پاک چین راہداری منصوبے کو متنازع نہ بنائیں

January 11, 2016

یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ متنازع ہو گیاہے۔ وفاقی حکومت چاہے کچھ بھی کہتی رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے پر وہ قومی اتفاق رائے ختم کر دیا گیا ہے جو 28 مئی2015ءکو وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس(اے پی سی) میںحاصل کیا گیاتھا۔ اے پی سی میں شاملتقریباً تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اب سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ 28 مئی 2015ءکو راہداری کے جس روٹ پر قومی اتفاق رائے حاصل کیا گیاتھا اس روٹ پر کام نہیں کیا جا رہا اور وفاقی حکومت نے دیگر روٹس پر ازخود منصوبے بنا کر فنڈز مختص کر دیئے ہیں۔ متفقہ روٹ کووفاقی حکومت کے حکام مغربی روٹ کا نام دیتے ہیں جس پر کام نہیں ہو رہا ۔ مغربی روٹ کے علاوہ مشرقی اور وسطی روٹس بھی سامنے آگئے ہیں حالانکہ اے پی سی میں کسی مغربی، مشرقی اور وسطی روٹ کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی۔ اب اگر اس مسئلے پر تنازع پیدا ہوا ہے تو اس کے اسباب اور ذمہ داری کا تعین ہونا چاہئے۔ چینی سفارت خا نےکاحالیہ بیان انتہائی توجہ طلب ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) پر دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے، یہ منصوبہ پورے پاکستان کیلئے ہے اور منصوبے کی تعمیر کیلئے پاکستان کیساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں، پاکستان کے عوام کیلئے ترقی اور خوشحالی لائے گا، امید ہے سیاسی جماعتیں اقتصادی راہداری پر اختلافات ختم کر لیں گی۔ہم شاید اس بات کا اندازہ نہیں لگا رہے کہ کاشغر سے گوادر تک 46 ارب ڈالرز کے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی ہمارے لئے کیا اہمیت ہے اور اسے متنارع بنانے سے ہمیں کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔ اگر اس منصوبے کے فوائد اور نقصانات کا بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں ادراک کیا جائے تو ہماری قومی سلامتی کے ایسے حساس معاملات بھی اس منصوبے سے جڑے ہوئے نظر آئیں گے، جنہیں ہمارے پالیسی ساز اور مقتدر حلقے بوجوہ شعوری یا لاشعوری طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہاں چند حقائق کامختصر تذکرہ ضروری ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ اور اس کے حواریوں نے جوـ "نیو ورلڈ آرڈر" مسلط کیاتھا، وہ اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہے۔ اســ" نیو ورلڈ آرڈر" میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے ایک نئی شکل اختیار کی اور اپنی مرضی کے مطابق دنیا کے مختلف خطوں میں جغرافیہ، ریاستوں کی ہیئت اور قوموں کے سیاسی کردار تبدیل کر دیئے۔ اس "نیو ورلڈ آرڈرـ" کی تباہ کاریوں سے نکلنے کے لئے روس، چین اور "نان امریکن کیمپ" کی دیگر ریاستوں اور قوموں نے اب تک جو کوششیں کیں ان کے نتیجے میں ہمارے خطے سمیت پوری دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ کیمپ نے اس صورت حال میں دوسرے ورلڈ آرڈر کے لئے اپنی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام ایک اور خطرناک روپ اختیار کرنے والا ہے، جس کے خدوخال آہستہ آہستہ واضح ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تصادم کی کیفیت بھی پیدا ہو رہی ہے اور کرہ ارض پر بیک وقت کئی "فلیش پوائنٹس" بن رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا سب سے زیادہ گرم محاذ ہوگا اور پاکستان اپنی اسٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے اپنی تاریخ کے ایک بہت بڑے چیلنج سے دوچار ہوگا۔ اس تناظر میں پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے فوائد اور اسے متنازع بنانے کی صورت میں نقصانات کا ادراک کرنا چاہئے۔
اقتصادی راہداری کا منصوبہ نہ صرف پاکستان کے لئے ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ ہے بلکہ اس خطے میں عالمی طاقتوں کے کھیل کو تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کے اسٹرٹیجک اہداف حاصل کرنے کے لئے یقینی طورپر مددگار ثابت ہوسکتا ہے لہذا اسے فوری فوائد یامفادات کے حصول کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ منصوبہ ہمیں دوستی یا غیرمعمولی سفارتی کوششوں سے نہیں ملا ہے۔ ہماری اسٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے چین اپنامال تجارت پاکستان کے راستے خلیجی ممالک اور وسطی ایشیا کی منڈیوں تک پہنچانا چاہتا ہے کیونکہ یہ راستہ مختصر اور کم خرچ ہے۔ دوسری طرف بھارت بھی اسی راستے سے اپنی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے اور عالمی طاقتیں بھارت کو چین کے مقابلے میں لانا چاہتی ہیں۔ تیسری طرف پاکستان کے مغربی علاقوں خصوصاً بلوچستان، خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں زیر زمین تیل، گیس اور دیگر معدنیات کے وسیع ذخائر پر دنیا کی نظر ہے اور وہ ان علاقوں پر اپنےکنٹرول کے لئے ناپاک کوششیں کررہی ہے۔ ان مغربی علاقوں میں لگی آگ کو اسی پس منظر میں سمجھنا چاہئے۔ 28 مئی کی آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان کی قومی سیاسی قیادت نے راہداری کے روٹ کے بارے میں جو فیصلہ کیا، وہ انتہائی دانش مندانہ اور مدبرانہ فیصلہ تھا۔ اس فیصلے میں قومی سیاسی قیادت کی یہ خواہش واضح طور پر نظر آئی کہ پاکستان کے پسماندہ رہ جانے والے مغربی علاقوں کو ترقی دینے کے تاریخی موقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ان علاقوں کو ترقی دے کر یہاں ہونے والی عالمی سازشوں کاقلع قمع کیا جائے۔ یہ خواہش غلط نہیں ہے۔
