پارہ نمبر16،(خلاصہ تراویح)

June 11, 2017

مولانا ڈاکٹر سعید احمد صدیقی
خضر علیہ السلام کا جواب:
الحمدللہ آج ہم سولہویں پارے کا خلاصہ پڑھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں، جس کی ابتدا حضرت خضر علیہ السلام کے جواب سے ہے کہ جب موسیٰؑ نے کہا کہ تم نے ایک بچے کو ناحق قتل کیا، تو خضر علیہ السلام نے کہا ’’میں نے کہا تھا کہ آپ صبر نہ کر سکیں گے‘‘ جس پر حضرت موسیٰؑ نے کہا، اب اگر میں کچھ پوچھوں تو مجھے ساتھ نہ رکھیے گا، آگے بڑھے تو ایک گائوں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے انکار کر دیا مگر حضرت خضرؑ نے ان گائوں والوں کی ایک گرتی ہوئی دیوار کو ٹھیک کر دیا، جس پر حضرت موسیٰؑ نے کہاکہ اگر آپ چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے، اس پر حضرت خضرؑ نے کہا کہ اب ہماری راہیں جدا ہیں اور پھر سارے کاموں کی مصلحت بتائی اور کہا کہ وہ سب ہم نے خود نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، کشتی چند مسکینوں کی تھی، آگے ایک ظالم بادشاہ تھا جو بے عیب کشتیوں کو پکڑ لیتا تھا، میں نے اس کو محفوظ بنانے کے لئے عیب دار کر دیا، اور جو لڑکا قتل کیا تو اس کے والدین صالح مومن تھے، لڑکا بڑا ہو کر کفر و سرکشی کرتا اور والدین کو راہ راست سے ہٹا دیتا، اور دیوار دو یتیم بچوں کی تھی، ان کے والد ایک صالح انسان تھے، انہوں نے بچوں کے لئے دیوار کے نیچے خزانہ چھپایا تھا، دیوار گرتی تو یتیم بچوں کا خزانہ ضائع ہو جاتا، یہ وہ حقیقت ہے، جس پر آپؑ صبر نہ کر سکے۔
ذوالقرنین:
ذوالقرنین ایک نہایت صاحب قوت و حشمت بادشاہ تھا، جسے مادی قوت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے روحانی اور ایمانی طاقت بھی عطا فرمائی تھی، اس کی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع تھا، وہ ایک طرف مشرق کے آخری کنارے اور دوسری طرف مغرب کے انتہائی سرے تک پہنچ گیا تھا۔
لوہے اور تانبے کی آمیزش سے عظیم دیوار کی تعمیر:
ذوالقرنین کی فتوحات کے زمانے میں اس کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا، جو پہاڑوں کے درمیان آباد تھی، اور ہمیشہ ایک وحشی قوم ’’یاجوج ماجوج‘‘ کے حملوں کا نشانہ بنتی تھی، اس مظلوم قوم کی درخواست پر حد فاصل کے طور پر لوہے اور تانبے کی آمیزش سے ذوالقرنین نے ایک مضبوط اور عظیم دیوار تعمیر کر دی، جس سے وہ قوم یاجوج ماجوج کے حملوں سے محفوظ ہو گئی۔
قرب قیامت:
قرب قیامت کے وقت یہ دیوار ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور یاجوج ماجوج پوری دنیا پر چھا جائیں گے۔
رب کے کلمات:
بیان فرمایا گیا کہ رب کے کلمات لکھنے کے لئے سارے سمندر سیاہی بن جائیں تو وہ ختم ہو جائیں گے مگر رب کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔
رب سے ملاقات:
سورت کے آخر میں کہا گیا کہ جو رب سے ملاقات کی آرزو رکھتا ہے، وہ اچھے کام کرے اور پروردگار کی بندگی میں کسی بھی دوسرے کو شریک نہ کرے۔
’’سورہ مریم‘‘
