انتخابی تیاریاں: خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی مخالفین کی وکٹیں گرانے کیلئے کوشاں

May 10, 2018

احتشام طورو

عام انتخابات قریب آتے ہی خیبر پختونخوا میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے سیاسی سرگرمیوں کا سلسلہ تیز کردیاگیا ہے جبکہ خیبر پختونخوا کی حکمران جماعت تحریک انصاف کی طرف سے خیبر پختونخوا میں بڑے بڑے سیاسی جلسے کرنے کی بجائے مخالفین کی وکٹیں گرانے پر توجہ دی جا رہی ہے ‘اس سلسلے میں مردان ‘پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع میں مخالفین کی وکٹیں گرانے کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے‘پشاور میں مسلم لیگ ( ن ) کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات ناصر موسی زئی ‘ ارباب وسیم حیات ‘پیپلزپارٹی کے ارباب عثمان ‘اسد گلزار اور مردان میں پیپلز پارٹی کے صوبائی رہنما ظاہر شاہ طورو‘ سابق وزیر خزانہ افتخار مہمند ‘حاجی سرفراز خان کے علاوہ کئی اہم شخصیات بھی پی ٹی آئی کے کاروان میں شامل ہوگئے اور صوبے میں تحریک انصاف جس کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ پانچ سال حکومت کرنے کی وجہ سے عوام میں گراف بڑھنے کی بجائے گرے گاتاہم دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی تحریک انصاف میں دھڑادھڑ شمولیت سے واضح نظر آرہا ہے کہ تحریک انصاف کا گراف گرنے کی بجائے بڑھ رہا ہے ۔ اگر چہ یہ خدشہ محسوس کیا جارہا تھا کہ پی ٹی آئی کے 20 اراکین صوبائی اسمبلی کو شوکاز نوٹس دینے کے بعد پی ٹی آئی بہت بڑے بحران سے دوچار ہوجائیگی لیکن تحریک انصاف کی قیادت نہایت ہوشیاری سے پیپلز پارٹی ‘مسلم لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کی اہم وکٹیں گراکر یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوگئی کہ تحریک انصاف عوام کی توجہ کی مرکز بنی ہوئی ہے ۔‘ پی ٹی آئی حالات کا بخوبی جائزہ لیکر ملک بھر میں آئندہ انتخابات کیلئے ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کیلئے کام کر رہی ہے جو امیدوار اپنے حلقوں میں اثر ورسو خ رکھنے کے ساتھ ساتھ ہر وقت عوام سے رابطے میں بھی رہتے ہوں او ر ان کا اپنے حلقے میں ایک اثر ہو کیونکہ یہ 2013ء نہیں بلکہ 2018ء ہے لہٰذا ان انتخابات میں وہی امیدوار کامیابی حاصل کرینگے جو ہر وقت عوام سے رابطے میں رہتے ہوں‘اے این پی کی طرف سے بھی مردان ‘چارسدہ ‘صوابی اورسوات کے علاوہ صوبے کے دیگر اضلاع میں آئندہ انتخابات کی تیاری کے سلسلے میں سیاسی جلسوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے ‘اے این پی کی طرف سے بہت پہلے امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے پارٹی میں مسائل بھی پیدا ہوئے اور بہت سے رہنمائوں اور کارکنوں نے بہت سے حلقوں میں جن امیدواروں کو ٹکٹ ملے ان پر تحفظات کا اظہار کیا ‘متحدہ مجلس عمل کی طر ف سے بھی صوبے میں شمولیتوں کے ساتھ ساتھ جلسوں کا سلسلہ جاری ہے اور ایم ایم اے قائدین کی طر ف سے دعوے کئے جارہے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں آنیوالے انتخابات میں ایم ایم اے اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائیگی جبکہ یہی دعوے اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی کئے جارہے ہیں جبکہ قومی وطن پارٹی کے اکثریتی ارکان اسمبلی کی طر ف سے پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد پارٹی کیلئے آئندہ انتخابات کے حوالے سے کافی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں اور قومی وطن پارٹی اس وقت انتہائی بحران سے دوچار ہے‘مسلم لیگ (ن) بھی خیبر پختونخوا میں امیر مقام کی قیادت میں اپنی سیاسی قوت کابھرپور مظاہرہ کر رہی ہے اور گزشتہ دنوں مردان میں جمشید مہمند ایم پی اے کی طرف سے جلسے کے بعد ایسا نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ ( ن ) کی مرکزی قیادت نے کافی عرصہ بعد خیبر پختونخوا پر توجہ دینا شروع کردی ہے اور مسلم لیگ ( ن ) جو کہ اس وقت انتہائی مشکل دور سے گزر رہی ہے اس قسم کے بڑے جلسے خیبر پختونخوا میں منعقد کرنا پارٹی کیلئے نیک شگون ہے جبکہ پیپلز پارٹی جس کا گراف پہلے ہی خیبر پختونخوا میں گر رہا ہے اب پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کی شمولیت کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی شمولیتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن پیپلز پارٹی کے کارکن اس صورتحال میں کافی مایوس ہوچکے ہیں اور قائدین سے سخت نالاں ہیں ‘زمینی حقائق کو دیکھ کر ایسا لگ رہاہے کہ پیپلز پارٹی کو تمام نشستوں پر امیدوار کھڑے کرنے میں مشکلات درپیش ہیں ‘پیپلز پارٹی اس وقت ہیوی ویٹ امیدواروں کی تلاش میں ہے تاہم پیپلز پارٹی کا گراف کتنا گرا ہے یا بڑھا ہے اس کا اندازہ 2018 ء کے انتخابات کے نتائج سے ہی واضح ہوجائیگا‘ خیبر پختونخوا میں آنیوالے انتخابات کے حوالے سے جس قسم کا سیاسی منظر نامہ بن رہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا مقابلہ تحریک انصاف سے ہوگا اور ہر سیاسی جماعت کیلئے تحریک انصاف ہی خطرے کی گھنٹی ہے‘ خیبر پختونخوا کی اکثر سیاسی جماعتیں تحریک انصاف سے خوفزدہ ہیں یہ سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کا راستہ روکنے کیلئے انفرادی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں‘اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے تحریک انصاف کیلئے متفقہ طورپر مشکلات پیدا کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آئی تاہم تحریک انصاف کے قائدین اور ر ہنمائوں کی طرف سے نہایت حکمت عملی سے اپوزیشن جماعتوں کی وکٹیں اڑانے کا سلسلہ جاری ہے اگر چہ خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ بی آر ٹی منصوبہ کو انتخابات سے قبل مکمل ہونے کی صورت میں اس کا کریڈٹ صوبائی حکومت کو جائیگا لیکن ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ منصوبہ مقررہ وقت میں مکمل نہ ہوسکا جس کی وجہ سے نہ صرف پشاور اور نواحی علاقوں کے لوگوں کو بلکہ صوبہ بھر سے آنیوالے لوگوں کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے عوام کی فلاح وبہبود کا یہ منصوبہ عوام کیلئے وبال جان بن گیا ہے اس منصوبے کی بروقت تکمیل نہ ہونے کی صورت میں آنیوالے انتخابات میں تحریک انصاف کے ووٹ بینک اور مقبولیت پر کتنا اثر انداز ہوگا یہ وقت ہی ثابت کریگا ‘اپوزیشن جماعتیں منتشر نظر آرہی ہیں‘ ایک دوسری کی ٹانگیں کھینچی جارہی ہیں تو ان حالات میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے تحریک انصاف کا مقابلہ کرنا مشکل نظر آتا ہے۔