اب کیسے ہوں گے پوٹن؟

March 21, 2018

حسب ِ توقع ولادی میر پوٹن چوتھی مرتبہ روس کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ اب وہ مزید چھ سال تک روس کے صدر رہیں گے اور 2024میں اس عہدے سے سب دوش ہوں گے ۔ اس کے بعد اگر وہ چاہیں گے تو ایک بار پھر زیر اعظم بن کر روس پرحکومت کرسکیں گے۔یاد رہے کہ اس وقت وہ پیسنٹھ سال کے ہیں۔

حالیہ انتخاب میں پوٹن نے چہتّر فی صد ووٹ حاصل کیے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ روس کی حزب مخالف کے رہ نما الیکسی نوالنی(NAVALNY) پر اس انتخاب میں حصّہ لینے پر پابندی لگادی گئی تھی ۔ نوالنی پوٹن سے پچیس سال چھوٹے ہیں اور جب سوویت یونین ٹوٹاتو وہ صرف پندرہ سال کے تھے۔

الیکسی نوالنی دس سال سے روس کی سیاست میں سرگرم اور پروگریس پارٹی کے رہ نما ہیں۔ اس کے علاوہ نوالنی نے ایک غیر سرکاری تنظیم، ’’اینٹی کرپشن فائونڈیشن‘‘ بناکر پوٹن کے خلاف تحریک چلائی تھی۔پروگریس پارٹی کا بنیادی مطالبہ یہ رہا ہے کہ روس میں اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں اور سیاسی استحصال ختم کیا جائے۔ اس کے علاوہ نوالنی یہ مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں کہ ملک کے صد ا ر تی نظام حکومت کو پارلیمانی جمہوریت سے بدل دیا جائے اور عدلیہ کو بھی آزادکیا جائے۔

یہ سب ایسے مطالبے ہیں جو پو ٹن کو قابل قبول نہیں ہیں کیوں کہ انہوں نے بہت زیادہ اختیارات اپنے ہاتھوں میںرکھے ہوئےہیں اور بہ زور طا قت مخالفین کو کچلتے رہے ہیں۔کمال کی بات یہ ہے کہ روس کے الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق اس بار پوٹن کو پچھلے صدارتی انتخاب کے مقابلے میں بارہ فی صد زیادہ ووٹ ملے ہیں۔

گو کہ آج کل امریکا اور روس کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں،لیکن امریکی صدر ٹرمپ برسرِ اقتدار آنے سے قبل کئی بار پوٹن کی تعریف کرچکے ہیں،بلکہ انہیں اوباما سے بھی بہتر رہنما قرار دے چکے ہیں۔تاہم پوٹن کے ناقدوں کا کہناہے کہ انہوں نے روس کو آمرانہ طریقے سے چلایاہے۔ان کے ایک مخالف اور شطرنج کے کھلاڑی گیری کسپا روف پوتن کوآمر قرار دیتے رہے ہیں۔

یادرہے کہ کسپا روف 1986 سے2005تک دنیا میں شطرنج کے اول نمبرکے کھلاڑی رہے ہیں۔وہ 1985میں صرف بائیس سال کی عمر میں کارپوف کو شکست دے کر شطرنج کے عالمی چیمپئن بنے تھے۔کسپا روف نے بھی نوالنی سے پہلے پوٹن کو للکارنے کی کوشش کی تھی لیکن پوٹن نےاپنے طور طریقوں سے کسپا ر و ف کو بھی لاچار کردیا اور وہ 2014میں کروشیا کی شہریت لینے پر مجبور ہوگئے۔پوٹن اسی طرح مخالفین کو ٹھکانے لگا د یتے ہیں یا پھر جلا وطنی پر مجبور کردیتے ہیں۔

