وزیر داخلہ پرحملہ:پُرامن الیکشن کیسے؟

May 08, 2018

نارووال میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کے اسباب اور محرکات کا پتہ تو تفصیلی تحقیقات کے بعد ہی چل سکے گا لیکن ایسے وقت میں جب ملک میں عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان محض چند ہفتے کے دوری پر ہے اس افسوسناک واقعے نے پرامن انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ احسن اقبال اپنے حلقے میں انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد واپسی کے لئے گاڑی میں سوار ہونے جارہے تھے کہ ایک 22سالہ نوجوان نے جو جلسے کے دوران پہلی صف میں بیٹھا تھا صرف 15گز کے فاصلے سے ان پر30بور کے پستول سے فائرنگ کر دی۔ ایک گولی ان کے دائیں بازو کی ہڈی کو توڑتی ہوئی پیٹ کے نچلے حصے میں گھس گئی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے اس سے قبل کہ ملزم مزید گولیاں چلاتا، وزیر داخلہ کی حفاظت پر مامور ایلیٹ فورس نے چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ آور عابد حسین کو دبوچ لیا اور پستول اس کے قبضے سے چھین لیا، ڈسٹرکٹ اسپتال نارو وال میں ابتدائی طبی امداد کے بعد وزیر داخلہ کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے بھیجے ہوئے ہیلی کاپٹر کے ذریعے سروسز اسپتال لاہور منتقل کر دیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کا کامیاب آپریشن کیا تاہم گولی فی الحال نہ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ بتایا گیا ہے کہ گولی لگنے سے ان کے بازو کی دو ہڈیاں ٹوٹ گئیں جنہیں جوڑ دیا گیا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے احسن اقبال سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے اور آئی جی پولیس پنجاب سے واقعے کے بارے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ صدر مملکت، وزیراعظم، تینوں مسلح افواج کے سرابراہوں، سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور قومی رہنمائوں نے وزیرداخلہ پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ سیاسی رہنمائوں نے اس اقدام کو جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور جاپان سمیت کئی ملکوں نے بھی واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ ملزم عابد حسین پرچون کی ایک دکان پر کام کرتا ہے اور مبینہ طور پر ایک مذہبی جماعت کا کارکن ہے، پولیس کو ابتدائی بیان میں اس نے اقبال جرم کرتے ہوئے کہا کہ احسن اقبال میرا ٹارگٹ تھے، بعد میں ملزم کا ایک ساتھی بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ملزم کے خلاف اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ حملے کی اطلاع ملنے پر مسلم لیگ ن کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے۔ مبصرین نے اس افسوسناک واقعے کو سیاسی ماحول خراب کرنے اور عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ اگرچہ یہ واقعہ وزیر داخلہ کے انتخابی حلقے میں پیش آیا اور اس میں اسی علاقے کا ایک نوجوان ملوث ہے لیکن اسے عام انتخابات کے موقع پر ملک میں پائی جانے والی عمومی سیاسی گرما گرمی اور بڑھتی ہوئی کشیدہ صورت حال سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ بعض عناصر قتل و غارت، توڑ پھوڑ اور ہنگاموں کے ذریعے ماحول خراب کر کے عام انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ عمومی حالات ایسے نہیں کہ وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہو سکیں مگر حکومت، سیاسی پارٹیوں، سول سوسائٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو باہمی مشاورت سے کسی بھی متوقع صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کیلئے انتہائی سنجیدگی سے متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا اور سیکورٹی انتظامات فول پروف بنانا ہوں گےکیونکہ بعض بیرونی قوتیں پاکستان میں امن اور استحکام نہیں چاہتیں۔ ایسے میں الیکشن کے موقع پر جب سیاسی فضا مکدر ہوتی ہے، یہ قوتیں اپنا کھیل، کھیل سکتی ہیں۔ جمہوری قوتوں کو چاہئے کہ وہ قومی مفاد میں دانشمندی سے کام لیں اور سیاست میں تشدد اور عدم برداشت کے رجحان کی حوصلہ شکنی کریں، ہو سکتا ہے کہ انتخابات کے موقعے پر ملک دشمن اندرونی عناصر اور بیرونی قوتیں حالات کو خراب کرنے کی کوشش کریں۔ ایسی صورت حال کے مقابلے کیلئے نہ صرف سیکورٹی اداروں بلکہ سیاستدانوں اور اور عام لوگوں کو بھی چوکس رہنا چاہئے اور پرامن شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنانا چاہئے۔