تعمیرِ شخصیت اور اسلامی تعلیمات

March 25, 2018

ڈاکٹر محمد عمر فاروق قریشی

ارشاد ربانی ہے:’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف گروہوں اور قبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اللہ کے نزدیک وہی عزت والا ہے،جو زیادہ متقی ہے، بے شک، اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے۔‘‘کائنات کا وہ حصّہ جسے زمین کہتے ہیں انسان کا مستقر ہے، ایک مدّت تک وہ اس سے نفع اٹھاتا ہے، کیوںکہ انسان کو زمین پر بھیجنے کے لیے یہی حکم الٰہی تھا، پھر یہ حکم بھی دیا گیا کہ ہدایتِ ربانی اس کے پاس آتی رہے گی،جو اسے قبول کرے گا، وہ کام یاب وکامران ہوگا،جو اس ہدایت سے منہ موڑے گا وہ ناکام و نامرادہوگا۔

پھر ربِ کائنات نے اس پر بس نہیں کیا، بلکہ کائنات کو جس تناسب و توازن کے ساتھ بنایا،اسی طرح اس نے کمال مہربانی سے انسان کی تخلیق کرکے اسے اعلیٰ مخلوق اور زمین پر اپنا نائب بنایا۔ ان تمام مہربانیوں کا مقصد یہ تھا کہ انسان ایک طرف تو اپنی ذات کی طرف توجّہ دے اور اپنی فلاح کے لیے نیک افعال و اعمال انجام دے،لیکن یہ کام وہ تنہا نہیں کرسکتا، بلکہ اس کے اعمال کا صحیح اندازہ تو اُس وقت ہوتا ہے،جب وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ رہ کر زندگی گزارے۔ ایسے میں اس کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔

شخصیت سے مراد اس کا مزاج، عقل و دانش اور معاشرتی رویّہ ہے اور اگر معاشرے میں انفرادی طور پر مزاج مثبت اور غالب تعداد میں ہوں تو معاشرہ بھی مثبت مزاج کا حامل ہوگا۔اسلام کا منشا یہ ہے کہ انسان اعلیٰ اخلاق کی حامل شخصیت ہو، تاکہ دوسرے لوگ اس سے آرام اور راحت پاسکیں۔

اسلام نے تعلیماتِ قرآنی اور سیرتِ رسولؐ کی روشنی میں ایسے اقدامات تجویز کیے ہیں،جو شخصیت سازی میں انتہائی اہم ہیں،جن پر عمل پیرا ہوکر ایک بہترین فرد کا وجود عمل میں آتا ہے اور وہ فرد ایک صالح اورمثالی معاشرے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسلامی اقدامات درج ذیل ہیں۔

٭امن پسندانہ رویّہ:۔امن،اسلام کی اساسی تعلیمات میں سے ہے۔اسلام تصادم کے اسباب کی نفی کرتا ہے اور وحدتِ انسانیت کا قائل ہے۔اس کی روح میں وسیع الظرفی اور رواداری کا وجود زمین میں امن و سلامتی مہیا کرتا ہے۔

مختلف حصّوں، رنگوں، مذاہب کو جوڑنے اور بنی نوع انسان میں محبت، باہمی الفت اور رحم پھیلانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔اسلام ان جنگوں کا بھی مخالف ہے، جن کا مقصد ذاتی و قومی لالچ اور مادی منفعت ہے۔غرض یہ کہ اسلام فرد اور جماعت کو چھوٹے چھوٹے محدود مقاصد سے نکال کر آزاد فضائوں میں لاتا ہے اور اعلیٰ مقاصد کے لیے اسے آگے بڑھاتا ہے۔ وہ انسانیت کو بلند اور جامع نظریے تک پہنچاتا ہے۔ یہ تمام مقاصد اُس وقت پورے ہو سکتے ہیں، جب انسان کا رویّہ امن پسندانہ ہو۔ اسلام شروع سے اپنے پیروکاروں کو امن و سلامتی کی تعلیم دیتا ہے۔