روس میںپچیس سال میں ہونے والے صدارتی ا نتخا با ت پر نظر ڈالی جائے تو کمیونسٹ پارٹی بھی دوسرے، تیسرے نمبر پر نظر آتی ہے۔ یاد رہے کہ سوویت کمیونسٹ پارٹی کو اگست 1991میں گوربا چوف کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد کالعدم قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد 1992 میں روس کے نئے عدالتی نظام کے تحت روس کی آ ئینی عدالت نے ملک کے صدر بورس یلسن کا یہ موقف مان لیا تھا کہ سوویت کمیونسٹ پارٹی جرائم پیشہ تنظیم تھی جس نے سوویت یونین پر آمرانہ طریقے سے حکومت کی تھی ۔

تاہم بعد میں ایک نئی تنظیم روسی کمیونسٹ پارٹی کے نام سے قائم کی گئی جو اب تک سیاست کررہی ہے اور حکم ران متحدہ روسی پارٹی کے بعد دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔

روس کی کمیونسٹ پارٹی نئے نام سے 1993 میں قائم کی گئی تھی۔1991میں سوویت کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگنےاور پھر سوویت یونین ٹوٹنےکے بعد کمیونسٹ بالکل بے یارومددگارہوگئے تھے۔بعض پرانے کمیونسٹوںنے 1993میں انہیں دوبارہ منظّم کیا۔

یہ کام کرنے والوں میں گینادی زیوگانوف کے ساتھ لگا چوف اور لکیانوف بھی شا مل تھے۔ یہ تینوں وہ لوگ تھے جو گوربار چوف کی پالیسی کی مخالفت کمیونسٹ پارٹی کے اندر ہی سےکرتے رہے تھے، مگر اُن کی ایک نہ چلی اور ان کے مقابلے میں یلسن کا گر و پ کام یاب ہوگیا تھا جس نے سوویت یونین توڑا۔

روسی کمیونسٹ پارٹی 1993میں اپنے قیام کے صرف تین سال کے اندر عوام میں اتنی مقبول ہوچکی تھی کہ 1996کے صدارتی انتخاب میںزیوگانوف یلسن کے سب سے بڑے مخالف بن کر ابھرے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ زیوگانوف صدارتی انتخاب جیت کر سوشلزم کا نیا چہرہ پیش کریں گےجو ملی جلی معیشت پر مبنی ہوگا۔

مگر سوویت یو نین ٹوٹنے کے پانچ سال کے اندر معیشت کا انتظام اس طرح چلایا گیا کہ ملک میں بڑے سرمایہ دار وجود میں آگئے تھے جو ارب پتی بن چکے تھے۔

ان میں ایک بڑا نام ا نا طولی چُوبائیس (CHUBAIS)کا تھا جویلسن کی ا نتظا میہ میں نج کاری کے ذمے دار تھے اور انہوںہی نے روس میں منڈی کی معیشت متعارف کرائی۔وہ سوویت یونین کے آخری برسوں میں معیشت کے پروفیسررہے تھے اور گو ر با چوف کی پالیسی کے بڑے حمایتی تھے جس کے تحت سوو یت معیشت کو کھولنا اور نجی ملکیت کو فروغ دینا تھا۔

یلسن نے انہیں نائب وزیر اعظم بناکر نج کاری کی ذمے داری دی تھی ۔انہوںنے پانچ سال میں سرکاری معیشت کو نجی ہاتھوں میں دے دیاتھا۔انہوں نے 1996کے انتخابات میں زیوگاف کو ہرانے کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔

روس کے سرمایہ داروں نے1996 کے انتخابات میں روسی کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار زیوگانوف کا راستہ روک کر یلسن کو پھر منتخب کرادیا جس سے روس میں سوشلزم کے احیا کا امکان ختم ہوگیا تھا۔ لیکن 2000 کے صدارتی انتخاب میں بھی زیوگانوف صدارتی امیدوار تھے۔ یلسن کے اقتدار کے آخری مہینے،یعنی دسمبر1999میں ہونے والے پار لیما نی انتخابات میں روسی کمیونسٹ پارٹی کی نشستیں کم ہوگئی تھیں پھر بھی زیوگانوف نے پوٹن کے تریپن فی صد ووٹوںکے مقا بلے میں تقریباً تیس فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔

