ریکوڈک ، عالمی عدالت اور پاکستان

March 25, 2017

بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں تانبے اور سونے کے ذخائر کی کان کنی کے لیے ٹیتھیان کاپر کمپنی کی جانب سے اپنے لائسنس کی منسوخی پر حکومت پاکستان کے خلاف عالمی بینک کے زیر اہتمام بین الاقوامی ثالثی ٹریبونل میں دائر کیے گئے مقدمے میں معاہدے کی کئی شقوں کی خلاف ورزی کے دعوے پر مبنی کمپنی کا موقف تسلیم کیے جانے اور اس کے دعوے کے مطابق پاکستان پر امکانی طور پر چار سو ملین ڈالر کا بھاری ہرجانہ عائد کیے جانے کی خبر کے پیر کو منظر عام پر آنے کے بعد اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے گزشتہ روز دعویٰ کیا ہے کہ یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے ،ٹریبونل ریکوڈک کان کنی معاہدے میں فرم کے خلاف پاکستان کے پیش کردہ شواہد کو تسلیم کرچکا ہے جن کی رو سے کمپنی نے لائسنس حاصل کرنے کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کیے تھے جس کی بناء پر یہ معاملہ ابھی آگے چلے گا۔ انہوں نے اس بات پر اظہار افسوس کیا ہے کہ کمپنی کے خلاف پاکستان کے فراہم کردہ شواہد کو درست تسلیم کرنے کے باوجود ٹریبونل نے لائسنس کی منسوخی پر کمپنی کی جانب سے پاکستان کے خلاف مالی ادائیگی کے دعووں کو مسترد نہیں کیا۔ بلوچستان ملک کا معدنی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ ریکوڈک اور سینڈک کے علاقے سونے اور تانبے جیسی قیمتی دھاتوں کے وسیع ذخائر کے حامل ہیں، لیکن ہمارے مقتدرطبقے بالعموم بدعنوانی اور حرص و ہوس کی جس لعنت کا شکار ہیں اس کی وجہ سے یہ ذخائر نہ بلوچستان کے مفلوک الحال عوام کے شب و روز کی تلخیوں میں کسی کمی کا سبب بن سکے ہیں نہ ملک کی مجموعی ترقی اور خوشحالی میں ان کا اب تک کوئی حصہ ہے۔ عالمی ثالثی عدالتوں میں بھی اپنے جائز موقف کو منوانے میں جس مستعدی اور بہتر قوت فیصلہ کی ضرورت ہوتی ہے اس میں اکثر کوتاہی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ امید ہے کہ ریکوڈک جیسے اہم معاملے میں صورت حال کو پاکستان کے حق میں بدلنے کی جوگنجائش باقی ہے اسے تساہل کی نذر نہیں ہونے دیا جائے گا اور پاکستانی موقف کی کامیابی کی کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔

.