پاکستان پیپلزپارٹی کی بحالی اور ’’صدر‘‘ زرداری کی شریک قیادت

October 29, 2014

گزشتہ ہفتے بلاول بھٹو زداری کے خطاب کا بے لاگ تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات کہی گئی تھی کہ ’’بلاول کی تقریر ریموٹ جوش کا اظہاریہ تھی یا اس میں پاکستانی عوام سے دلی وابستگی کی بولتی دھڑکنوں کی صدا گونج رہی تھی۔ بلاول کا بی بی شہید سمیت پیپلزپارٹی کے شہیدوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لہجہ تاریخ کے المناک ادراک میں ڈھلا ہوا تھا یا یہ تذکرہ حاضرین جلسہ کو بے ساختہ یادوں کےریلے میں بہا لے گیا، بہت سے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ بہتر ہوگا ہم ان سوالا ت پر فیصلہ دینے کے بجائے بلاول بھٹو زرداری کے عوامی فطری بندھن کی تصدیق کے لئے مزید چندماہ انتظار کریں۔ اسے مزید کچھ وقت دیں، اس کے اتالیقوں اورتقریر نویسوں کی صلاحیتوںاور شعور پر قابل اعتراض نشان لگانے کی شق بے انصافی ہوگی، انتظار ہی منصفانہ طرز ِ عمل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے کہ وقت کا دھارا ایسا ہے جس کے سبب اس فیصلے کے لمحات سرپر کھڑے ہیں۔ فی الوقت جو کچھ کہاگیا اس پہ گفتگو حالات ہی کا تقاضا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے قومی سیاسی سفر کے تجزیئے کی گنجائش بھی نکل سکتی ہے!‘‘
پاکستان پیپلزپارٹی کی بحالی اور بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کے اس منصفانہ تقاضے کے بعد اب بات آگے بڑھاتے ہیں۔ آیا سب سے عظیم تر قومی سیاسی جماعت کی نشاۃ ثانیہ ہوسکتی ہے یا نہیں؟ کوئی قریب ترین فطری راستہ باقی بچا ہے یا نہیں؟
’’صدر‘‘ آصف علی زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں۔ ’’صدر‘‘ کی شخصیت صبر، شجاعت، مفاہمت اور انتظار کے بنیادی عناصرسے عبارت ہے یعنی یہ چارپہلو ان کی ذات میں سب سے زیادہ کردار ادا کرتے ہیں۔ بی بی سے رشتہ مناکحت میں بندھنے سے لے کر قیدوبند تک، قید وبند سے منصب ِ صدارت تک اورمنصب ِ صدارت سے تاریخ پاکستان میں کسی منتخب سول حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے تک ان کے فکر و عمل میں ان چاروں عناصر ترکیبی کی کارفرمائی ان کے ہر پہلو کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ وہ گزشتہ چندبرسوں سے ذاتی، سیاسی یا صحافتی ملاقاتوں میں طویل سماعت کا مظاہرہ کرتے بلکہ زیادہ تر سنتے ہی ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی فکری اور سیاسی وژن کےاسیرہیں۔ اس میں نرگسیت کی حدتک جاچکے ہیں، چنانچہ کوئی لمحہ ایسا تھا جب انہوں نے پاکستان کے سیاسی کلچر میں کسی سول منتخب حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل کو اس ملک اور اس کے عوام کےتمام دکھوں کا مداوا کرنے کی واحد ناگزیر بنیاد سمجھا۔ وہ اس منزل کے حصول میں تو کامیاب ہوگئے ، صبر، شجاعت، مفاہمت اور انتظار جیت گئے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی ہار گئی؟ ان گزرے پانچ برسوں میں انہوں نے آئینی مدت کی تکمیل کی مقصدیت کے لئے سیاست کی دنیاوی عملیت پسندی کو پارٹی کے نظریاتی اورعوامی رشتے کے پس منظر پر ترجیح دی۔ ترجیح ہی نہیں دی اس پس منظر کے علی الرغم پاکستان پیپلزپارٹی کے نظریاتی اور عوامی رشتے کے پس منظر کو، جو اس کے افتخار اور بقا کا باعث رہا، اس کے لئے سوالیہ نشان بنا دیا۔ پارٹی کےاس دورِ اقتدار سے وابستہ شخصیات اور دیگرافراد کی اکثریت نے صدر کی اس عملیت پسند پالیسی کو چار چاند لگاتے ہوئے فرعونیت، کرپشن اور غیرذمہ داری کے بھیانک ابواب کھولنے میں کسی جزرسی کامظاہرہ نہیںکیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی 2013ء کے قومی انتخابات تک پہنچتے پہنچتےاپنا نظریاتی اور عوامی مال و متاع لٹاچکی تھی۔سسی کاشہر اس کے اپنے نقب زن ہوس پرستوں کی لوٹ اور کم ظرفیوں کے ہاتھوں تاراج کردیا گیا۔ باقی صرف کہانی ہے! ’’صدر‘‘ کا اندازہ سوفی صد غلط نکلا۔ وہ اس زیاں کے احساس کی بنا پر میدان میں اترے ہیں یا انہیں اس اثاثے کی عدم موجودگی کے باوجود پارٹی کی بحالی میں کوئی مشکل نظر نہیں آتی، مجھے نہیں معلوم، ہوسکتا ہے وہ اپنےوژن کی قید میں ایسے کسی خطرے کی نشاندہی کا وجود ہی تسلیم نہ کرتے ہوں مگر لگتا ایسا ہے۔ شاید وقت کا میزان ان کی ’’اسٹریٹجک پالیٹکس‘‘ اپنے پلڑے میں قبول کرنے سے ہی انکار کردے۔ اگر وہ پارٹی کے نظریاتی اور عوامی رشتے کو بہ نظر تجاہل عارفانہ یا بہ نظر استہزا ٔہی دیکھنے پر بضد رہے؟ ’’صدر‘‘ پارٹی کی نظریاتی تاریخ کے وزن پراپنا بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ اس میں انہیں شکست ہوئی، شکست ہی ہوگی۔ آج سندھ کے خلاء میں عمران خان کی آواز سنی جارہی ہے جس کاثبوت زیادہ دور نہیں۔ بلوچستان اورسرحد میں پارٹی حیران و سرگرداں اپنے نظریاتی اور عوامی گمشدہ خزینےکی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہے، پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی اپنی شعوری اور فکری جنگ کی ستیزہ کاریوںکےاڑتے پرزے پکڑنے کی حسرت میں مبتلا ہے۔ ’’صدر‘‘ 70ء، 77ء ، 79ء، 2007ءکے دائروں میں گھوم رہے ہیں۔ ان دائروں کے علاوہ، اگر دیکھاجائے تو بیگم نصرت بھٹو، شاہنوازبھٹو اور مرتضیٰ بھٹوکے غموں کی مجالس بھی برپا کی جاسکتی ہیں لیکن پاکستانی ان عوام دوست علامتوں کےلئے ’’صدر‘‘کی تصدیق سے الرجک ہوتے ہیں۔