ترتیبی اعتبار سے اس کا نمبر انیسواں ہے، جب کہ نزولی اعتبار سے اس کا نمبر44ہے، یہ مکی سورت ہے، جو ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی، چونکہ اس میں بی بی مریمؑ کا ذکر ہے، اس مناسبت سے سورہ مریم کہلاتی ہے۔ اس کی ابتدا میں حضرت زکریاؑ پر اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام کا تذکرہ ہے کہ ان کی بیوی بانجھ تھیں اور یہ بہت بوڑھے، لیکن جب اللہ کے حضور بیٹے کے لئے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا فرمایا اور ان کا نام یحییٰؑ، اللہ تعالیٰ نے خود رکھا، پھر حضرت یحییٰؑ کی نبوت اور ان کی پاکیزگی کا ذکر ہے۔
بی بی مریم اور ان کی پارسائی:
حضرت مریمؑ کی پارسائی اور عبادت گزاری کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کا حال بیان فرمایا اور پھر دونوں گروہوں کی تردید فرمائی، اس گروہ کی بھی جو بی بی مریم پر بہتان لگاتا تھا اور اس گروہ کی بھی جو حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا سمجھتے تھے۔
نومولود کا کلام:
بی بی مریمؑ پر بدترین تہمت لگی تو انہوں نے جواب میں نومولود حضرت عیسیٰؑ کی طرف اشارہ کیا اور نومولود بچے نے اللہ کے حکم سے کہا ’’میں اللہ کا بندہ ہوں، مجھے کتاب عطا کی گئی اور مجھے نبی بنایا گیا، مجھے مبارک بنایا گیا کہ میرا وجود رحمت و برکت کا باعث ہے، مجھے نماز اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیا اور والدہ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا گیا، اس طرح دونوں گروہوں کی تردید زبان نبوت سے ہو گئی۔
سیدنا ابراہیمؑ:
حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ بیان ہوا کہ انہوں نے اپنے باپ کو نہایت محبت سے سمجھایا کہ تم جن بتوں کو پوجتے ہو، یہ نہ دیکھ سکتے ہیں، اور نہ سن سکتے ہیں، اور نہ کسی کے کام آ سکتے ہیں، اور فرمایا توحید کو چھوڑ کر شرک کرنا شیطان کی عبادت کرنا ہے، وہ آپ نہ کریں کہ شیطان تو اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے، اگر آپ نے شرک نہ چھوڑا تو اللہ کے عذاب کا شکار ہوں گے۔
والد کا جواب:
ابراہیمؑ کے والد آزر نے اس دعوت کو قبول کرنے کے بجائے انتہائی گستاخانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہاکہ تو اپنی دعوت سے باز آ جا ورنہ میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور مجھ سے تعلق نہ رکھ جس پر حضرت ابراہیمؑ نے ان سے ان کے استغفار کا کہا اور وطن سے ہجرت کر گئے، اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ابراہیمؑ کے ساتھ رہا۔
انبیاء کا ذکر:
اس کے بعد حضرت موسیٰؑ، حضرت ہارونؑ، حضرت ادریسؑ، حضرت اسمٰعیلؑ اور حضرت نوحؑ وغیرہ کا ذکر ہے کہ سب کی یہی دعوت اسلام تھی اور پھر انبیاء کی صفات کا ذکر ہے، اور فرمایا یہی وہ لوگ ہیں، جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام فرمایا اور یہ سب آدمؑ کی اولاد ہیں۔
قرآن آسان بنایا:
سورت کے آخر میں فرمایا کہ ہم نے قرآن کو آپ کی زبان میں آسان بنایا تاکہ آپ تقویٰ والوں کو بشارت سنائیں اور جو لوگ سخت جھگڑالو ہیں، ان کو ڈرائیں۔
’’سورہ طہٰ‘‘
