فوج اور سیاست دانوں کی اخلاقی اتھارٹی کا مسئلہ

November 26, 2016

یہ ’’ایک ہی پیج پر ہونے ‘‘ یا، جیسا کہ وزیر ِاعظم محمد خان جونیجو نے کہا تھا، جنرلوں کو ’’سوزوکی کاروں‘‘تک محدود کرنے کا معاملہ نہیں، بلکہ قومی پالیسی کے خدوخال وضع کرنے کا سوال ہے ۔ یہ درحقیقت قومی قیادت کا کام ہے کہ وہ پالیسی سازی کریں، جنرلوں کواپنی من مانی نہ کرنے دیں ۔
پاکستان کی سیاسی فضا کا یہ وہ گم شدہ ہما ہے جو تاحال کسی کے ہاتھ نہیں آسکا۔ اگرچہ ملک میں جمہوری نظام رائج ، اوراس میں تسلسل بھی دکھائی دینے لگا ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود کہ سیاسی سکہ رائج الوقت کی قدر کم جبکہ جنرلوں کی طاقت میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ خارجہ پالیسی سے لے کر داخلی سیکورٹی تک انہی کے الفاظ فیصلہ کن ہیں ۔ اخلاقی تصورات ایک طرف ، ملک کے سیاسی خدوخال کو تقویت دینے کے لئے اس رجحان کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے ؟اگر الفاظ سے کام چل سکتا ہوتا تو آرٹیکل 6 ، جو آئین کی پامالی کو غداری سے تعبیر کرتا ہے ، ہی تمام معاملات کی درستی کے لئے کافی تھا۔ لیکن تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ سخت الفاظ بھی ہمارے طالع آزمائوں کو خائف کرنے میں ناکام رہے ۔
بہت عرصہ پہلے سیاست دان، جو آج اقتدار میں ہیں، اہم جنرلوں کو اپنے حلقہ ٔ اثر میں لانے کے لئے بہت پرکشش طریقے استعمال کرتے تھے ۔ وہ جنرلوں کا دل موہ لینے کے لئے قیمتی تحائف،جو اُن کے حق میں ٹروجن ہارسز ثابت ہوسکتے تھے ، پیش کیا کرتے تھے ۔ اُن دنوں بی ایم ڈبلیو کی ڈیلر شپ وزیر ِاعظم کے قریبی راز داں، سیف الرحمن کے پاس تھی ، جو کبھی نیب کے چیف بھی رہے اور جن کے قطر سے تعلقات کی تاریخ ایک سند ہے ۔ شجاع نواز اپنی کتاب، ’’Crossed Swords‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بی ایم ڈبیلو کار کا ایسا ہی ایک تحفہ اُس وقت کے آرمی چیف، جنرل آصف نواز کو دینے کی کوشش کی گئی ، جو اُنھوںنے قبول نہ کیا۔ افسوس اُس موقع پر کوئی فوٹو گرافر موجود نہ تھا چنانچہ آنے والی نسلیں جنرل صاحب کا رد ِعمل نہ دیکھ سکیں۔
موجودہ حکمرانوں نے اپنے سابق دور میں ججوں کونیچا دکھایا، سپریم کورٹ میں نااتفاقی کے بیج بوئے اور ایک ناپسندیدہ چیف جسٹس سے جان چھڑائی۔ بیوروکریسی کو لکی ایرانی سرکس کے پالتو شیروں کی طرح رام کرنے کے فن کا مظاہرہ انھوںنے ملک کے سب سے بڑے صوبے، پنجاب میں خوب کیا ہے ۔ مشرف کی مداخلت کا دور نکال کر یہ اس صوبے، جہاں علمیت پسند تصور چڑھتے سورج کی پوجا کی تلقین کرتا ہے ، پر 1985 ء سے حکومت کررہے ہیں۔ یہ خود صنعت کار تھے ، چنانچہ کاروباری طبقہ اور تاجر برادری ہمیشہ سے ہی ان کے ساتھ رہی ۔ صرف ایک ادارہ ، فوج، ہی ان کے دائر ہ اثر سے دور رہا ۔ تاہم اس مسئلے کا تعلق کسی فرد سے نہیں نظام سے تھا۔ موجودہ حکمران بخوبی جانتے تھے کہ صنعتی، مالیاتی اور بنکوں کے لینڈ اسکیپ میں کس طرح من پسند رنگ بھرنے ہیں۔ ٹیکس کے نظام کو کنٹرول کرنے ، سمندر پار اکائونٹس کھولنے اور لندن جیسے مقامات پر جائیدادخریدنے کے لئے رقوم بھجوانے اور اس رقم کا سراغ گم کردینے کا فن سیکھنے کے لئے اُنہیں کسی سے سبق سیکھنے کی ضرورت نہیں۔
