الوداع قصائی صاحبان الوداع!

November 01, 2012

لیجئے صاحب!بقر عید تمام ہوئی جو سرفروش بکرے تھے وہ کوے یار سے نکل کر سوئے دار چلے گئے اور جن کے نصیبوں میں عید قربان پر بھی قربان ہونا نہیں لکھا تھا وہ سر نیہوڑاے دوبارہ ریوڑ کا حصہ بن گئے۔ بس آپ یوں سمجھیں کہ انہیں ایک سال کی ایکسٹینشن مل گئی ہے۔ ان میں سے جو سہل کوش ہیں اور اپنی جان کو ہر چیز سے عزیز رکھتے ہیں وہ اپنی جان اسی صورت میں بچا سکتے ہیں کہ اپنے جیسے بکروں کی یونین بنالیں اور اس کا تاحیات صدر بننے کی کوشش کریں، اس عید قربان پر ہمارے بھورے اور کالے بکرے میں سے بھورا بکرا، متذکرہ یونین کا تاحیات صدر بننے کا پوری طرح اہل تھا۔ دیکھنے میں بے حد نفیس ،خوش اخلاق اور ملنسار تھا چنانچہ اپنے ساتھی کالے بکرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول رہتا۔ شام کو بچے انہیں سیر کرانے لے جاتے تو بھورا بکرا، کالے بکرے کو ایک لمحے کے لئے بھی خود سے جدا نہ ہونے دیتالیکن جب ان کے سامنے ”دسترخوان“ بچھایا جاتا تو بھورا بکرا ،کالے بکرے کو”ٹڈھ“ مار مار کر پرے دھکیل دیتا اور اس کی پوری کوشش ہوتی کہ کالا بکرا پٹھوں یا دانے کے قریب نہ پھٹکنے پائے۔بیچارا کالا بکرا بے حد شریف تھا چنانچہ بے بسی کے عالم میں اس کی طرف دیکھتا کہ شاید اس کا دوست انصاف سے کام لے مگر یہ دوست ا یسا تھا کہ”کھانے کی میز “ پر آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتا تھا چنانچہ کالے بکرے کو اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے بادل نخواستہ بھورے بکرے کو آنکھیں دکھانا پڑتیں اور وہ”ٹڈھ“ کا جواب”ٹڈھ“ سے دینے پر مجبور ہوجاتا ۔اس صورتحال میں بھورا بکرا فوراً مصالحت پر اتر آتا اور اسے کھانے میں شریک کرلیتا، بکرا اور انسان شاید شرافت کا گاہک کوئی بھی نہیں ہوتا۔
عید کے پہلے روز بھورے بکرے کو قربان ہونا تھا، صبح جب پرات میں چنوں کی دال ڈالی گئی تو بھورے نے حسب معمول کالے کو قریب نہ پھٹکنے دیا، کالا کچھ دیر تو اس کا منہ دیکھتا رہا پھر اس نے اپنے معمول سے ہٹ کر ایک حرکت کی یعنی بجائے اس کے کہ اس پر جوابی حملہ کرکے کھانے میں اپنا حصہ وصول کرتا اس نے اپنا اگلا پاؤں پرات پر مار کر ساری دال زمین پر الٹادی ،بھورے نے غصے سے اس کی طرف دیکھا پیشتر اس کے کہ وہ آپس میں گتھم گتھا ہوجاتے اور یوں”خانہ جنگی“ کی سی صورت پیدا ہوجاتی اتنے میں قصائی کاندھے پر کلہاڑی رکھے اور ہاتھ میں چھری پکڑے اندر داخل ہوا، اس نے بھورے کی رسی کھولی اور اسے کھینچتا ہوا دیوار کی اوٹ میں لے گیا۔ اس پر بھورے اور کالے دونوں کو خطرے کا احساس ہوا چنانچہ بھورے نے کالے کو مدد کے لئے پکارنے کی خاطر دردناک آواز نکالی۔ اس وقت اس کی آواز میں بہت سوز و گداز تھا۔ اس کے جواب میں کالے نے احتجاجی انداز میں پوری قوت سے چلانا شروع کردیا اور رسی تڑا کر اس کی طرف جانے کی کوشش کی مگر زیادہ زور لگانے سے اس کے گلے میں پڑی رسی تن گئی جس سے اس کی آنکھیں باہر کو ابلنے لگیں۔ اتنی دیر میں قصائی نے بھورے کو زمین پر لٹا کر اس کی گردن پر چھری چلا دی،ایک نہتا بکرا ایک ”مسلح“ قصائی کے سامنے کتنی دیر کھڑا رہ سکتا تھا چنانچہ کچھ ہی دیر بعد اس کی آواز آنا بند ہوگئی۔ کالے بکرے نے بھی خاموشی اختیار کرلی شاید یہ سوچ کر کہ چلو اس کی اپنی جان تو بچ گئی مگر اگلی صبح قصائی پھر کلہاڑی اور چھری لئے گھر میں داخل ہوا اور اس نے کالے کو بھی اپنی ٹانگوں میں دبا کر تیز چھری سے ذبح کردیا۔
افسوس کہ دنیا سے سفر کر گیا بکرا
یہ ساری داستان بلکہ داستان الم میں نے کوئی سیاسی کالم لکھنے کی غرض سے بیان نہیں کی بلکہ یہ سارا بیان حقیقت احوال کے لئے تھا اگر میں نے سیاسی کالم لکھنا ہوتا تو اس واقعہ کی تمام ضرور ی جزئیات بھی بیان کرتا، مثلاً یہ کہ ایسے مواقع پر کیسے کیسے ”شرفاء“ اپنے اصل روپ میں سامنے آجاتے ہیں ۔ جس قصائی کا میں نے ذکر کیا ہے وہ جب بے زبان بکروں کے خون سے لتھڑے ہوئے کپڑوں میں ملبوس کلہاڑی اور چھری سے مسلح حالت میں میرے سامنے آیا تھا اسے دیکھ کر بکرے سے زیادہ میں پریشان ہوگیا کیونکہ یہ غلام رسول تھا جو بڑا اچھا معمار ہے اور ہمارے سامنے والا گھر اس نے بنایا تھا مگر یہ عید کے روز بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے ہاتھ میں چھری پکڑے گلی گلی گھوم رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وحشت تھی، اس کے ہاتھ ایک بکرے کو ذبح کرتے تھے اور اس کی آنکھیں دوسرے بکرے کو تلاش کرتی تھیں لیکن یہی غلام رسول کل ایک بار پھر ایک معزز معمار کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہوگا، وہ چھری پر پڑے دھبے صاف کردے گا، خون آلود قمیض کی جگہ اجلے کپڑے پہنے گا اور کسی مکان کی تعمیر میں مشغول نظر آئے گا۔
بہرحال اب تو صورتحال یہ ہے کہ بستی کے مکانوں سے نکل کر گلیوں میں بہتا ہوا خون گٹروں میں بہہ چکا ہے، فرش دھو دئیے گئے ہیں اور خون کے دھبے کپڑوں اور چھریوں پر سے صاف کردئیے گئے ہیں۔ ہماری تاریخ بھی اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ قصائی آتے ہیں، مار دھاڑ کرکے چلے جاتے ہیں اور بکروں کی مائیں روتی چلاتی رہ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام متعلقین جن میں قصائی، قصائی کو بلانے والے اور ان بکروں کا گوشت کھانے والے شامل ہیں سب کو صبر جمیل عطاء کرے۔