قرارداد لاہور اور ہماری ذمہ داری

March 23, 2018

دو قومی نظریہ کی بنیاد ہندوستان میں اُسی دن پڑ گئی تھی۔ جس دن ساحل مالا بار کی ریاست گدنگانورے کے حکمران راجہ سامری نے اسلام قبول کیا تھا۔
22مارچ 1940ء کومسلم لیگ کا عام اجلاس شروع ہوا۔ نواب شاہنواز ممدوٹ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے اس تاریخ ساز اجلاس میں مختلف صوبوں سے جن مشہور لیڈروں نے شرکت کی ان میں سر عبداللہ ہارون، قاضی محمد عیسیٰ، آئی آئی چندریگر، رئوف شاہ، ڈاکٹر عالم، سید ذاکر علی، عبد الحمید قادری، چوہدری خلیق الزمان، نواب بہادر یار جنگ، مولوی فضل الحق، سردار عبدالرب نشتر اور خواجہ ناظم الدین وغیرہ شامل تھے۔ اجلاس میں شریک ہونے والوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس ہزار تھی۔ 23مارچ کے تاریخی اجلاس میں شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی جس کی چوہدری خلیق الزمان، مولانا ظفر علی خان، سر عبد اللہ ہارون، سردار اورنگ زیب، نواب اسمٰعیل، قاضی محمد عیسیٰ اور بیگم محمد علی جوہر نے تائید کی۔
قرارداد لاہور، چار سو الفاظ اور چار مختصر پیراگراف پر مشتمل قرارداد تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی یہ مسلمہ رائے تھی کہ کوئی بھی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابل عمل اور مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا تاوقتیکہ وہ مندرجہ ذیل بنیادی اصول پر وضع نہ کیا گیا ہو۔ یعنی جغرافیائی طور پر متصلہ علاقوں کی حد بندی ایسے خطوں میں کی جائے (مناسب علاقائی ردوبدل کے ساتھ) کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے مثلاً ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے ان کی تشکیل ایسی ہی صورت میں کی جائے جس کی مشمولہ وحدتیں خود مختار اور مقتدر ہوں۔
پاکستان کیلئے اس قرارداد کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ کسی بھی بک کو پیش کرنے سے پہلے اسکے ٹائٹل کورکو دی جاتی ہے۔ سات سال میں یہ لاوا جب پک کر تیار ہوا تو دنیا کے نقشے پر پاکستان نام کی زمین کو ابھارا گیا۔ لوگ آزادی کی خوشی میں سب کچھ بیچ اور گنوا کر جب اس زمین پر پہنچے تو دنیا نے مدینہ کی بھائی چارے کی ایک مثال رقم طرِاز ہوتے دیکھی۔ آج اس جگہ اس یاد کے لئے مینار پاکستان قائم ہے پاکستان قائم ہوا تو لوگوں کے ساتھ ساتھ قائداعظم نے یہی سوچا ہوگا کہ جنگ کسی حد تک ختم ہوگئی لوگ آزاد ہوگئے۔ ہرطرف اسلام کا بول بالا ہوگا ہر طرف ایک آواز ہوگی ہم پاکستانی ہیں۔ لیکن ان لمحوں میں شاید آسمان ہنسا ہوگا اور اس کی یہ ہنسی آج پاکستان کے ہر درودیوار سے ٹکراتی محسوس ہورہی ہے۔ جو لوگ پاکستان کیلئے مر رہے تھے وہ آج پاکستان کے حصول کو غلط قرار دے رہے رہیں۔ جو کل صرف پاکستانی تھے وہ آج سندھی، بلوچی اور پٹھان ہیں۔ آج پنجاب کی حکومت بس پنجاب کی حکومت ہے۔ بلوچستان میں کیا ہوا ہم نہیں جانتے۔ ہم نے بنگال کھو دیا ہماری آنکھیں نہیں کھلیں۔ ہم ایک دوسرے کے لیے مر نہیں رہے بلکہ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔
وطن سے محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہر انسان بلکہ ہر ذی روح میں پایا جاتا ہے۔ جس زمین پر انسان پیدا ہوتا ہے، اپنی زندگی کے شب وروز بتاتا ہے، جہاں اس کے رشتہ دار ہوتے ہیں، جہاں اسکے دوستوں، والدین، دادا دادی کا پیار پایا جاتا ہے۔ وہ زمین اس کا اپنا گھر کہلاتی ہے۔ وہاں کی گلی، وہاں کے درودیوار، وہاں کے پہاڑ، گھاٹیاں، چٹان، پانی اور ہوائیں غرضیکہ وہاں کی ایک ایک چیز سے اس کی یادیں جڑی ہوتی ہیں۔
وطن سے محبت کے اس فطری جذبہ کا اسلام نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ ایسا پرامن ماحول فراہم کرتا ہے جس میں رہ کر انسان اپنے وطن کی اچھی خدمت کر سکے۔ اسلام نے ملک کے امن وامان کو غارت کرنے والوں کے لئے سخت سے سخت سزا سنائی ہے۔ صرف اس لئے کہ کسی کی ملک میں دہشت پھیلانے کی جرات نہ ہو۔ اسلام ہر اس کام کا حکم دیتا ہے جس سے ہم وطنوں کے درمیان تعلق مضبوط رہے۔ وطن کی سلامتی اس امر میں ہے کہ لوگوں کے مال وجان، عزت اور خون کی حفاظت کی بجائے ملک کے مفادات کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں اور ملک کو ہر طرح کی کرپشن اور بدعنوانی سے پاک رکھیں۔ معاشرے میں امن وامان پھیلانے کی کوشش کریں، ظلم و زیادتی کے ہر عمل سے خود بچیں اور معاشرے کے امن کو غارت کرنے والوں کو معاشرے کے لئے ناسور سمجھیں اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اب ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اب تک ملک کے لئے کیا کیا ہے۔ ملک کی ترقی میں کتنا حصہ لیا ہے۔ بہبود کے لئے کیا کیا ہے۔ عوامی بیدار مہم میں کس حد تک حصہ لیا ہے۔ آج ہمارا فرض بنتا ہے کہ اپنے ملک کی ترقی کے لئے تعلیم اور عوامی بہبود کے میدان میں جو بھی قربانیاں ہوسکتی ہوں دینے کو تیار ہیں۔