پاکستان: غیر منطقی نجکاری

December 10, 2014

عام طور پر جب ریاست کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ریاست عاقل و دانا ہے اور اس کے ہر فعل کے پس پردہ کوئی منطق ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو ریاست عاقل و دانا ہوتی ہے اور نہ ہی منطقی۔ اس کے الٹ ریاست متضاد اداراتی اور گروہی مفادات کے درمیان کشمکش میں مبتلا رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے اعضاء میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ ریاست کے بارے میں دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ وہ ماورائی طاقت رکھتے ہو ئے ہر مشکل کا حل پیش کر سکتی ہے ، اسی لئے پرانے وقتوں میں بادشاہ کو ظل الہٰی یعنی خدا کے سائے کا لقب دیا جاتا ہے۔ اس پہلو سے بھی دیکھیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ریاست کی مشکل کشائی کی طاقت محدود ہے۔ بہترین ریاست بھی کچھ ذمہ داریاں بہتر طریقے سے نبھاتی ہے جبکہ بہت سے شعبہ جات میں وہ ناکام ہو جاتی ہے۔ دنیا میں جدید ریاستیں کچھ ذمہ داریوں کو اپنا فرض سمجھتی ہیں جبکہ دوسری طرح کے شعبوں میں مداخلت سے احتراز کرتی ہیں۔ مثلاً اکثر ریاستیں امن عامہ، دفاع، تعلیم اور صحت وغیرہ کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں جبکہ معاشی پیداوار کو نجی شعبے کے حوالے کئے رکھتی ہیں۔
پاکستان میں تاریخی طور پر ریاستی ذمہ داریوں کے بارے میں بہت ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ ابہام پاکستان کی تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ نو زائیدہ پاکستانی ریاست بہت بنیادی مشکلات کا شکار تھی۔ صرف فوج اور کسی حد تک نوکر شاہی منظم ادارے تھے۔ بد قسمتی سے سیاسی ادارہ بڑے جاگیرداروں کی محدود ذہنی استعداد کی بنا پر منفعل تھا۔ اس کے الٹ بھارت میں سیاسی ادارے کافی فعال تھے اور زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کردیا گیا تھا۔ پاکستان میں سیاسی ادارے کے خلاء کو فوج اور نوکر شاہی نے پر کیا اور آج تک مسلسل یہ صورت حال قائم ہے۔ فوج اور نوکر شاہی نے ریاستی ترجیحات کو مخصوص انداز میں ترتیب دیا۔ مثلاً اس نے ذاتی عقیدے جیسے فعل پر ریاستی کنٹرول قائم کر دیا جبکہ تعلیم اور صحت کو نظرانداز کرنا شروع کردیا۔پاکستان میں ساٹھ کی دہائی میں نجی شعبے میں صنعتی پیداوار میں کافی ترقی ہوئی لیکن اس کے ثمرات عام شہری تک پہنچ نہ پائے۔ دیہی علاقوں کی وافر پیداوار کو صنعتی شعبے میں منتقل کیا گیا جس سے ملکی دولت چند گھرانوں تک محدود ہو گئی۔ صدر ایوب کے بارے میں عوامی شاعر حبیب جالب کی یہ نظم بہت مقبول ہوئی تھی: ’’بیس گھرانے ہیں آباد اور کروڑوں ہیں نا شاد، صدر ایوب زندہ باد‘‘ ۔ اسی طرح سے زرعی اصلاحات نہ کی گئیں جس سے جاگیردار طبقہ اپنے روایتی جاہ و جلال کے ساتھ قائم و دائم رہا۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے ستر کی دہائی میں صنعتی شعبے کے کافی بڑے حصے کو قومی تحویل میں لے لیا۔ اس وقت یہ مقبول مطالبہ تھا کہ صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کر منصفانہ معاشی نظام قائم کیا جائے۔ اگرچہ عوامی مطالبات میں جاگیرداری کا خاتمہ بھی شامل تھا لیکن بھٹو حکومت نے اس بارے میں کچھ نہیں کیا۔
کہا جاتا ہے کہ بھٹو کی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی نے ملک کو معاشی طور پر برباد کردیا۔ لیکن جس زمانے میں یہ سب کچھ ہورہا تھا تب روس اور چین ریاستی کنٹرول میں صنعتی ترقی کی مثال پیش کررہے تھے۔ مغرب کے بہت سے معیشت دان خود یہ پرچار کرتے تھے کہ نوزائیدہ ریاستوں کو روس اور چین کی طرح کی مرکزی منصوبہ بندی کرنا پڑے گی۔ اس وقت ہندوستان بھی قومی شعبے میں بہت سی بنیادی صنعتیں قائم کر رہا تھا۔ معاشی حلقوں میں کہا جاتا تھا کہ چونکہ ترقی پذیر ممالک میں بڑا سرمایہ کار موجود نہیں ہے اس لئے ریاست کو بڑی اور بنیادی صنعتوں (جیسے اسٹیل ملز) میں سرمایہ کاری کرنا چاہئے۔ اس لئے اس وقت ریاستی کنٹرول میں صنعتیں چلانے کا تصور اتنا عجیب نہیں تھا جتنا کہ اب محسوس ہوتا ہے۔بھٹو کی قومیانے کی پالیسی کا طویل المیعاد نقصان ہوا۔ پاکستانی ریاست انتہائی نابالغ اور ناتواں تھی۔ وہ تو اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو بھی نبھانے کے قابل نہیں تھی وہ قومیائی ہوئی صنعتیں کیسے چلا سکتی تھی۔ قومیانے کی پالیسی بھی غیر منطقی تھی۔ مثلاً یہ نہیں کیا گیا کہ بڑی اور بنیادی صنعتوں پر ریاستی کنٹرول قائم کرکے ترقی کا نیا ماڈل پیش کیا جائے۔ بلکہ اس کے الٹ چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹوں کو بھی قومیا لیا گیا جس سے چھوٹا سرمایہ دار طبقہ بھٹو کا جانی دشمن بن گیا۔ اگرچہ بھٹو کے تجربے کو مکمل طور پر ناکام قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس دور میں اسٹیل مل جیسی بنیادی بڑی صنعت بھی معرض وجود میں آئی لیکن بحیثیت مجموعی بھٹو کے قومیانے کے پروگرام کا صنعتی میدان میں کافی نقصان ہوا۔
ضیاء الحق نے اپنے زمانے میں ہی کافی یونٹ ان کے مالکان کو واپس کر دئیے لیکن بڑے پیمانے پر نجکاری نہیں کی۔ اسی کی دہائی میں قومیائی گئی صنعتیں کوئی بہت بڑا خسارہ بھی نہیں دے رہی تھیں اور ملک میں معاشی ترقی کی رفتار بھی کافی تیز تھی۔ لیکن یہ وہ دور ہے جب موجود سیاسی اداروں کا انحطاط شروع ہو چکا تھا۔ ضیاء الحق کی افغان جنگ میں شمولیت اور مذہبی انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے سے ریاست کمزور ہونا شروع ہوگئی۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں رشوت ستانی، اقربا پروری اور دوسری بہت سی سیاسی و سماجی برائیوں نے جنم لیا۔ ریاست کے ادارے کھوکھلے ہونے لگے اور ریاستی شعبے میں صنعتوں کا خسارہ بڑھنا شروع ہو ا۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ریاستی ادارے جو پہلے ہی بہت کمزور تھے مزید تنزل کا شکار ہو گئے اور ہر میدان میں ان کی کارکردگی منفی ہوتی گئی۔اس پس منظر میں نواز شریف نے 1991میں باقاعدہ نجکاری کا پروگرام مرتب کرکے اس پر عمل کرنا شروع کیا۔ یہ بدلا ہوا دور تھا۔ عالمی سطح پر سوشلسٹ ماڈل کی ناکامی عیاں تھی اور روس اور چین نے سرمایہ داری کا منڈیوں کا نظام اپنا لیا تھا۔ اسی کی دہائی میں امریکہ کے صدر رونالڈ ریگن اور برطانیہ کی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے نجکاری کا ایک نیا تصور پیش کرنا شروع کردیا تھا ۔ دنیا کے اکثر ممالک میں نجکاری ہونا شروع ہو چکی تھی۔ یہ ماحول ستّر کی دہائی کے بالکل بر عکس تھا۔ اس نئی صورت حال میں پاکستان نے نجکاری کا جو فلسفہ اپنایا وہ بھی غیر منطقی تھا۔
نواز شریف بھی نجکاری میں صنعتی پیداوار کے عمل کو طویل المیعاد سیاق و سباق میں نہیں دیکھ رہے تھے ۔ وہ ریاستی اداروں کی فروخت سے بجٹ کا خسارہ پورا کرنے اور بڑے بڑے سڑکوں کے پروجیکٹ بنانے کے لئے نجکاری کو اپنا رہے تھے۔ ان کے دور میں ہونے والی نجکاری میں بہت سی بدعنوانیوں کے اسکینڈل بھی سامنے آئے۔ مزید برآں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ریاستی ترجیحات کی ترتیب نو نہیں کی۔ مثلاً انہوں نے یہ نہیں کہا کہ نجکاری سے جو سرمایہ میسر آئے اسے تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں لگانا چاہئے۔ بلکہ انہوں نے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نجی سیکٹر کے حوالے کر کے ریاست کی بنیادی ذمہ داری سے ہاتھ کھینچ لیا(دنیا کے خالص سرمایہ دار ملک امریکہ میں بھی بنیادی تعلیم کو عمومی طور پر سرکاری تحویل میں چلایا جاتا ہے۔) اس لئے ابھی تک کی جانے والی نجکاری کا عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نجکاری کا مقصد واضح ہونا چاہئے۔ ریاست کو اپنی ترجیحات دوبارہ سے ترتیب دینے پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ اگر کچھ شعبوں میں نجکاری کی شدید ضرورت ہے تو دوسری طرف ریاست کو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں وسیع تر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