مغرب میں کچھ ایسا ہے جو مشرق میں نہیں

August 30, 2017

فرانس کے صدر عمانیل کمرون نے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ اگر یورپ میں جلدہی بڑی تبدیلی نہ آئی تو مورخکو دنیا کی تاریخ یورپ کےبغیر ہی لکھنی پڑے گی۔ انہوںنے کہا کہ اگر یورپ متحد رہتا ہے تو تب ہی وہ طاقتور رہے گا، اگر فرانس اور جرمنی اکھڑے اکھڑے اور الگ الگ رہے تو یورپ بھی کمزور رہے گا، دنیا یورپ کیلئے انتظار نہیںکرے گی۔
یورپی یونین کی مشترکہ کرنسی یورو کو جب سے بحران کا سامنا ہوا ہے صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اور وہ بھی بڑی تیزی سے۔ جرمنی اور ہالینڈکے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ اگر یورپی یونین کے تمام ارکان اسی طرح سے اپنا طرز عمل، طریقہ کار اور رجحان رکھتےجیسا کہ جرمنی کا ہے تو یورو کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یورپ میں آئرلینڈ، یونان اور پرتگال کی معیشتوں کی تو یورو زون نے مدد کی ہے لیکن اب ان کے سامنے بڑا سوال بلکہ سب سے بڑا چیلنج اربوں یورو کے قرض میںڈوبی معیشتوں یونین اور اسپین کو بچانے کا ہے۔ قرض میںڈوبے یورو زون کی معیشتوں میں ڈسپلن لانے اور یورو کو استحکام دینے کیلئے فرانس کے صدر عمانیل مختلف ملکوں کے سربراہوں سے ملاقات میں مصروف ہیں۔ ایک بات واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ فرانس اپنی خودمختاری کو نہیںچھوڑے گا اور اگر یورو زون کی معیشتیں متحد ہوکر نہیں چلتیں تو یورو کا وجود خطرے میں رہے گا اور فرانس اس لئے بھی چلارہا ہے کہ دنیا میں مستقبل میں یورپ کی آواز سنی جائے۔
اگرچہ یورپی یونین کو آجکل کئی طرح کے بحرانوں کا سامنا ہے لیکن سردست رکن ممالک کی تمام تر توجہ اپنی کرنسی یورو پر مرکوز ہے۔ یورو گزشتہ سال سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے لیکن اب کہیں جاکر یورپ کے یورو بحران کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے دنیا کے امیر اور مضبوط اقتصادیات کے حامل ممالک کے مرکزی بینکوں کی جانب سے اس بحران کے بوجھ کو تقسیم کرنے کے احساس سے ایک امید کی کرن پھوٹی ہے۔ اس اقدام سے عالمی منڈیوں میں کاروباری حلقے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں اور اربوںڈالرز کے کاروباری سودوں کا ڈول ڈالا گیا ہے۔ جرمنی کے بازار حصصمیں پانچ فیصد تک اضافہ نوٹ کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپی سطح کے مسئلوں میںجرمنی کا کردار انتہائی پراعتماد ہے۔ کئی دہائیوں تک یورپ کے حوالے سے جرمنی کی پالیسیاں بہت محتاط تھیں ،تب ایسے یورپ کی خواہش نہیںکی جارہی تھی کہ جس پر جرمنی کی چھاپ ہو بلکہ ایک ایسے جرمنی کیلئے کوششیں کی جارہی تھیں جو یورپ کا حصہ ہو۔ جرمنی کی مخصوص تاریخ اور جنگ دوم کی وجہ سےہر لمحے یہ خیال کیا جاتا رہا کہ کسی بھی موڑ پر سامراجیت کاشائبہ تک نہ ہو۔جرمنی کے قومی مفادات کو پس پشت ڈال دیا کہ یورپ کی ’’روح‘‘متاثر نہ ہو۔یہی وجہ تھی کہ ہالینڈ میں رہتے ہوئے بھی مجھے ایسے محسوس ہوتا رہا کہ کئی دہائیوں تک یورپ اور یورپی یونین کے حوالے سے جرمنی کی پالیسیاں بہت محتاط تھیں۔بہرحال اب جرمن عوام میں یہ تاثر جنم لے رہا ہے کہ جرمنی کو ان ممالک کی مدد کرنا پڑرہی ہے جو اپنے مالی معاملات حل نہیںکرسکتے اور جن کی گرفت سے یہ معاملات باہر ہوچکے ہیں۔
ادھر یورپی یونین نے ’’مالی‘‘ معاملات کے حل کیلئے چین کو بھی درخواست دے دی ہے۔ یورپی قائدین نے چین سے مطالبہ یا درخواست (جو بھی سمجھ لیں) کیا ہے کہ وہ امدادی فنڈمیں سرمایہ کاری کرے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے صدر کرسٹن لاگارڈے نے وارننگ دی ہے کہ دنیا معاشی بحران کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ ان کی یہ وارننگ ایشیائی ممالک کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے کہ ایشیا ان مسائل سے مستثنیٰ نہیں ہے جن سے آج یورو زون دوچار ہے۔صدر لاگارڈے نے چینی سینٹرل بینک کے گورنر اور اعلیٰعہدیداروں کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے یورو زون کی حالت زار کا نوحہ کیا اور انہیں یہ دھمکی نما وارننگ بھی دے ڈالی کہ اگر ہم مشترکہ طور پر کوشش نہیںکریں گے تو پوری دنیا معاشی بحران کی دلدل میں پھنس جائے گی۔ معاشی کساد بازاری پوری دنیا کو اپنی لپیٹمیں لے لے گی۔ چین دنیا میں سب سے زیادہ بیرونی زرمبادلہ رکھنے والا ملک ہے، اس کے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر 3.80کھرب ڈالر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ یورو زون کو مالیاتی بحران سے نکالنے کیلئے ’’بیل آئوٹ‘‘ کے فنڈ میں سرمایہ لگائے۔ چین کو بتایا گیا ہے کہ ہم سب کی قسمت ایک دوسرے سے وابستہ ہے، ڈوبے تو سب ہی ڈوبیںگے اور ابھرے تو سب ابھریںگے۔ لاگارڈے نے روس کا بھی دورہ کیا ہے اور روس کو بھی خبردار کیا ہے کہ یورپی معاشی بحران سے اس کی چشم پوشی خطرناک ہوگی۔ امریکہ اور یورپ نے چین پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ چین نے اپنی کرنسی کی قدر کو جان بوجھ کر کم سطحپر رکھا ہے تاکہ اپنے برآمدکنندگان کو غیرقانونی فائدہ پہنچایا جائے۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ امریکہ اور یورپ چین کی مصنوعات اور اشیاء کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔
مجھے یورپ کے خستہ مالی حالات دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہوچکا ہے، میرے ساتھ دنیا کے 45ممالک کے لگ بھگ ایک چوتھائی افرادبھی اسی بات پر یقین محکم رکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نقائص سے پر ہے۔ یہ بات تازہ پول میں سامنے آئی ہے۔ گلوب سیکن کے سروےمیں 36 ہزار افراد میںصرف 9 فیصد کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام صحیح رہا اور مزید کسی بڑے ضابطے کی ضرورت نہیں جبکہ 56 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام بری طرحناکام ہے اور نئے معاشی نظام کی ضرورت ہے لیکن ایک شرمناک المناک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکہ کے علاوہ کشور حسین شاد باد ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں 12 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام بالکل صحیح چل رہا ہے۔
امریکہ اور یورپ میں آئے اس مالی بحران اور مندی کو دیکھتے ہوئے یہاںکے شہری اپنے مستقبل کے تعلق سے سخت فکر مندہوگئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ افراد اور ماہرین ملازمت حاصل کرنے کیلئے ترقی پذیر ممالک کا رخ کررہے ہیں جن میں سرفہرست پاکستان کا ہمسایہ بھارت ہے۔ یورپ کے ایک جریدے صنعتی اعداد وشمار کے مطابق بھارت میں اس وقت 40 سے 50 ہزار غیرملکی ماہرین کام کررہے ہیں، بھارت میں غیرملکیوں کو ملازمت دلانے والی فرم کے منیجر نے جریدہ کو بتایا ہے کہ ’’چونکہ ہمارا ملک تیزی سے معاشی ترقی کی طرف گامزن ہے جہاں ملازمتوں کے اعلیٰمواقع دستیاب ہیں، یہ دیکھتے ہوئے امریکہ اور یورپ کے ماہرین انڈیا کو ملازمت کیلئے ترجیح دے رہے ہیں اور گزشتہ سال کے مقابلے میں غیرملکی ملازمین کی تعداد میں 15سے 20فیصد اضافہ دیکھنے میںآیا ہے۔ بھارت میں امریکی اور یورپی ماہرین کو بالخصوص بینکنگ، مالیاتی اداروں، آٹوموبائل، فارما، ریٹیل سیکٹر اور آئی ٹی میں خدمات کیلئے منتخب کیا جاتا ہے۔ ان ماہرین کو (بالخصوص آئی ٹی ماہرین) کو 40لاکھ روپے سے ایک ارب 25لاکھ روپے تک سالانہ تنخواہ مل رہی ہے۔مغربی ممالک اور امریکہ میں اقتصادی بحران کی وجہ سے وہ نوکریوں کیلئے بھارت کا رخ کررہے ہیں۔ بہت ساری کمپنیوں، اداروں اور آرگنائزیشنوں نے بجٹکی کمی کی وجہ سے اپنے دفاتر بھارت منتقل کردیئے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ برصغیر کے اعلیٰتعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد روزگار اور اچھے مستقبل کیلئے امریکہ اور یورپ کا رخ کرتے تھے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں، امریکہ اور یورپ خود معاشی اور مالی ابتری کا شکار ہیں،اب ان ممالک کے تعلیم یافتہ، ڈگری یافتہ اور ہنرمند افراد روزگار حاصل کرنے کیلئے بھات کا رخ کررہے ہیں یعنی گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ حالات کی تبدیلی کے بعد حالات کے خلاف شکایت نہ کیجئے بلکہ نئے حالات کے مطابق اس کا نیا حل سوچئے۔