سیاسی الجھنیں اور آئندہ عام انتخابات

March 12, 2018

پاکستان کی سیاست الجھنوں اور مغالطوں کا شکا ر ہے ۔ ملکی ہیئت مقتدرہ ( اسٹیبلشمنٹ ) کا بیانیہ بڑی حد تک امریکہ مخالف ہو گیا ہے ۔ دائیں بازو کی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھی وہی بیانیہ اختیار کر لیا ہے ، جو کسی زمانے میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا ہوا کرتا تھا ۔ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست بہت حد تک غیر موثر ہو گئی ہے ۔ بائیں بازو کی سیاسی اور قوم پرست جماعتیں ایک طرف تو چھوٹے دائروں میں محدود ہو گئی ہیں اور دوسری طرف ان کا طویل عرصے تک دائیں بازو کی بڑی سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگی دھڑوں کے ساتھ سیاسی اتحاد رہا ہے ۔ ایک پاکستان پیپلز پارٹی رہ گئی تھی ، جو اسٹیبلشمنٹ مخالف اپنا لیبل ہٹانے کی کوششوں میں رہی اور ہے ۔ وہ کس حد تک ان کوششوں میں کامیاب رہی ، اس کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کو کرنا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا اپنا اصل بیانیہ تبدیل ہو گیا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پیپلز پارٹی کا ماضی کا بیانیہ اختیار کر لیا ہے ۔ نظریاتی سیاست اور صف بندیاں بظاہر ختم ہو چکی ہیں ۔
ہو سکتا ہے کہ یہ ہماری نسل کی الجھنیں ہوں ، جس نے سرد جنگ کے زمانے میں سیاست کی اور انسانی سماج اور اس کے تضادات کا تاریخی اور جدلیاتی مادیت کے تناظر میں ادراک کیا لیکن ہمارے بعد کی آنیوالی نسلوں میں بھی اپنے عہد کے حالات اور مستقبل کے اہداف کے بارے میں کوئی واضح سوچ نہیں ہے ۔ ہم نے وہ عہد دیکھا ، جب امریکہ مخالف بیانیہ اختیار کرنا کسی بڑے خطرے یا عبرت ناک انجام کا سبب بن جاتا تھا ۔ آج وہی بیانیہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا ہے ۔ ہماری عسکری اور دائیں بازو کی سیاسی قیادت نے ماضی کا وہ بیانیہ اختیار کر لیا ہے ، جسے رائج کرنے کا بائیں بازو کا خواب پورا نہیں ہو سکا تھا ۔ ہماری نسل کے لوگ اگرچہ اس امر پر خوشی محسوس کرتے ہیں کہ کم از کم ہماری بات تو کی جا رہی ہے ۔ اس کا ایک سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ پاکستان اپنے پرانے ’’ دوست ‘‘ امریکہ سے بوجوہ دور ہو گیا ہے اور چین کے قریب ہو گیا ہے ۔ اس طرح کا ایک مرحلہ پہلے بھی آیا تھا ، جب فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ کے وزیر ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کو چین کے قریب لے گئے تھے اور خود ایوب خان نے پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں ’’ فرینڈز ناٹ ماسٹرز ‘‘ نامی کتاب لکھی لیکن بعد میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایوب خان نے بھٹو کو اپنی کابینہ سے برطرف کر دیا تاکہ امریکہ کو یہ باور کرایا جا سکے کہ پاکستان میں کسی امریکہ مخالف کی گنجائش نہیں ۔ پھر بھٹو کے عبرتناک انجام نے بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں خصوصاًپیپلز پارٹی نے بھی بیانیہ تبدیل کر لیا ۔ اب اگرچہ حالات بہت مختلف ہیں اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی میں شفٹ کی وجہ حالات کا جبر بھی ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے اس نئے بیانیہ سے نوجوان نسل خوش بھی ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ سامراج مخالف بیانیہ آئندہ نسلوں تک منتقل ہوا ہے لیکن الجھن یہ ہے کہ جو قوتیں انتہائی پرجوش انداز میں اس بیانیہ کو آگے لے کر جا رہی ہیں ، وہ کب تک اس پر قائم رہیں گی ۔ اس الجھن کی وجہ ماضی کے تجربات ہیں ۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پاناما کیس میں عدالت سے نااہل ہونے کے بعد وہ باتیں کر رہے ہیں ، جن کی ماضی میں وہ خود نفی کرتے رہے ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کی عدلیہ اور حقیقی مقتدر حلقوں کے بارے میں جو سیاسی بیانیہ اختیار کر لیا ہے ، وہ بیانیہ کسی زمانے میں بائیں بازو اور ترقی پسند سیاسی قوتوں کے اسٹڈی سرکلز اور خفیہ اجلاسوں میں رائج تھا لیکن وہاں سے باہر اس بیانیہ کا اظہار نہیں کیا جاتا تھا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی قیادت کا یہ بیانیہ مقبول ہوا ہے ۔ کچھ سیاسی تجزیہ کار اس دعوے کی تائید بھی کرتے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس وقت جو سیاسی بیانیہ اختیار کر رکھا ہے ، وہ اگرچہ اس کے ماضی کے سیاسی بیانیے کے متضاد تو نہیں ہے لیکن ویسا بیانیہ بھی نہیں ہے ۔ ماضی کا بیانیہ گرجدار آواز میں اختیار کرنے والے پیپلز پارٹی کے کچھ رہنما پارٹی میں پہلے والی پوزیشن پر نہیں رہے ۔ یہ الگ بحث ہے کہ یہ رہنما ہماری طرح نظریاتی رومانویت کا شکار ہیں اور نئے عہد کے سیاسی تقاضوں اور حالات کا ادراک نہیں کر سکے ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ فی الوقت مسلم لیگ(ن) بظاہر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کی جماعت تصور کی جا رہی ہے ۔
الجھن یہ ہے کہ ماضی میں عالمی اور پاکستان کی حقیقی مقتدر قوتوں کے خلاف بائیں بازو کا بیانیہ ان قوتوں نے اختیار کر لیا ہے ، جو پہلے مخالف تھیں لیکن اب انہوں نے اپنی صف بندی تبدیل کر لی ہے ۔ کون کیا ہے اور اس کے سیاسی اہداف کیا ہیں ؟ بظاہر صورت حال کیا ہے اور پس پردہ حقائق کیا ہیں ؟ یہ پیچیدہ صورت حال شاید پاکستان سمیت تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں موجود ہے ۔ نہ صرف ماضی کی صف بندیاں نہیں رہیں بلکہ سیاست سمیت ہر شعبے میں زوال اور انحطاط کا عمل جاری ہے ۔ تاریخ میں اگرچہ ایسے مراحل آتے ہیں ، جب اس طرح کے حالات ہوتے ہیں ۔ پھر حالات کی پیچیدگیاں ختم ہوتی ہیں اور دوبارہ ایک ایسا عہد آتا ہے ، جب الجھنیں اور مغالطے کم ہوتے ہیں ۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ دور ہر حال میں نظریاتی ٹکراؤ کا ہو ۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے سرپرست اعلیٰ میاں محمد نواز شریف بہت زیادہ تجربات سے گزرے ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کی سیاست میں بہت اتار چڑھاؤ دیکھا ہے ۔ وہ معروضی حالات سے بہت زیادہ جڑے ہوئے ہیں لیکن قوم کئی الجھنوں کے ساتھ آئندہ عام انتخابات کی طرف جا رہی ہے ۔ میں یوں محسوس کرتا ہوں کہ اس کا اثر انتخابی نتائج پر بھی پڑے گا اور ہم اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ خطے اور بین الاقوامی صورتحال ہماری الجھنوں سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