کیپٹن صفدرکی ضمانت منسوخی پر فیصلہ محفوظ عدالت میں موبائل استعمال کرنےپر جرمانہ

December 15, 2017

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کے ملزم کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کے بجائے ٹرائل کورٹ کی جانب سے ضمانتی مچلکوں پر رہائی کے خلاف نیب کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ احتساب عدالت کی جانب سے کیپٹن صفدر کی ضمانت منظوری کے خلاف نیب کی درخواست کی سماعت گزشتہ روز عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کی۔ اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی اور افضل قریشی پیش ہوئے۔ سردار مظفر عباسی نے موقف اختیار کیا کہ عدالت کی طرف سے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کرتے ہوئے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو گرفتار کر کے احتساب عدالت میں پیش کیا تاہم عدالت نے ملزم کی طرف سے آئندہ سماعتوں پر حاضری یقینی بنانے کے لئے 50 لاکھ روپے کے مچلکے داخل کرانے پر رہا کر دیا جس کا احتساب عدالت کو اختیار ہی نہ تھا۔ قانون کے تحت ضمانت پر رہائی صرف ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ دے سکتی تھی، احتساب عدالت کا فیصلہ غیر قانونی ہے۔ احتساب عدالت کافیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا جب ملزم عدالت میں پیش ہونے پر آمادہ ہو تو پھر بھی اس کی گرفتاری ضروری ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا ہاں۔ملزم جان بوجھ کر عدالت پیش نہیں ہو رہا تھا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا نیب نے خود کبھی ملزم کو گرفتار کیا تھا،نیب کی کبھی ملزمان کو گرفتار کرنے کی نیت ہی نہیں تھی ، نیب کی نیت ہوتی تو پہلے دن سب ملزمان کو گرفتار کر لیتی ، نیب نے تفتیش کی غرض سے کبھی وارنٹ جاری نہیں کئے ، نیب کو گرفتاری چاہئے تو آج ملزم کے وارنٹ جاری کر دے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہیں مانگ رہے، گرفتاری کے بعد قانونی طور پر احتساب عدالت ضمانت نہیں دے سکتی۔ اس موقع پر کیپٹن (ر)صفدر کے وکیل امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ وارنٹ گرفتاری صرف عدالت حاضری کے لئے تھا۔ ملزم پیش ہو کر آئندہ پیش ہونے کی یقین دہانی کرائے تو عدالت ضمانتی مچلکوں پر رہائی دے سکتی ہے۔ کیپٹن صفدر عدالتی حکم پر احتساب عدالت مسلسل پیش ہو رہے ہیں۔ ان کے وارنٹ گرفتاری نیب نے نہیں احتساب عدالت نے جاری کئے تھے جن کا مقصد ملزم کی پیشی کو یقینی بنانا تھا۔ دوران سماعت فون استعمال کرنے پر عدالت نے کیپٹن (ر)صفدر کی سرزنش کی اور موبائل فون تحویل میں لے لیا تاہم بعد میں تحریری معافی نامے اور ایک ہزار روپے جرمانے کے عوض کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو موبائل واپس مل گیا۔