سفید فام جب غلطی کرتے ہیں

March 10, 2017

یہاں مغرب کے سفید فام لوگوں کے بارے میں میرا عام تاثّر یہ ہے کہ کبھی غلطی نہیں کرتے لیکن جب کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ اپنے بچّوں کی تعلیم کس سلیقے سے کرتے ہیں ۔ ان کی ذہنی تربیت کرتے ہیں اور انہیں سوچنے ، سمجھنے اور فیصلے کرنے کا ہنر سکھاتے ہیں۔مگر پھر وہی بات کہ یہ لوگ جب کوئی غلط فیصلہ کرتے ہیں تو اتنا بھیانک فیصلہ کرتے ہیں کہ پوری قوم کی تقدیر تلپٹ ہو جاتی ہے۔ پھر دوسرا کام جو کر تے ہیں وہ بھی عقل کو دنگ کر دیتا ہے یعنی پھر اپنی بھول، حماقت اور بے وقوفی کو درست ثابت کرنے پر پورا زور صرف کردیتے ہیں۔ ایسی ایسی تاویلیں نکال کر لاتے ہیں کہ ان کی بات کی داد دینی پڑتی ہے۔اب اگر ان کے احمقانہ فیصلوں کی تفصیل میں جائیں تو دوتین مثالیں اتنی تازہ ہیں کہ کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ۔ وہ ہم سب کی زندگیوں میں پیش آئی ہیں۔ ان میں سے ایک مثال برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور امریکہ کے صدر جارج بش کی ہے جو خدا جانے اپنی کس ذہانت کو کام میں لائے اور عراق پر حملہ کردیا۔ہاں ، اگر وہ حملہ جان بوجھ کر کیا گیا اور اس کے ان ہی نتیجوں کے خواہش مند تھے جو آج نظر آرہے ہیں ، یعنی پورے مشرق وسطیٰ اور دنیا ئے اسلام کے ایک بڑے علاقے کو اجاڑ دیا جائے تو ٹونی بلیئر جیسے سیاست دان کو داد دینا پڑے گی۔ لیکن اگر وہ دلیلیں درست تھیں جن کی بنا پر تازہ تاریخی حماقت سرزد ہوئی تو ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جائے گا۔ اُس کے بعد غضب یہ کہ بش جونیئر تو کہیں چپ ہوکر بیٹھ ر ہے لیکن بلیئر صاحب سینہ تان تان کر آج بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا فیصلہ درست تھا۔ اوپر سے یہ کہ بعض طاقتیں ان کو سراہ رہی ہیں، انہیں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی ذمے داری سونپی جارہی ہے خصوصاً اسرائیل مختلف بہانو ں سے انہیں بڑی بڑی اجرتیں دے رہا ہے۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس برطانوی وزیر اعظم نے اسرائیل کی بڑی تمنّا پوری کردی اور عظیم تر اسرائیل قائم کرنے کا اس کا خواب ایک قدم اور آگے بڑھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس لمحے ساری جمہوریت دھری کی دھری رہ گئی۔ مختلف دارالحکومتوں میں کئی کئی لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلے اور مطالبہ کیا کہ عراق پر حملے جیسی حماقت نہ کی جائے لیکن جمہوریت کے ٹھیکے داروں نے یہ فلک شگاف نعرے ایک کان سے سنے اور دوسرے سے اڑا دئیے۔
اب ہم آتے ہیں اپنے صاحبان فہم فراست کے دوسرے کارنامے کی طرف۔اپنے ہاتھوں اپنی زندگی دشوار بنانے کی یہ حماقت بھی برطانیہ ہی میں ہوئی اور وہ بھی اس شان سے کہ جمہوریت تماشا بن کر رہ گئی۔ اور وہ تھا برطانیہ کا دنیا کی سب سے بڑی منڈی سے نکل جانے کا فیصلہ۔پوری قوم کو یقین تھا کہ اگر یورپی یونین چھوڑنے کے سوال پر عوام کی رائے شماری کی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ برطانوی عوام یونین میں بدستور شامل رہنے کے حق میں فیصلہ دیں گے۔