پھر 2004کے انتخاب میں بھی کمیونسٹ پارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار خارساتونوف دوسرے نمبرپر آئے تھے۔ 2008کے انتخاب میں پوٹن کی طرف سے میدوسی دیف امیدوارتھے۔

ان کے مقابلے میں ایک بار پھر کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار زیوگانوف دوسرے نمبر پر آئے تھے۔ اس دوران ایک چالاکی کی گئی جس کے تحت صدر کے عہدے کی میعاد،جو 2012تک چار سال کی تھی، اسے بڑھاکر چھ سال کردیا گیا۔اس طرح 2012میں منتخب ہوکرپوٹن چھ سال صدر رہے۔2012میں بھی کمیونسٹ پارٹی کے امیدوارزیوگانوف دوسرے نمبر پر رہے تھے۔

حالیہ انتخابات میں کمیونسٹ امیدوار گرودی نِن (GRUDININ) دوسرے نمبر پر آئے ہیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد پچیس برسوں میں جو صدارتی انتخابات ہوئے ہیں اُن میں سے صر ف 1996کے انتخابات ایسے تھے جس میں اس بات کا قوی امکان تھا کہ کمیونسٹ اقتدار میں واپس آجائیں گے کیوں کہ پہلے مرحلے میں یلسن پینتیس فی صد ووٹ لے کر پہلے اور زیوگانوف بتیس فی صد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر تھے ۔ مگر دوسرے مرحلے میں یلسن تریپن فی صد ووٹ لے کر جیت گئے یا جتادیئے گئے تھے جس کے بعد کمیونسٹ پارٹی دس پندرہ فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کرسکی تھی۔

ولادی میر پوٹن کے پھر صدر منتخب ہونے پر سب سے پہلے خوشی کا اظہار چینی صدر شی جن پنگ نے کیا اور کہا کہ پوٹن کے دور میں اُن کی چین سے دوستی مثالی رہی ہے۔ چوں کہ چینی شی جن اب خود تاحیات صدررہ سکتے ہیں اس لیے پوٹن کا پچیس سال تک برسرِ اقتدار رہناان کے لیے نیک شگون ہوگا کیوں کہ اس طرح وہ خود اپنے ملک میں طو یل عرصے تک حکومت کرنے کا جواز پیش کرسکیں گے۔

حالیہ دنوں میں مغربی ممالک سے روس کے تعلقات خا صے خراب رہے ہیں ۔اس ضمن میںبرطانیہ کے ساتھ سفا ر تی تنازع خاص اہمیت کا حامل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ دنوں روس نے برطانیہ میں اپنے جاسوس کو مبینہ طور پر زہر دیا جس کے بعد دونوں ممالک ایک دوسرے کےتقریباً دو درجن سفارت کارملک بدر کرچکے ہیں۔

اب پوٹن کے پھر منتخب ہونے کے بعدایسا لگتا ہے کہ وہ مزیدسخت رویہ اختیار کریں گے۔ انہوں نے روسی وزارت خارجہ کے ذریعے اعلان کرایا ہے کہ روس برٹش کونسل کے دفاتر بند کردے گا اور سینٹ پیٹرز برگ میں برطانوی قونصل خانہ کھولنے کی اجازت بھی واپس لے لی جائے گی۔ان حالات میں روس ،چین اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں۔

لیکن بھارت نے اپنا وزن اب تک امریکا کے پلڑے میں ڈالا ہوا ہے جس کا فائدہ پاکستان اس طرح اٹھاسکتا ہے کہ وہ چین اور روس کے ساتھ تعلقات مزید بہتر بنائےاور اس سلسلے میں ایران کو بھی اپنے ساتھ رکھے۔

اب اس خطے میں طاقت کا نیاتوازن قائم ہورہا ہے جس میں پاکستان اگر بہتر سفارت کاری کا مظاہرہ کرے تو بہت فائدے اٹھاسکتا ہے ، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں مضبوط جمہوری حکو مت ہو جو اپنی خارجہ پالیسی بنائے، ورنہ روس اور چین کی مطلق العنانیت کے پاکستان پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہو ں گے۔