یہ ان کا اپنا میدان، وہ اس کے کھلاڑی ہیں اور وہ اس کے نقوش اپنے ہاتھ کی لکیروں کی طرح پہنچانتے ہیں۔ تاہم جنرلوں سے پالیسی معاملات پر بات کرنا دوسری بات ہے ۔ چنانچہ یہاں پریشانی دامن گیر ہوجاتی ہے ۔ انڈیا، افغانستان اور دیگر خارجہ امور پر ان کے لئے اپنے سے کہیں زیادہ باخبر جنرلوں سے بات چیت کرنا مشکل۔ ہم جانتے ہیں کہ شہباز شریف ویسے تو زیادہ تر امور کو تن تنہا نمٹانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن جب آرمی چیفس سے ملاقات کرنی ہوتو چوہدری نثار کو کیوں ساتھ لے جاتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو چوہدری نثار گفتگو کا فن جانتے ہیں اور پھر وہ خود بھی ایک فوجی افسر کے بیٹے اور ایک فوجی افسر، لیفٹیننٹ جنرل افتخار مرحوم کے بھائی ہیں۔ یہ بھی مت بھولیں کہ وہ ایچی سن کالج کے تعلیم یافتہ ہیں، چنانچہ خاکی وردی اُن کے لئے اجنبی نہیں۔ محمد خان جونیجو ایچی سن کے فارغ التحصیل نہیں تھے اور نہ ہی اُن کا آرائشی لہجہ تھا، وہ ایک صاف ستھرا ماضی رکھنے والے کھرے اور دیانت دار سیاست دان تھے، چنانچہ اُنہیں ضیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہونے میں کوئی امر مانع نہ تھا، تاہم اُن کا اپنا کوئی پاورہائوس نہ تھا، اُن کا واحد سیاسی اثاثہ پیر پگاڑا صاحب کی سفارش تھی ۔ ایک بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اُنھوں نے جنرل ضیا الحق کی کبھی چاپلوسی نہیں کی۔ وزیر ِاعظم منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی ملاقات میں اُنھوںنے ضیا کو یہ پوچھ کرحیران کردیاکہ مارشل لاکب اُٹھارہے ہو؟جونیجو کے اس دوٹوک رویے کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے پاس چھپانے کے لئے کچھ نہ تھا۔لیکن جب آپ کا نام مالیاتی اسکینڈلز کی زد میں ہو اور آپ کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہوں تو پھر جنرلوں کو اپنی میز پر بلا کر پالیسی یا تزویراتی معاملات پر ہدایات دیناممکن نہیں۔
ہوسکتا ہے کہ آپ کے پاس ایک نہیں، ایک درجن آرمی چیفس کو نامزد کرنے کا تجربہ ہولیکن اگر آپ کے ہاتھ صاف نہیں اور ملک بھر میں مالیاتی معاملات پر سوال اٹھ رہے ہیں تو پھر آپ کی اخلاقی اتھارٹی خوابوں کی دنیا میں کہیں کھو جاتی ہے ۔ یقینا بعض اعلیٰ فوجی افسران بھی بدعنوانی کے مرتکب پائے گئے ہیں ، اور پھر پراپرٹی بزنس کے وائرس کا کوئی تدارک دکھائی نہیں دیتا۔ فوج اور انٹیلی جنس بیورو کی اس میدان میں کامیابی کے بعد اب توستم ظریف پوچھتے ہیں کہ آئی ایس آئی کی ہائوسنگ اسکیم کب شروع ہوگی؟تاہم ان مسائل کے باوجود فوج نے اپنی پیشہ ورخود مختاری کا تحفظ کیا ،اور یہ ملک کا سب سے منظم ادارہ ہے ۔ اگرچہ مشرف دور میں اس کی ساکھ کو زک پہنچی لیکن جنرل راحیل شریف کی بے مثال قیادت نے اسے بحال کردیا۔ اب یہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کامیاب جنگ کی بھٹی سے کندن بن کر نکلی ہے ۔ اس نے اُن علاقوں پر پاکستانی ریاست کی عملداری بحال کی ہے جہاں انتہاپسندوں کی امارت کم و بیش قائم ہوہی چکی تھی ۔
اس سے قطع نظر کہ نیا آرمی چیف کون ہوگا، ایک پرانا مسئلہ اپنی جگہ پر موجود کہ جب آپ کے ہاتھ بدعنوانی سے آلودہ ہیں تو آپ جنرلوں کے سامنے بیٹھ کر اُنہیں پالیسی لائن کیسے دیں گے ؟جس طرح فوج بھی کاروبار میں الجھ کر جنگ نہیں کرسکتی ، اسی طرح سیاست دان بھی سیاسی طاقت کے بل بوتے پر ذاتی کارو بار کرنے کے مجاز نہیں ہوتے ۔ ایسا کرنا عوام کے مینڈیٹ کی توہین کے مترادف ہے ۔

.