٭اخلاقِ حسنہ:۔انسانی شخصیت کی نشوونما میں سب سے بڑا کردار ادا کرنے والا عامل اخلاق ہے۔ محض ظاہری شکل و صورت، رنگ و روپ اور لباسِ فاخرہ بہترین حسب و نسب اور مال و دولت کے بل بوتے پر کوئی شخص انسان نہیں کہلا سکتا۔ شخصیت کی اصل روح کی پاکیزگی اوراس کا اخلاقی کردار ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوموں کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں اخلاق کے ذریعے بڑے، بڑے کام لیے جا سکتے ہیں،جو قوّت و طاقت کے ذریعے نہیں لیے جا سکتے۔ نرمی و ملائمت اور محبت و مودت بعض اوقات تلوار کی دھار سے بھی زیادہ مؤثر ہوتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کے پھیلنے اور لوگوں کے جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ مسلمانوں کا اعلیٰ اخلاق و بہترین کردار تھا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ حسن اخلاق کے نتیجے میں تہذیب و تمدّن عروج کو پہنچے ہیں۔ اخلاق کو اعلیٰ بنانے میں آپؐ کے چند ارشادات ملاحظہ ہوں۔ ’’مجھے محاسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے، تم میں سے زیادہ محبوب وہ ہے جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں،بے شک مومن اپنی خوش خلقی کے ذریعے رات کو عبادت کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔‘‘

٭اعمالِ صالحہ:۔تعمیرِ شخصیت کے لیے اوّل چیز تو ایمان ہے، کیوںکہ ایمان کے ذریعے انسان اپنا محاسبہ کرتا رہتا ہے۔اسے روزِ آخرت اور احتساب کا ڈر ہوتا ہے، لہٰذا ایمان تو پہلی چیز ہے،جو شخصیت کے لیے جڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس طرح عمل صالح کے بغیر ایمان ادھورا رہ جاتا ہے۔اعمال صالحہ کے اثرات فرد پر واضح نظر آتے ہیں،اس کی سوچ اور فکر تبدیل ہوجاتی ہے اور وہ ہر ایسا عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے،جو اللہ کی خوشنودی کا باعث ہو،اس لیے وہ انسانوں کو تکلیف نہیں دیتا بلکہ ان کے راحت و آرام کا خیال رکھتا ہے۔

٭حقوقِ انسانی کا خیال رکھنا:۔کوئی فرد اکیلا زندگی نہیں گزارسکتا، بلکہ انسانوں کے ساتھ رہ کر وہ اپنی زندگی گزارتا ہے،اس لیے اسے دوسرے انسانوں کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے۔اسلام نے صرف والدین یا خاندان کے چند افراد کے حقوق کا ذکر نہیں کیا، بلکہ تمام انسانوں کے حقوق درجہ بہ درجہ بیان کیے ہیں، حتیٰ کہ تھوڑی دیر کے لیے رفاقت کرنے والے ہم سفرکے حقوق کی ادائیگی کا بھی حکم دیا ہے۔

ایسا مہربان مذہب، کس طرح تشدد،عدم رواداری اور اذیت پسندی کا درس دے سکتا ہے، جس کی بنیاد ہی امن و سلامتی پر ہے،جو انسانی حقوق کا صحیح معنوں میں علم بردار ہے۔ جب ہم پڑوسیوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو دیکھیے اسلام نے کس طرح ان کے حقوق کی تاکید کی ہے۔ بہرحال دوسرے انسانوں کے حقوق کی ادائیگی سے انسان کی شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے۔

٭اعتدال و رواداری:۔تعمیرِ شخصیت میں اعتدال کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کو معتدل امت قرار دیا گیا ہے اور ہر معاملے میں اعتدال سے کام لینے کا حکم ہے۔ حضورﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کو زیادہ عبادت سے منع کرتے ہوئے فرمایا ’’تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے۔‘‘ یہ سنہری الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ عبادت میں بھی اعتدال رکھنا ضروری ہے۔اسی طرح رواداری اسلامی تعلیمات کا بنیادی اصول ہے۔

