انتخابی درجہ حرارت

May 08, 2018

یہ سن کر آپ حیران نہ ہوں کہ جہاں میں رہتا ہوں وہاں اکثر لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔میں اپنے ملک کی بات نہیں کررہا۔ہر دور کے حاکموں کی طرح موجودہ دور کے حاکموں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ ان کے دور حکومت میں ملک نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی ہے۔ہمارا ملک اقوام متحدہ کے دس تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے۔ترقی کی دوڑ میں ہم نے اپنے دوست اور دشمن ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ترقی کی دوڑ میں ہم اس قدر آگے نکل گئے ہیںکہ اب ہمیں پتہ تک نہیں چلتا کہ ترقی کی دوڑ میں ہم کس کس ملک سے آگے نکل گئے ہیں۔ترقی کی دوڑ میں تیزی سے دوڑتے ہوئے جب ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے پیچھے کوئی ملک دکھائی نہیں دیتا۔کبھی کبھی تو ہم حیران رہ جاتے ہیں۔پریشان ہوکر سوچتے ہیں کہ ترقی کی دوڑ میں ہم کہیں سب سے پیچھے تو نہیں رہ گئے ،مگر نہیں۔پچھلے ستربرس سے ہمارے ملک پر حکومت کرنے والوں نے ہمیں ہربار یقین دلوایا ہے کہ ترقی کی دوڑ میں ہم نے دنیا بھر کے ممالک کو پیچھے چھوڑ دیاہے۔ہم اپنے حاکموں کی نیت پر شک نہیں کرتے۔ ہمارے حکمران ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔سچ کے سوا کچھ نہیں بولتے۔ خاموش رہتے ہیں، یاپھر لگاتار سچ بولتے ہیں۔حتیٰ کہ ہم رعایا سچ سنتے سنتے چکراکر گرپڑتے ہیں مگر ہمارے حکمران سچ بولنے سے باز نہیں آتے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمارے ملک میں لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔میں آپ کو یہ بتارہا تھا کہ جہاں میں رہتا ہوں وہاں لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔میرا مطلب ہے کہ میرے اڑوس پڑوس میں لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔میرے محلہ میں لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔یہ کوئی نئی یا نرالی بات نہیں ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ جہاں آپ رہتے ہیں وہاں بھی لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہوں گے۔آپ کے پڑوس اور آپ کے محلےمیں جھگڑے ہوتے ہوں گے۔تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ممالک میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔ لڑائی جھگڑے ، دنگے فساد ، دھرنے ، جلائو گھیرائو اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ ملک بہت تیزی سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔
جیسے جیسے اور جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہے تب ملک پر لڑائی جھگڑوں کی گھنگھور گھٹائیں چھاجاتی ہیں۔ہمارے ہاں انتخابات کا موسم برملا گرمی کے موسم میں آتا ہے۔گرمی کے موسم کا سرکاری نام ہے موسم گرما، پرند چرند، حیوانات نباتات، آدمی اور آدمیت کا پارہ چڑھا ہوتا ہے۔آستینیں چڑھی ہوئی ہوتی ہیں۔مونچھیں تنی ہوئی ہوتی ہیں۔مٹھیاں بھنچی ہوئی ہوتی ہیں۔آگ پر چھڑکنے کے لیے تیل کی فراوانی ہوتی ہے۔ایسے موسم میں ہمارے ہاں انتخابات کا موسم آتا ہے۔لہٰذا آپ کے پڑوس میں، آپ کے محلہ میں، آپ کے اطراف ماحول کھول رہا ہوگا۔میں چونکہ آپ کے پڑوس میں نہیں رہتا۔اس لیے میں آپ کے ہاں ہونے والے لڑائی جھگڑوں کی نوعیت سے نابلد ہوں۔میں اتنا اندازہ لگاسکتا ہوں کہ آپ کے اطراف ہونے والے لڑائی جھگڑوں کا بنیادی سبب انتخاب ہوگا۔کس کو انتخابات میں کھڑا کیا جائے؟ کس کو انتخابات میں بٹھایاجائے۔کس امیدوار کو ووٹ دیا جائے۔کس کو ووٹ دینے سے انکار کیاجائے؟
