پارلیمنٹ کی بالادستی اور تقدس؟

August 17, 2017

اقتدار یا طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں یہ آج کی مہذب جمہوری دنیا کا سب سے مقبول نعرہ ہے۔ وطنِ عزیز میں اس نعرے کو تسلیم تو کیا جاتا ہے لیکن اس کی معنویت پر کماحقہٗ غور و خوض نہیں کیا جاتا۔ ہماری اس مسئلے پر ایک مرتبہ مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد سے خاصی بحث بھی ہوئی تھی جو سطح بینی کے ساتھ اسے شرک کے معنوں میں لیتے ہوئے دلیل پیش کرتے تھے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام نہیں خدا کی ذات ہے جبکہ ہمارا استدلال یہ تھا اور ہے کہ جب آپ انسان کو خدا کا نائب تسلیم کرتے ہیں تو پھر اولادِ آدم کی رضا ہی خدا کی رضا ہے۔ آوازِ خلق کو نقارئہ خدا سمجھو ان کی طاقت کو خدائی طاقت سمجھو۔ ذرا وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے بحرِ تصوف میں غوطہ زن ہو کر دیکھو خدا اپنی خلق سے ہرگز جدا نہیں ہے۔ اس سنگم پر جمہوریت اور تصوف یکجا ہو جاتے ہیں جو عظمتِ انسانی کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے انکار کرتا ہے دراصل وہی شیطان ابلیس ہے۔ یہ ازل سے ابد تک خدائی حکم ہے کہ عظمتِ انسانی کے سامنے سرنگوں ہو جاؤ۔
پارلیمنٹ کی دیگر تمام اداروں پر بالادستی و برتری کے پیچھے یہی ازلی و ابدی اصول یا نظریہ کارفرما ہے کیونکہ یہ کسی بھی خطے میں بسنے والے انسا2نوں کی امنگوں اور آدرشوں کا ترجمان سپریم ادارہ ہے۔ ہمارے ہاں خلط مبحث کے طور پر عموماً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ جی پارلیمنٹ نہیں آئین سپریم ہے بظاہر یہ بات درست لگتی ہے کہ کسی بھی ملک میں سپریم لاء تو اس ملک کا آئین ہوتا ہے۔ عام فوجداری یا سول کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک تمام عدالتیں اسی سپریم لاء یعنی آئین کی پابند ہوتی ہیں۔ کسی عدالت کا یہ استحقاق نہیں ہے کہ وہ آئین پر چڑھائی کرے یا اسے بائی پاس کرے یا اس میں ردو بدل کی کوشش کرے۔ اگر کوئی عدالت ایسی کاوش کرتی ہے تو یہ ایک ایسی خلافِ آئین حرکت ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اس کا استعمال کرے گا کون؟ اگر آپ کے گھر کا محافظ خود آپ کے گھر کی چوری میں ملوث ہو جائے تو اُسے سزا دینے کا اختیار کسی دوسرے کو ہونا چاہئے یا خود گھر کے مالک و وارث کو؟
ہماری نظر میں وطنِ عزیز کے تمام ذی شعور و فہم قانون دان خواتین و حضرات کو اس اہم باریک نکتے پر سر جوڑ کر بیٹھنا اور اس کا حل نکالنا چاہئے کیونکہ وطنِ عزیز میں اس نوع کی سنگین وارداتیں پیہم ہوتی چلی آ ئی ہیں۔ ایک ڈکٹیٹر یا طالع آزما آتاہے آئین کو اپنے بوٹوں تلے روندتا ہے اُسے باضابطہ طور پر آئین کو بوٹوں تلے روندتے چلے جانے کا پروانہ جاری کرتا ہے ۔ ہمارے سیاسی و قانونی حلقوں میں آئین توڑنے یا اسے بوٹوں تلے روندنے والوں کے خلاف تو خوب واویلا کیا جاتا ہے اگرچہ وہ بھی نشستند، گفتند، برخاستند تک محدود رہتا ہے مگر جو آئین شکنی کو جواز بخشنے کے لیے دور دور کی کوڑیاں ڈھونڈھ کر لا رہے ہوتے ہیں ان کے حوالے سے عموماً خاموشی اختیار کی جاتی ہے حالانکہ سہولت کار بھی اتنے ہی بڑے مجرم ہوتے ہیں جتنے اس واردات کے مرتکبین۔
اب ہم اس بحث پر آتے ہیں کہ پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے یا آئین؟ ہم پوچھتے ہیں کہ بچہ زیادہ محترم و مقدس ہوتا ہے یا اس کی ماں؟ مت بھولیے کہ آئین جتنا بھی مقدس ہے پارلیمنٹ بہرحال اس کی وہ ماں ہے جو اس کا ناک نقشہ سب تبدیل کر سکتی ہے اس بچے کو اس مقام تقدس سے ہٹا کر دوسرا بچہ لا سکتی ہے۔ لہٰذا میثاقِ جمہوریت کو آگے بڑھاتے ہوئے پارلیمنٹ کے احترام و تقدس کا اصول دیگر تمام اداروں اور ان سے منسلک افراد سے منوانا لازم قرار دیا جائے۔ اُس کے حلف میں جس طرح یہ شامل ہے کہ میں آئین کا وفادار رہوں گا اور اس کی مطابقت میں چلتے ہوئے ریاستِ پاکستان کی خدمت کروں گا اُسی طرح یہ بھی شامل کیا جائے کہ میں عوامی امنگوں کے ترجمان ادارے پارلیمنٹ کا جو آئین کی ماں ہے ایک مقدس ماں کی طرح احترام کروں گا اور اس کی ناموس پر کبھی آنچ نہیں آنے دوں گا۔
