آئیڈیا دیں، انعام پائیں

January 18, 2018

ملک و قوم کے مفاد اور ترقی و خوشحالی کے تناظر میں اٹھائے جانے والے حکومتی اقدامات چاہے ان کا آئیڈیا کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہو، نئی جہتوں سے ہمکنار کرتے ہوئے زندگی کے کسی بھی موڑ پر ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔1961میں صدر ایوب خان کے دور میں ’’آئیڈیا ایوارڈ‘‘ نامی ایک سرکاری اسکیم متعارف کرائی گئی تھی۔ اس اسکیم کا مقصد سرخ فیتہ اور دیگر بے قاعدگیوں کی روک تھام کے لئے حاضر یا ریٹائرڈ سرکاری (وفاقی) ملازمین کے علم، تجربہ اور بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے حکومتی مشینری کو بہتر بنانا تھا۔ گو کہ یہ اسکیم اس وقت بعض وجوہات کی بنا پر مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکی تھی لیکن موجودہ حکومت نے اگر اسے معروضی ترجیحات سے ہمکنار کر کے اور ہوم ورک کے بعد پھر سے لاگو کیا ہے تو بلاشبہ یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ اس اسکیم کے تحت حاضر یا ریٹائرڈ وفاقی سرکاری ملازمین سے حاصل ہونے والی تجاویز کو ابتدائی طور پر محکمانہ جائزہ کمیٹی اوربعد ازاں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن، سیکرٹری فنانس ڈویژن اور ڈائریکٹر جنرل پاکستان پبلک ایڈمنسٹریشن ریسرچ سینٹر پر مشتمل مجلس قائمہ کے ذریعے جانچا جائے گا اور پھر مجلس قائمہ نامزد تجویز کو کارکردگی سرٹیفکیٹ، تعریفی اسناد اور نقد ایک لاکھ روپے انعام تک سفارش کرنے کی مجاز ہےلیکن اس ضمن میں ذاتی شکایات، اداروں کی ہیئت اور ان کی ساخت کی تشکیل نو، قانون سازی کے لئے تجاویز اور پہلے سے مروجہ اقدامات جیسی تجاویز کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ اس ضمن میں یہ بھی بہتر ہو گا کہ انعام یافتہ تجویز اور اس کے خالق کا نام میڈیا پر لایا جائے۔ گو کہ یہ ایک اچھی اسکیم ہے اور جمہوری دور میں اس کی اہمیت دو چندہے لیکن56 سال کے عرصہ میں ملک کی سیاسی، سماجی اور حکومتی اقدار بدلنے کے ساتھ ساتھ بدعنوانی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، ایسے شفاف منصوبوں کو سیاست کی دست برد سے بچانے کی اشد ضرورت ہے۔