آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا مطالبہ

September 20, 2015

سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے، جو آئندہ سال نومبر میں ریٹائرہو رہے ہیں ۔ پرویز مشرف نے اپنی اس بات کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ جنرل راحیل شریف بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ اس لئے انہیں اپنے منصب پر فائز رہنا چاہئے کیونکہ اس مرحلے پر فوجی قیادت کی تبدیلی سے سب اچھا کام زیرو ہو جائے گا ۔ سابق صدر نے ایک نجی ٹی وی چینل کو اپنے انٹرویو میں جو بات کہی ہے ، وہ پاکستان کے مختلف حلقوں کی طرف سے بھی کہی جا رہی ہے لیکن یہ حلقے کھل کر اس طرح بات نہیں کر رہے تھے ۔ اب لگتا ہے کہ یہ بات کھل کر ہونے لگی ہے۔ اگر یہ مطالبہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی بجائے سیاسی ، سماجی اور عوامی حلقوں کی طرف سے سامنے آتا تو زیادہ مناسب ہوتا ۔ تاہم پرویز مشرف کی اس بات سے جو بحث شروع ہو گئی ہے ، اسے بہرحال منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے ۔
پاکستان میں کسی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پہلی بار نہیں ہو گی ۔ کئی آرمی چیفس کی مدت ملازمت میں قبل ازیں توسیع دی جا چکی ہے ۔ خود جنرل (ر) پرویز مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت سے اپنی مدت ملازمت میں پانچ سال کی توسیع حاصل کی تھی ۔ اسی طرح جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی توسیع دی گئی تھی۔ انہیں توسیع دینے کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں فوج کی کمان تبدیل کرنے سے نقصان ہو گا ۔ یہی جواز اب بھی موجود ہے اور پہلے سے زیادہ مضبوط جواز ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مرتبہ آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع دینے کے مطالبے کی عوامی سطح پر حمایت کی جا رہی ہے کیونکہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج کی پالیسیوں اور حکمت عملی سے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں ۔ یہ فیصلہ تو تاریخ کرے گی کہ عوام میں جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کے حقیقی اسباب کیا تھے اور یہ مقبولیت کب تک قائم رہتی ہے لیکن اس وقت حقیقت یہ ہے کہ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ میں ایسی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ، جنہیں لوگ محسوس کر رہے ہیں ۔ طویل عرصے کے بعد لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس اور خوف ختم ہو رہا ہے ۔ ماضی میں بھی فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل کی ہوں گی مگر خوف کا ماحول ختم نہیں ہو سکا تھا ۔
9اس امر سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جنگ کے دوران فوج کی کمان تبدیل کرنے سے نقصان ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض دیگر حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا ۔ کمانڈر ان چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے دیگر فوجی افسروں کی ترقی کا عمل متاثر ہوتا ہے اور دوسرے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر یہ روایت بن جائے کہ ہر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے تو بعد میں آنے والے فوجی سربراہوں کو بھی مدت ملازمت میں توسیع دینا ہو گی ۔ اس کیلئے کوئی بھی جواز پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح کے مسائل سے بچنے کے لئےضروری ہے کہ کوئی قانونی اور مستقل راستہ اختیار کیا جائے تاکہ اس پر کسی کو اعتراض بھی نہ ہو اور آئندہ مسائل بھی پیدا نہ ہوں ۔ ایک راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ آرمی ، ایئرفورس اور نیوی کے چیفس کی مدت ملازمت 3 سال کی بجائے 5 سال کر دی جائے ۔ اس کیلئے جو ضروری قانون سازی ہے ، وہ بھی کر لی جائے ۔ تاہم قانون سازی سے پہلے تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی مشاورت اور اتفاق رائے ضروری ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت اہم فیصلہ ہو گا ۔ اگر قومی سیاسی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کو بڑھانا مناسب نہیں ہے تو دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ صرف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے قانون سازی کر لی جائے ، جیسا کہ 21 ویں آئینی ترمیم میں ملٹری کورٹس کے صرف دو سال کے قیام کے لئےراستہ نکالا گیا ہے ۔ اگر قومی سیاسی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اس طرح کی قانون سازی سے بھی مستقبل میں کوئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں تو تیسرا راستہ یہ ہے کہ موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود کی مدت ملازمت جنرل راحیل شریف سے کچھ دن پہلے ختم ہو رہی ہے ۔ جنرل راحیل شریف کو اگلی مدت کیلئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرر کر دیا جائے اور انہیں زیادہ بااختیار بنا دیا جائے ۔ اس کیلئے بھی قانون سازی کی جا سکتی ہے ۔ بہرحال جو بھی طریقہ کار اختیار کیا جائے ، وہ قانونی ہو ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ۔ پاکستان کے عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی قوتوں کو بھی یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اس مرتبہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاک فوج جو جنگ لڑ رہی ہے ، وہ ماضی کی جنگوں سے بہت مختلف ہے اور نتیجہ خیز ہو رہی ہے ۔ دہشت گردوں پر مکمل فتح حاصل کرنے تک فوج کی کمان میں تبدیلی کا فیصلہ دانشمندانہ نہیں ہو گا ۔ اس لئے اس معاملے پر مکمل غورو خوض کرکے کوئی فیصلہ کر لینا چاہئے ۔