اہل نظر سوچیں گے کہ ریاست کے طاقتور ملازمین جب آئین کے تحفظ اور پابندی کا حلف اٹھانے کے باوجود موقع ملتے ہی اس بیانیے سے منحرف ہو جاتے ہیں اور پھر اسی آئین کو پائوں تلے روندتے ہیں وہ پارلیمنٹ کے تقدس پر مبنی حلف کی پاسداری کیسے کریں گے اور جب وہ اس کی پامالی کے مرتکب ہوں گے تو انہیں سزا کون دے گا؟ اگر ہم غور کریں تو اس بیماری یا خرابی کا حل پارلیمنٹ سے باہر ہونا ہی نہیں چاہئے جس ادارے نے آئین کو جنم دیا ہے اگر کوئی اس پر حملہ آور ہوتا ہے تو ایسے بڑے مجرمین کو سزا دینے کی اتھارٹی بھی اُسی ادارے کے پاس ہونی چاہئے جو آئین یا دستور ساز ادارہ ہے یعنی پارلیمنٹ میں پارلیمانی تناسب سے ایک اعلیٰ اختیاراتی مشترکہ کمیٹی کے پاس یہ اتھارٹی ہو جو اپنی معاونت کے لیے جتنے چاہے قانون دانوں کی خدمات حاصل کر لے لیکن فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کرے۔
اس نوع کی الجھنیں دیگر ممالک میں بھی ہوں گی لیکن وطنِ عزیز پاکستان کا تو گویا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ آج کی مہذب دنیا میں جن باتوں کا سوچا نہیں جا سکتا ہمارے یہاں اُن کی تحسین کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہماری ہمسائیگی میں بھارت ہے بلاشبہ اُن میں بھی بہت سی خامیاں ہوں گی کیونکہ وہ بھی ہمارے ہی جیسے لوگ ہیں ہر دو ممالک میں ایک نوع کا ہی کلچر ہے لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ وہاں کبھی سویلین پر بوٹوں کی چڑھائی نہیں ہوئی ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں ایک مرتبہ آرمی چیف نے ڈائریکٹ وزیراعظم پنڈت نہرو سے ملنے کی کوشش کی تو پنڈت جی نے اُسے جھاڑ پلا دی کہ تمہارا کوئی مسئلہ ہے تو میرے ماتحت وزیر دفاع ہے اس کے ماتحت سیکرٹری دفاع ہے جس کی ماتحتی میں تم آتے ہو لہٰذا اسی پروٹوکول کے مطابق اپنی عرضداشت پیش کرو جبکہ یہاں وزرائے اعظم کے ساتھ جو بدسلوکیاں ہوئیں اور جس طرح انہیں یکے بعد دیگرے ہٹایا جاتا رہا اس پر پنڈت نہرو نے ہی یہ کہا تھا کہ اتنی تو میں لنگوٹیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزرائے اعظم بدل دیے جاتے ہیں۔
ان خصوصی حالات میں ہماری تجویز ہے کہ آئینی طور پر وزرائے اعظم کو یہ تحفظ ہونا چاہئے کہ اپنی میعادِ ذمہ داری پوری ہونے تک سوائے پارلیمنٹ کے کسی بھی ادارے کو کسی بھی صورت میں ہٹانے کا حق نہ ہو گا۔ اگر کوئی پاناما سے بھی سنگین الزام آئے تو اس کا مواخذہ پارلیمانی کمیٹی ہی کر سکے جس کی سفارشات پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں زیرِ بحث لانے کے بعد منظور کی جائیں۔ اگر منظوری نہیں ملتی تو میعادِ عہدہ ختم ہونے کے بعد معاملہ جوڈیشری میں آ جائے گا جوڈیشری یا عسکری اداروں میں کلیدی تقرریوں یا مواخذے کے اختیارات یا نظرثانی وغیرہ کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہئے جس میں قائد ایوان کے ساتھ ساتھ قائد حزبِ اختلاف کی رائے کو بھی اہمیت حاصل ہو۔ پارلیمنٹ کے منتخب قائد کو قومی قائد کی حیثیت حاصل ہو اس کی تصاویر تمام اداروں میں تصویر قائد کے ساتھ آویزاں کی جائیں۔ اس پر یا اس کی پالیسیوں پر تنقید کا یقیناً سب کو حق ہو مگر منافرت پھیلانے اور کیچڑ اچھالنے کا حق نہ ہو۔ ان امور کی حدود و قیود پارلیمنٹ میں طے کی جانی چاہئیں اور یہ بھی طے ہونا چاہئے کہ اگر پارلیمنٹ مقدس ادارہ نہیں ہے تو پھر کوئی بھی مقدس نہیں ہے ہمیں موجودہ عدم توازن کو توازن و اعتدال میں بدلنا ہو گا۔