حضوراکرمﷺ نے نجران کے عیسائیوں کے وفد کی خوب تواضع کی اور مسجد نبویؐ میں ایک خیمے میں ٹھہرایا۔ اس طرح آپؐ نے اپنے امتیوں کو اعتدال اور رواداری کا بہترین سبق دیا۔

اسلام نے انسانوں سے نفرت نہیں سکھایا،بلکہ ان سے محبت کرنے کے لیے ایک بہترین شخصیت کا ہونا ضروری ہے۔اسلام نے انسانی شخصیت کی تربیت کا بہترین انتظام کیا ہے اور ایسے اقدامات تجویزکیے ہیں،جن کی روشنی میں ایک بہترین مسلمان وجود میں آسکتا ہے،جو دوسروں کے لیے ایک روشن مثال بن سکتا ہے۔ایک باکردار اور معتدل مزاج کا حامل ہوتا ہے اور یہی اسلام کا مطلوب انسان ہے۔

پسندیدہ عمل

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو اعمال اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں ان اعمال میں سے ایک عمل کسی مؤمن کے دل کوخوش کرنا اور اس کو خوشی سے ہم کنار کرنا ہے‘‘…(طبرانی معجم کبیر)

آٹھ خوش نصیب

امام ابن العابدین شامی بیان کرتے ہیں کہ جن سے قبر میں سوال نہیں کیا جائے گا وہ آٹھ قسم کے لوگ ہیں: شہید،صدیق،اسلامی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والا سپاہی، مرضِ طاعون سے فوت ہونے والابیمار، طاعون کے زمانے میں طاعون کے علاوہ کسی مرض سے فوت ہونے والا صابرشخص،بچے، جمعے کے دن یا رات میں فوت ہونے والاشخص، جب کہ وہ صابر اور ثواب کی امید رکھنے والا ہو اور ہر رات سورۂ تبارک (سورۂ ملک) پڑھنے والامسلمان۔

بعض محدثین نے سورۂ ملک کے ساتھ سورۂ سجدہ کو بھی ملایا ہے اور اپنے مرضِ موت میں سورۂ اخلاص پڑھنے والے کو اورتمام انبیائے کرامؑ کواس فہرست میں شامل کیا ہے اس لیے کہ وہ صدیقین سے درجے میں بڑھے ہوئے ہیں۔ (شامی، جلد اول)

چار صفات

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے جس شخص میں یہ چارصفات موجود ہوں، اسے دنیا کی کسی چیز کی محرومی نقصان نہیں پہنچا سکتی، پہلی چیز امانت کی حفاظت، دوسری چیز بات کی سچائی، تیسری چیز اچھے اخلاق اور چوتھی حلال کھانا‘‘۔(مسند احمد)

نفرتیں مت پھیلاؤ

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب کبھی اپنے کسی صحابی کوکوئی حکم دے کر روانہ کرتے تو ارشاد فرماتے: ’’لوگوں کو خوش خبری دو، انہیں نفرت مت دلاؤ اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرو، تنگی کا معاملہ نہ کرو‘‘۔(صحیح مسلم)

پڑوسیوں سےحُسن ِسلوک

فرمان الٰہی ہے ’’اور اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ قریبی رشتے داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، قریبی ساتھی، پڑوسی ، اور پڑوسی رشتہ دار سے اچھا سلوک کرو۔مسافر اور غلام سے بھی حسن سلوک کرو۔بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے شیخی خور ے کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (سورۂ نساء)فرمان رسول اکرم ﷺ ہے۔’’اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہے ۔وہ مؤمن نہیں ہے ، وہ مؤمن نہیں ہے‘‘۔ پوچھا گیا کون اے اللہ کے رسول ؟فرمایا ’’جس شخص کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں‘‘۔ (صحیح بخاری)