جہالت کے اندھیروں کی دہشت گردی

April 05, 2017

ہمارے استاد ڈاکٹر غلام جیلانیبرق کہا کرتے تھے کہ دانش کی جہالت کے خلاف جنگ دنیا کی سب سے بڑی اور خوفناک جنگ ہے، اگرچہ عام لوگوں کے خیال میں دانش، عقل و خرد کا پلہ بھاری ہے اور جنگ کی آخری لڑائی میں عقل و خرد کی فتح ہوگی مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جہالت اور بے وقوفی کو دانش شکست نہیں دے سکے گی۔ ہر گزرتے وقت کے لمحے کے ساتھ جہالت اور ذہنی پسماندگی اپنا کوئی نہ کوئی جلوہ ظاہر کررہی ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین واردات سرگودھا کے ایک مزار کو اپنا ذریعہ روزگار بنانے میں مصروف عناصر کے تنازع میں بیس انسانی زندگیوں کو تلف کرنے کی واردات ہے جس کے ذریعے جہالت، ذہنی پسماندگی اور فرسودگی کے نئے پہلو ننگے ہوتے ہیں۔ پتہ چلتا ہے کہ کچھ عناصر اس بات پر اعتبار کرتے ہیں کہ لوگوں کو قتل کرنے کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرنے کی طاقت کچھ لوگوں کو حاصل ہوسکتی ہے۔ کسی مزار اقدس پر تمام کپڑے اتار کر دھمال ڈالی جائے تو خداوند کریم کی مہربانی حاصل کی جاسکتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سرگودھا کے علاقے کے اس مزار کے متولی نے جو مریدوں کے ننگے رقص سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے اپنے بیس مریدوں کو اس دعوے کے ساتھ شراب یا کوئی نشہ آور شے پلا کر قتل کرنے اور پھر زندہ کردکھانے کا معجزہ کر دکھانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ متولی کو اہل مزار بزرگ کے بیٹے کی جانب سے یہ اندیشہ دکھائی دے رہا تھا کہ وہ متولی سے روزگارکاذریعہ مزار واپس لے کر اپنے روزگار میں اضافہ کرلے گا۔ اس اندیشے یا خوف کے تحت متولی نے بیس مریدوں کو قتل کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دکھانے کا اعلان کیا اور اب شاید اس جرم کے ارتکاب میں سزا کی پھانسی پر جھول جائے گا۔جعلی پیروں، نقلی بزرگوں اور دھوکے بازوں نے اپنے ذاتی مفاد کے تحفظ کی غیر فطری حرکت اور باتوں سے تقریباً تمام مذاہب کی اصلیت اور پاکیزگی کو بری طرح متاثر کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں غریب عوام کی جہالت اور ان پڑھ لوگوں کی ذہنی معذوریاں بھی اپنا کام دکھارہی ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ بھی کہ ہمارے لوگوں کو تعلیم کے حصول کی کوشش میں ہونے والی کچھ کامیابی نے بھی کوئی مثبت صورتحال پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی اور تعلیم کے میدان میں کامیابی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں سمجھی جاتی۔ وطن عزیز کی ایک بدقسمتی یہ کہ خواندگی کے شعبے کے اضافے کی رفتار آبادی میں اضافے کی رفتار کے مقابلے میں بہت ہی کم بتائی جاتی ہے اور اندیشہ موجود ہے کہ خواندگی ا ور ملکی آبادی میں اضافہ دریا یا ندی کے دو کناروں کی طرح فاصلےمیں ہی رہے گا۔ جہالت کا موجیں مارتا ہوا دریا سوکھے تو دھیان ملکی آبادی کو قابو میں رکھنے کی طرف جائے گا۔ مستقبل قریب میں پاکستان کی مردم شماری کے ذریعے پتہ چلے گا کہ ہماری آبادی ہماری اپنی توقعات اور اندیشوں سے کس قدر بڑھ چکی ہے اور ہمارے قومی وسائل آبادی کے اس اضافہ کے تقاضے پورے کر سکیں گے یا نہیں؟امید بلکہ یقین ہونا چاہئے کہ پاکستان کے پالیسی ساز ادارے ملک میں بڑھتی ہوئی جہالت اور ذہنی پسماندگی کے ذریعے پھیلنے والی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور فتح پانے کی کوشش میں کامیاب ہوں گے مگر قومی تقاضا ہے کہ جہالت کے اس ویرانے کو کم از کم وقت میں عقل و دانش کے تقاضوں سے معمور کیا جائے۔ پاکستان کی قومی زندگی کی پہلی صدی کی تکمیل کے ساتھ ملک کو جہالت کے اندھیروں سے نجات دلانے کی ضرورت ہے جہالت کے اندھیروں سے نکل کر ہی ہم چین پاکستان اقتصادی کاریڈور کی روشنیاں بھی دیکھ سکیں گے، ورنہ ہم جہالت کے اندھیروں میں ہی بھٹکتے رہیں گے۔ قبروں اور مزاروں کو بے گناہوں کے خون سے نہلاتے رہیں گے۔



.