٹ بنایا ڈیڑھ دو سال بعد زبردستی ہمارے والد لے آئے تھے۔ اگر میں وہیں رہ جاتا تو گولی مار دی جاتی۔ کانگریسی ہونے کی وجہ سے بہت طعنے ملتے تھے ۔ یہ مہاجر تحریک چلی ورنہ اس میں کچھ نہ کچھ حصہ لیتا ۔ مار دیا جاتا۔ واپس آنے کے بعد دوسال بعد پاکستانی پاسپورٹ کینسل ہوا ۔ دو تین چار سال کے بعد میں پاکستان سے واپس آیا۔‘‘ سلیم صاحب نامی اس شخص کی اپنی زبانی حرف بہ حرف ایسی کہانی پاکستان کے ماضی حال کو ظاہر کرتی ہے۔ لیکن کتاب کی مصنفہ کو دہلی میں کس نے بتایا تھا کہ سلیم صاحب واپس بھارت اس لیے گئے تھے کہ جس لڑکی سے وہ محبت کیا کرتے تھے اس کی شادی بھارت ہوگئی تھی۔
بالکل جیسے مشرف نے اپنی آپ بیتی (بقلم ہمایوں گوہر) میں کہا ہے کہ 71 کی جنگ انہوں نے اپنی بنگالی محبوبہ سے عشق میں ناکامی کا انتقام لینے کو لڑی تھی۔
ایک ضروری تصحیح:آسٹریلیا سے ہمارے ایک مہربان قاری اور بلوچی ہمعصر تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی امور کے ماہر نے مجھے فون کر کے میرے گزشتہ کالم ’’نذیر عباسی اور امپورٹیڈ انقلابی ‘‘ میں ایک غلطی کی نشاندہی کی کہ کالم میں مذکورہ جمہوری قوتوں کی کراچی کانفرنس میں شرکت کرنے والی شخصیت کا نام جنیفر عیسیٰ نہیں جنیفر موسیٰ تھا جو جسٹس فائز عیسی کی والدہ نہیں چچی تھیں۔ ایسی غلطی نہیں غلطان پر میں انتہائی معذرت خواہ ہوں۔ میری مراد خیر بخش مری کی خوشدامن جنیفر موسیٰ سے ہی تھی۔ زبان کے پھسل جانے کی بھول چوک پر معافی کا طلبگار ہوں۔