یہ ساری علامتیں تو ویسے ہی ان کے روحانی، سیاسی ارتقاء میں گردش کر رہی ہیں، جس کی تاریخی شہادت پاکستان کی حکمرانی کے ایوان کی دیواروں پر ثبت ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھائے جانے کے بعد 1988ء، 1993ء، 2008ء حتیٰ کہ 2013ء کے قومی انتخابات میں تشدد ، تعذیب اور سازشوں کے ناقابل عبور سمندروں کے باوجود پیپلزپارٹی کا دامن نہیں چھوڑا، یہ تو گزرے پانچ برسوں میں ’’صدر‘‘یا پارٹی وژن ہے جس کے منطقی انجام کے دو حصے ہوگئے۔ ایک میں پہلی بار کسی سول منتخب حکومت کی آئینی مدت کا مکمل ہونا، یقیناً یہ ان کا تاریخ ساز کارنامہ ہے۔ دوسرا پاکستان پیپلزپارٹی کا پاکستان کی عوامی دھرتی پر خانماں برباد ہوجانا۔ یہ ان کا اتنا ہی بڑا ’’سیاسی واٹرلو‘‘ہے۔ و ہ چاہے انکار کریں لیکن لمحے کا گجر حقیقت کے عین اوپر بج رہا ہے؟
’’صدر‘‘ آصف علی زرداری نے گورنر ہائوس لاہور میں کہا تھا ’’ہم تاریخ بناتے ہیں‘‘یہ دعویٰ سوفیصد برحق ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت ہی کو یہ قومی شرف حاصل ہے،جو کچھ بقایا ہے اس کا بیشتر کج بحثی کے زمرے میںآتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی بھی عوام اور دھرتی کی امانت ہے۔ قریب ترین راستہ، ’’صدر‘‘ کے لئے ہی نہیں پی پی میں موجود تمام نظریاتی رہنمائوںاور کارکنوںکے لئے ہمارے خیال میں فی الفور یہ ہے کہ ’’صدر‘‘پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس 30نومبر 2014ء کو یا اس سے چند روز بعد پاکستان بھرسے ترقی پسند، لبرل اور مسلم قوم پرست سیاسی دانشوروں، قلمکاروں، ادیبوں، شاعروں، مزدور لیڈروں، علاقائی قومیتوں کے علمبرداروں کی ’’قومی ترقی پسند کانفرنس‘‘بلائیں جہاں 1967ءکی پیپلزپارٹی کی نشاۃ ثانیہ کاموقف سامنے لایا جائے۔ پاکستان میں عورت، مزدور،اقلیتیں،غریب کاشتکار، مزارع، ہاری پیپلزپارٹی کے منتظر ہیں۔ ’’صدر‘‘ یقین کرلیں وہ عملیت پسندی کے ذریعے شاید ’’اقتدار‘‘ کی گیم میں حصہ دار بن جائیں۔ بہرحال انہوں نےاپنی قیادت پی پی کی امانت عوام کوواپس نہ کی تو گیم میں ان کےہارنے کاامکان یقین کی حد تک ہے۔پنجاب میں پی پی کی قیادت کے لئے وہ ’’دلیری،خطابت اور عمل‘‘کی مثلث کو معیاربنائیں، پھر دیکھیں کوئی دستیاب ہے؟ جناب صدر! پارٹی کی جنت عوام کے پائوں تلے ہے تو پھر تاریخ بنائیں، سٹریٹجیز نہیں!
’’صدر‘‘ نےگزشتہ ڈیڑھ دوہفتے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حوالے سے پانچ سات الفاظ اور علامات کا طنزیہ یا غصیلا استعمال کیا۔ ان کے اس انداز سے کم از کم قوم آشنا نہیں۔ انہوں نے اپنے بعض بدترین دشمنوں تک کے بارے میں اپنا وقار و برداشت بردار حسن کبھی داغدار نہیں کیا۔ عمران توبہرحال پاکستان کی ایک محترم و مکرم شناخت ہے۔ کیا ’’صدر‘‘ کا پہلی بار یہ طرز ِ کلام ان کے سیاسی اضطراب کا ثبوت ہے؟بلاول بھٹو زرداری کی قیادت کے معاملے میں ’’دیکھو اورانتظار کرو‘‘ کا اصول عرض کیاجاچکا۔ اپنی وجدانی کیفیت سامنے لانے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ کہ ڈور کاسرا ہاتھ آتا دکھائی نہیں دیتا۔ ’’قومی ترقی پسند کانفرنس‘‘ شاید اس سارے دھچکے کا متبادل ثابت ہو۔