ہائے حیدرآباد، وائے حیدرآباد

October 09, 2014

بہت پرانی بات ہے، سول اسپتال میں شاید بڑے نانا داخل تھے۔ گھر والوں کے ساتھ کبھی کبھی وہاں جاناہوتاتھا۔ ایک دھندلا سا تصور ہے۔ ایک صاف ستھرا سا دروازہ ہے، اور اسپتال کی مخصوص بو۔ بعد میں پتہ چلا کسی جراثیم کش دو اکی بو تھی، فرش جس سے دن میں کئی بار صاف کئے جاتے تھے۔ بہت بعد میں اسی اسپتال میں چھوٹے بھائی کو داخل کرانا پڑا۔ ایک حادثے میں اُس کے سر پہ چوٹ لگ گئی تھی، دماغ کے وارڈ میں اسے ایک بستر مل سکا۔ وارڈکابرا حال تھا۔ بستروں پہ میلی کچیلی چادریں بچھی تھیں۔ پتہ نہیں کب سے تبدیل نہیں کی گئی تھیں۔ علی حسن نے کوشش کر کے پانچ چادروں کے احکامات جاری کروائے، وارڈ تک صرف دو یا تین پہنچ پائیں، باقی راستے میں غائب ہو گئیں۔ چادروں کی بات تو رہی ایک طرف، وہاں تو گندگی کا ڈھیر تھا۔ شاید ہی کسی کو یقین آئے۔ بیت الخلا سے فضلہ بہتا ہوا وارڈ کے دروازے تک آیا ہوا تھا، دماغی شعبے کے وارڈ تک۔ کوئی تصور کر سکتا ہے؟ عام صفائی تو رہی ایک طرف، وہاں تو راہداریوں میں بہتا ہوا فضلہ اور گندگی تک صاف نہیں کی گئی تھی۔ روزانہ ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ جو ذمہ دار تھے ان کی غیر ذمہ داری کی حد تھی۔
اپنے پہلے اور دوسرے تجربے کے درمیان، اور بعد میں بھی، اس اسپتال کے بارے میں اچھی اطلاعات بھی ملتی رہیں۔ پہلے ایک کرنل نجیب آئے تھے، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ، یا ایم ایس۔ یہ بھی خاصی پرانی بات ہے۔ ان کی کہانیا ں بہت مشہور ہوئیں۔ وہ کسی بھی وقت اسپتال آجاتے تھے، وہ کھڑکی سے کود کر اندر گئے وارڈ میں، انہوں نے سوتے ہوئے عملہ کو پکڑا۔ حالات، لوگ بتاتے ہیں، یقینا بہتر ہوگئے تھے۔ مگر کب تک؟ کرنل نجیب کے جانے کے بعد پھر وہی صورتِ حال۔ یہ کرنل نجیب نہایت ہی ذمہ دار افسر تھے۔ انہوں نے ہی جامشورو میں شدید دھوپ میں کھڑے ہو کر اسپتال کی تعمیر کرائی تھی۔ اس وقت کے لوگ کہتے ہیں کہ اینٹیںخود اٹھانے میں بھی جھجکتے نہیں تھے۔ کیسا عجیب زمانہ ہے کہ اسی جامشورو اسپتال میں کوئی ایک عمارت یا ایک سڑک کرنل نجیب مرحوم کے نام موسوم نہیں کی جاسکی۔ حیدرآباد میں بھی کوئی وارڈ ان کے نام نہیں کیا گیا۔ افراد ہی نہیں قومیں بھی احسان فراموش ہوتی ہیں۔ بہر حال چھوٹا بھائی جب وہاں داخل تھا، کرنل کو گئے کافی عرصہ ہو چکا تھا۔ اسپتال کا حال تو آپ سن ہی چکے ہیں۔ آج بھی معاملات کوئی خاص بہتر نہیں ہیں۔ ڈاکٹروہاں نہیں ملتے۔ آتے ہی نہیں، اور اگر آتے ہیں تو کبھی شاید ہی وقت پر آتے ہوں۔ پروفیسروں کو تو اپنی نجی پریکٹس سے ہی فرصت نہیں۔ وہ آئیں تو ان کے طلبہ بھی آئیں۔ دوائیں؟ لکھدی جاتی ہیں۔ خریدیں بازار سے۔ یہ جو آس پاس اتنے میڈیکل اسٹور کھلے ہوئے ہیں، کس لئے ہیں؟ وہاں ہر دوا مل جائیگی، وہ بھی جو اس اسپتال کے لئے خریدی گئی تھی۔
ایسا بھی ہوا کہ کوئی نیک نفس ایم ایس آگیا تو حالات بہتر ہو گئے۔ جاننے والے بتاتے ہیں کہ ہادی بخش جتوئی اور غلام مصطفیٰ عباسی کے زمانے میں مریضوں کو دوا ، کھاناا سپتال سے ہی ملتا تھا، اور صفائی بھی اگر کرنل نجیب کے زمانے والی نہیں تو پھر بھی بہتر ہو گئی تھی۔ ایک عزیز بیمار ہوئے، اسپتال گئے، ڈاکٹر نے دوا لکھی۔ انہیں پرانا تجربہ تھا۔ پرچی پکڑ کے جانے لگے کہ دکان سے دوا خریدلیں۔ ڈاکٹر نے ہاتھ پکڑ لیا۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ دوا یہاں سے ہی ملے گی۔ عزیز بہت حیران ہوئے۔ پتہ چلا کوئی اچھا ایم ایس اُن دنوں آیا ہواتھا۔ مگر یہ پرانی بات ہے۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ دوا لکھی جاتی ہے، خریدنا میڈیکل اسٹور سے پڑتی ہے۔ اور یہ اس اسپتال کا حال ہے جو لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کا اسپتال ہے، جہاں ڈاکٹروں کو پڑھایا جاتا ہے، تربیت دی جاتی ہے۔ مگر یونیورسٹی بھی تو اب اس سے بہت دور، ایک دوسرے ضلع، جامشورو میں ہے۔ یہاں حیدرآباد میں تو اب سرکاری میڈیکل کالج بھی نہیں۔ کوئی بناتا ہی نہیں۔ بنوانے میںکسی کو کوئی دلچسپی بھی نہیں۔ طویل عرصہ ہوا، بھٹائی اسپتال بنایا گیا تھا، مرحوم احد یوسف میئر تھے۔ اس اتنے بڑے شہر میں بس یہ دو سرکاری اسپتال ہیں، دوسرے کا حال ذرا بہتر ہے، مگر بس ذرا۔ گورنر عشرت العباد نے طویل مدت تک گورنر رہنے کا ریکارڈ تو قائم کر دیا۔ اس طویل مدت میں انہوں نے سندھ کے اس دوسرے بڑے شہر کے لئے کیا کیا؟ شاید ہی کچھ ایسا ہو جو ان کے کھاتے میں ڈالا جا سکے۔ بلدیاتی اداروں کے قیام کے لئے شور تو بہت مچتا ہے، مچنا بھی چاہئے، مگر یہ سوال بھی تو تشنہء جواب ہے کہ جب یہ ادارے تھے تو اس شہر میں کتنا کام ہوا؟ سڑکیں ٹوٹی اور جگہ جگہ سے دھنسی ہوئی ہیں، گٹر ابلتے ہوئے، تجاوزات بڑھتی ہوئیں۔ کیا یہ وہی شہر ہے جو یہ کبھی تھا، چمکتا دمکتا۔ کیا اسے ایسا ہی ہونا چاہئے؟ کیا کسی کا احتساب نہیں ہونا چاہئے؟
مگر شکایت کس سے کریں۔
حیدرآباد ، ابتدائی کتابوں میں لکھا ہے، ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ یہ پہاڑی پکے قلعہ سے شروع ہو کر جیل پر ختم ہو جاتی ہے۔ اسکول قلعہ میں تھا (اور اب بھی ہے)۔ قلعہ میں انڈس ٹائمز کا دفتر تھا، صحافت یہاں سے شروع کی، 1962 میں۔ راستہ میں ایک چڑھائی ہے۔ اس کے بالکل شروع میں میونسپلٹی کا ایک فائر بریگیڈ اسٹیشن تھا۔ آتے جاتے ، آگ بجھانے کی سرخ رنگ کی گاڑیاں دیکھتے جاتے تھے، جن پر پیتل کی بڑی بڑی گھنٹیاں لگی ہوتی تھیں۔ پتہ نہیں کب یہ اسٹیشن بنا تھا۔ اسے ختم ہوتے ہم نے دیکھا۔ مولانا وصی مظہر ندوی، اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، جماعتِ اسلامی سے ناراض ہوئے تو جمعیت علماء پاکستان کی حمایت سے حیدرآباد کے میئر منتخب ہو گئے۔ ان سے جب ابتدائی ملاقاتیں ہوئیںوہ ایک بوریا نشین، درویش صفت انسان تھے۔ اکثر ان کے مدرسے میں ان سے ملاقات ہوتی، ان کا قیام بھی وہیں تھا۔ اسی مدرسے پر جماعت اسلامی سے ان کا اختلاف ہوا۔ وہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں وزیر بھی رہے۔ اتنی تبدیلی تو آگئی تھی کہ مدرسے کے فرش پر بچھی ہوئی دری کی جگہ صوفوں نے لے لی تھی۔ اب یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کن حالات میں، جب وہ میئر تھے، انہوں نے ایک بلڈرکو بلدیہ کا آگ بجھانے کا یہ اسٹیشن بیچ دیا۔ اب یہاں ایک پلازہ کھڑا ہے، بے ڈھنگا، جس نے پکے قلعہ کے ایک حصے کا حسن بھی گہنا دیا ہے۔ ندوی صاحب نے کوہِ نور سنیما کے نزدیک، ایک پیائو اور تانگہ اسٹینڈ بھی ایسے ہی کسی بلڈر کو بیچ دیا تھا۔ یہ پیائو قیام پاکستان سے پہلے گھوڑوں کو پانی پلانے کے لئے کسی نے بنایا تھا۔ ایک ہودی سی تھی، اس کے پاس نل۔ ہودی میں پانی بھرا ہوتا، تانگہ والا اپنے تانگے سمیت ادھر کا رخ کرتا، گھوڑا پانی پیتا، اور بنانے والے کو دعا بھی دیتا ہوگا۔ اب یہاں بھی ایک عمارت کھڑی ہے۔ اس سڑک پر ،جو اوپر ریشم گلی تک جاتی ہے ، دکانیں بن گئی ہیں، کھوے سے کھوا چھلتا ہے، جانے کو جی بھی نہیں کرتا۔ بس یہ خیال آتا ہے: اب کسے رہنما کرے کوئی۔