وفاقی حکومت کو اگر متفقہ روٹ سے ہٹ کر دوسرے روٹس پر کام کرنا تھا تو اسے قومی سیاسی قیادت کو دوبارہ اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔ وفاقی حکومت نے مختلف اجلاسوں میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ راہداری کا روٹ پختونخوااور بلوچستان کی بجائے کاشغر سے حسن ابدال ،لاہور ،کراچی اور گوادر ہونا چاہئے کیونکہ اس روٹ پر انفراسٹرکچر پہلے ہی موجود ہے اور جلد ہی یہ روٹ مکمل ہو جائے گا۔ یہ فوری فائدے کی تھیوری ہے۔ اس روٹ کو مشرقی روٹ کا نام دیا گیا ہے۔ قومی سیاسی قیادت نے فوری فائدے کی اس تھیوری کو نہ صرف مسترد کردیا بلکہ اسے مخصوص مفاد کی تھیوری قرار دیا ہے۔ اگلے روز پشاور میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں خیبرپختونخوا کی تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے مغربی روٹ پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کالم کی اشاعت تک بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہو چکا ہوگا اور اس کانفرنس کا مطالبہ بھی وہی ہوگا۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے لوگ راہداری کے متفقہ روٹ سے انحراف پر سراپا احتجاج ہیں۔ مشرقی روٹ سے اگرچہ سندھ کو سب سے زیادہ فائدہ ہو رہا ہے۔ ساری تجارت کراچی پورٹ اور بن قاسم پورٹ سے ہوگی۔ اس کے باوجود سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں بھی بلوچستان اور پختونخوا کے مؤقف کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس طرح تین صوبوں نے وفاقی حکومت کے مشرقی روٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ بات صرف تین صوبوں تک محدود نہیں ہے۔ راہداری روٹ کے معاملے پر سینیٹ کی قائم کردہ کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں مغربی روٹ کو پاکستان کی ترقی اور سلامتی کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔ اس کمیٹی میں پنجاب کے سینیٹرز بھی موجود تھے۔ کمیٹی نے بھی مشرقی روٹ کو مسترد کردیا ہے۔ سینیٹ ایوان وفاق ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ کے ذریعے تمام وفاقی اکائیوں نے اپنا فیصلہ صادر کر دیا ہے۔
اوریہ وہی فیصلہ ہے جو 28 مئی2015 کی اے پی سی میں ہوا تھا۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ پورے ملک کے تحفظات اور خدشات کو نظرانداز نہ کرے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بلوچستان جاکر ژوب میں مغل کوٹ تک 81کلومیٹر
سڑک کی تعمیر کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا اور اس پر یہ کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے راہداری کے مغربی روٹ پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ وفاقی حکومت کے ذمہ داروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ لوگوں سے حقائق چھپائیں۔ مذکورہ شاہراہ کے لئے صرف 9 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ یہ سڑک راہداری کا حصہ نہیں ہے۔ 9ارب روپے سے صرف سنگل لین سڑک بنے گی اور یہ منصوبہ 2010 کا ہے۔
اب مغربی روٹ کو مکمل نہ کرنے کے نتائج پر نظر ڈالنا ہوگی۔ پہلی تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے پسماندہ اور شورش زدہ مغربی علاقوں کو ترقی دینے، انہیں ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لانے اور وہاں کے لوگوں کا احساس محرومی ختم کرنے کا تاریخی موقع ضائع ہوجائے گا۔ مشرقی روٹ مکمل ہونے کے بعد مغربی روٹ کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور مرحلہ وار ان علاقوں کو ترقی دینے کے شاید آج جیسے حالات بھی نہ رہیں۔ پاکستان کی موجودہ اسٹرٹیجک اہمیت، Geopoliticalاور Geoeconomics رول نہ رہے۔ اتنے زیادہ مالیاتی وسائل بھی دوبارہ میسر نہ ہوسکیں۔ دوسری تشویشناک بات یہ ہے کہ گوادر پورٹ وہ اہمیت اختیار نہیں کرسکے گی، جو ہم اسے اپنے اسٹرٹیجک اہداف کے حصول کے لئے دینا چاہتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ خلیجی ممالک کے لئے ٹرانزٹ پورٹ بن سکے گی۔ بشرطیکہ خلیجی ممالک کو اس کی ضرورت ہو۔ تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے مغربی علاقوں میں زیر زمین خزانوں پر نظر رکھنے والی عالمی طاقتوں کی بھی یہی خواہش ہے کہ پاکستان ان علاقوں کو ترقی نہ دے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو چاہئے کہ وہ راہداری کے روٹ پر پیدا ہونے والی تشویش کا اس تناظر میں سنجیدگی سے نوٹس لیں اور تحفظات کو فوری طور پر دور کریں۔