ترتیبی اعتبار سے یہ قرآن پاک کی بیسویں سورت ہے، جب کہ نزولی اعتبار سے اس کا نمبر45ہے، یہ مکی سورت ہے۔ اس سورت کی ابتدا میں طہٰ ہے جو آپؐ کا صفاتی نام بھی ہے اس مناسبت سے اس کو سورہ طہٰ کہتے ہیں۔ یہی وہ سورت ہے جسے حضرت عمرؓ اپنی بہن کے گھر میں سن کر مسلمان ہونے کے لئے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے، اس کا بیشتر حصہ حضرت موسیٰؑ کے واقعات پر مشتمل ہے۔
آپؐ کو تسلی:
سورت کی ابتدا میں آپؐ کو تسلی دی گئی، آپؐ اپنے آپ کو زیادہ مشقت میں نہ ڈالیں۔ یہ قرآن صرف اسی کے لئے نصیحت ہے جو دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتا ہے۔
آگ اور نبوت:
موسیٰؑ آگ لینے پہنچے تو انہیں نبوت عطا ہوئی، اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے اور آپؑ کو فرعون تک توحید پہنچانے کا حکم ہوا اور بطور نشانی دو معجزے لاٹھی کا اژدھا بن جانا اور ید بیضا عطا ہوا۔
مشہور عالم دعا:
حضرت موسیٰؑ کو جب فرعون کے دربار میں جانے کا حکم ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنے بھائی حضرت ہارونؑ کو بھی ساتھ لے جانے کی درخواست کی اور یہ دعا کی جو آج بھی تقریر کرنے سے پہلے یا جس کی زبان میں لکنت ہو، وہ پڑھے تو لکنت دور ہو جاتی ہے۔ ’’رب اشرح لی صدری ویسرلی امری واحلل عقدۃ من لسانی‘‘ اس دعا کے بعد حضرت موسیٰؑ، فرعون کے دربار میں اپنے بھائی کے ہمراہ گئے اور اسے اللہ کا پیغام پہنچایا۔
جادوگروں سے مقابلہ:
حضرت موسیٰؑ کے معجزات کو ماننے کے بجائے فرعون نے ان پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا اور جادوگروں سے ان کا مقابلہ کرایا جس کے نتیجے میں جادوگر ایمان لائے اور فرعون کے ظلم و ستم کا شکار ہوئے۔
فرعون کی غرقابی:
حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل کو راتوں رات اللہ کے حکم سے لے کر نکلے، فرعون نے اپنے پورے لشکر کے ساتھ تعاقب کیا اور لشکر سمیت غرق ہو گیا۔
بنی اسرائیل پر احسانات:
بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر ہے، لیکن انہوں نے احسانات کا شکر کرنے کے بجائے ناشکری کی اور بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا۔
موسیٰؑ کی واپسی:
موسیٰؑ کوہ طور سے واپس آئے تو قوم پر سخت برہم ہوئے، جو حضرت ہارونؑ کے سمجھانے پر بھی نہ مانی۔
سامری اور بچھڑا:
موسیٰؑ نے سامری جس نے قوم کو بہکایا تھا، اس سے سخت بازپرس کی، بچھڑے کو جلا کر بھسم کر دیا اور اس کے ذرے دریا میں بہا دیئے۔
پہاڑ اور قیامت:
قیامت واقع ہونے پر پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور اعمال کے مطابق سزا و جزا ہو گی۔
معیشت کی تنگی:
جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے اعراض کرے گا، اس پر معیشت تنگ کر دی جائے گی اور وہ قیامت میں اندھا اٹھے گا۔
امت مسلمہ کو ہدایت:
آپؐ کے توسط سے امت مسلمہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ رات و دن کے مختلف اوقات میں اللہ کی تسبیح و حمد بیان کریں اور مخالفین کی دنیاوی شان و شوکت عارضی ہے، اس طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں اور خود کو اور اپنے گھر والوں کو نماز کا پابند بنائیں اور آخرت کا عیش و عشرت اور من پسند زندگی پرہیزگاروں کے لئے ہے۔