پولیس میں سیاسی مداخلت

April 04, 2017

ترقی یافتہ ممالک میں پولیس ہر طرح کے سیاسی و سماجی دبائو سے آزاد ہوتی ہے۔ اگرچہ وہاں پولیس بظاہر حکومت کوجوابدہ ہوتی ہے مگر دراصل وہ قانون کوجوابدہ ہوتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی حکومتیں پولیس کے معاملات میں مداخلت کرتی ہیں اور اسے آزادانہ کام نہیں کرنے دیتیں۔ اس معاملے میں گھر کی گواہی کو بہت اہمیت دی جانی چاہئے ۔اس حوالے سے گزشتہ روز انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب مشتاق احمد سکھیرا نے جیو ٹی وی کے پروگرام جرگہ میں اعتراف کیا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی نسبت سندھ اور پنجاب پولیس میں سیاسی مداخلت زیادہ ہے،پنجاب میں کسی قدر اور سندھ میں برس ہا برس سے پولیس کی بھرتیاں سیاسی مداخلت اور شخصی ہدایات پر کی گئیں جس کا نتیجہ ساری قوم کے سامنے ہے۔ آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے بھرتیوں اور دوسرے معاملات میں سیاسی حکومت کی ماورائے میرٹ ہدایات تسلیم کرنے سے انکار کردیا پہلے انہیں جبری رخصت پر بھیجا گیا اور پھر جب سندھ ہائیکورٹ نے انہیں اپنی پوسٹ دوبارہ سنبھالنے کے احکامات جاری کئے تو سندھ حکومت نے ان کی جگہ ایک قائمقام آئی جی لگا دیا جس کےنتیجے میں عملاً سندھ میں ایک کی بجائے دو آئی جی کام کررہے ہیں۔ پیر کو سندھ ہائیکورٹ نے ایک بار پھر سندھ حکومت کا اے ڈی خواجہ کو ہٹانےکا نوٹیفکیشن معطل کردیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت اس کے بعد کیا قدم اٹھاتی ہے اس سے موجودہ بحرانی کیفیت ختم ہوتی ہے یا نہیں۔ پولیس کے شعبے میں سیاسی مداخلت کے بعد تھانوں میں پولیس کے غیر مہذب رویے کے کلچر کا خاتمہ ضروری ہے۔ جس کے بارے میں پنجاب کے آئی جی کا کہنا ہے کہ اس کلچر کوآئی ٹی مانیٹرنگ کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں ایسی قانون سازی کریں جس میں پولیس کو مکمل خودمختاری دی جائے۔ تھانہ کلچر آئی ٹی مانیٹرنگ سے زیادہ پولیس کے موجودہ ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لانے اور اخلاقی تعلیم و تربیت کا شاندار نظام قائم کرنے سے ہی تبدیل ہوسکتا ہے۔

.