اسی نوعیت کے لڑائی جھگڑے ہمارے ہاں بھی جاری ہیں۔جہاں دیکھو لوگ بحث مباحثوں میں الجھے ہوئے ہیں۔اسی دوران ملک تیزی سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی ایک نمایاں نشانی اور بھی ہے۔ایک تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملک میں بڑی سختی سے سماجی اور سیاسی حدود کا تعین کیا جاتا ہے۔ان حدود کا تعین خود بہ خود ہوجاتا ہے۔اس قسم کی حدود کا تعین قانون سازی اور کاغذی کارروائیوں سے نہیں ہوتا۔جن علاقوں میں سڑکیں چوڑی اور صاف ستھری ہوتی ہیں۔خوبصورت اسٹریٹ لائٹس ہوتی ہیں۔جہاں ریڑھے والے سڑی ہوئی سبزیاں،کالی کلوٹی شکرقندی اور برف کے گولے گنڈے بیچتے نظر نہیں آتے۔جہاں دیدہ زیب مکانوں بلکہ کوٹھیوں کے سامنے دیدہ زیب سرسبز باغ باغیچے ہوتے ہیں، ایسے علاقوں میں شائستہ قسم کے لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔اس کے برعکس جن علاقوں میں لوگ تاروں میں کنڈے لگاکر بجلی حاصل کرتے ہیں، ایک کنکشن سے گیس کے دس کنکشن نکال لیتے ہیںاور جہاں کی سڑکیں یاتو ٹوٹی پھوٹی ہوتی ہیں یا پھر نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔گلیاںاس قدر تنگ ہوتی ہیں کہ دوسائیکل سوار بمشکل گلی سے گزر سکتے ہیں۔ ایسے علاقوں میں لڑائی جھگڑے اکثر مارپیٹ اور دنگا فساد میں بدل جاتے ہیں۔ تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ہمارے ملک میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں گلیاں تو کیا پگ ڈنڈیاں تک نہیں۔ جھگیوں جیسے مکان ہیں جو اکثر گرجاتے ہیں۔نہ پانی، نہ گیس، نہ بجلی۔ایسے علاقوں میں زبانی کلامی لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے۔ایسے علاقوں میں گولیاں چلتی ہیں، ڈنڈے اور لاٹھیاں چلتی ہیں، خنجر اور سریے چلتے ہیں۔
میں صرف اپنے علاقے کے بارے میں وثوق سے بات کرسکتا ہوں۔انتخابات کے حوالے سے ہمارے علاقے میں ریٹائرڈ ہیڈماسٹر ولی محمد گھائل کو لے کر خوب گرماگرم بحث ہورہی ہے۔ماسٹر ولی محمد گھائل شاعر نہیں ہے۔گھائل ان کا تخلص نہیں ہے۔ایک مرتبہ خودکش حملہ آور نے ان کے اسکول پر حملہ کیا تھا۔اس حملے میں ماسٹر ولی محمد گھائل ہوگئے تھے۔وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگئے تھے۔ہمارے علاقے کے کچھ لوگ ماسٹر ولی محمد گھائل کو انتخابات میں قومی اسمبلی کے لیے بطور ممبر کھڑا کرناچاہتے ہیں۔کچھ لوگ سختی سے اس تجویز کی مخالفت کررہے ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ ماسٹر ولی محمد گھائل کے بطور امیدوار برائے قومی یا صوبائی اسمبلی کھڑے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔وہ اس لیے کہ ماسٹر ولی محمد گھائل دونوں ٹانگوں سے محروم ہیں۔وہ کھڑے نہیں ہوسکتے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)