اس قسم کی یقین دہانیوں کے بعد اب جو رائے شماری کرائی گئی تو دنیا نے اپنی انگلیاں دانتوں میں دبا لیں۔ لوگوں نے یونین سے نکل جانے کا فیصلہ سنادیا۔ یہ پہلے سے طے تھا کہ عوام کا جو بھی فیصلہ ہوگا اسے ہر حال میں تسلیم کیا جائے گا۔ یہاں تک کہاگیا تھا کہ اگر یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ ہوا تو اگلی صبح اپنا سازو سامان سمیٹ کر واپس آجائیں گے۔ بہر حال، جمہوریت کا تو یہ طے شدہ اصول ہے کہ عوام کی رائے سب سے مقدم اور بڑھ کر ہوتی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ برطانیہ اپنا زخم چاٹ رہا ہے اور یورپی منڈی سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔حکومت کی مسند پر نئی وزیر اعظم بٹھا دی گئی ہیں جنہیں منڈی سے نکلنے کا کام سونپا گیا ہے۔ وہ بھی پہلو بدل بدل کر اپنی نت نئی دشواریوں کا رونا رو رہی ہیں۔
اب ہم آتے ہیں تیسری تاریخی ٹھوکر کی طرف۔ امریکہ میں جیسے دو صدیوں سے انتخابات ہوتے آئے ہیں، ویسا ہی الیکشن ہورہا تھا۔ وہ جانے پہچانے روایتی سیاست داں صدارت کے امید وار تھے۔ تمام کام خوش اسلوبی سے چل رہے تھے کہ اچانک ایک دھماکہ ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نام کے ایک صاحب جن کے پاس دولت کے انبار تھے اور جن کی باتوں پر ایک دنیا ہنسا کرتی تھی، وہ اپنے بے پناہ وسائل لے کر الیکشن کے اکھاڑے میں کود پڑے۔ وہ نہ روایتی سیاست داں تھے نہ کبھی کسی اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے تھے۔ انہوں نے تقریریں شرو ع کیںجن پر پہلے پہل لوگ ہنسے اور پھر یہ ہوا کہ وہی لوگ ان کی باتیں دھیان سے سننے لگے۔ جو شخص کبھی سیاست میں نہ رہا ہو اور جسے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی فکر نہ ہو وہ پھر اپنی پالیسیاں بیان کرنے میں کسی تکلف سے کام نہیں لیتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے توامریکہ میں ان مسلمانوں کا داخلہ بند کردیں گے جن سے ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے، میکسیکو سے تارکین وطن ٹہلتے ہوئے امریکہ چلے آرہے ہیں، وہ سر حد پر سینکڑوں میل لمبی دیوار کھڑی کردیں گے اوریہ کہ سابق صدر اوباما نے غریبوں کے ارزاں دوا علاج کا جو نظام رائج کردیا ہے وہ اس کو مسترد اور منسوخ کرکے نیا نظام لائیں گے۔ لیجئے صاحب ۔ انتخابات ہوئے اور اہل امریکہ نے کمال کا کام کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دے کر ملک کا صدر بنا دیا۔ انہوں نے جو اعلانات کئے تھے ، وہ کوئی مذاق نہ تھا۔ انہوں نے ان سب پر عمل درآمد شرو ع کردیا ہے اور پوری امریکی وفاقی انتظامیہ ان کے ساتھ کھڑی ہے۔اس قصے سے ایک سبق ملتا ہے۔ و ہ یہ کہ یہ روایتی لوگ اقتدار میں آکر وہی روایتی حرکتیں شروع کردیتے ہیں۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس پرانے ڈھرّے سے پیچھا چھڑائے اور اپنی تقدیر سمیت ہر چیز بدل دے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ایسا حاکم لائے جو پہلے کبھی بر سر اقتدار نہ رہا ہو۔

.