کیا عجوہ کھجور اب بھی اصلی ہے یا آرٹیفیشل پیداوار ہے؟

June 15, 2018

عجوہ کھجور کے بارے میں سوال

سوال: کیا نبی اکرمﷺ کے دست مبارک کی لگائی گئی بغیر گٹھلی کی کھجور کی نسل کھجورلگنے کے سوسال بعد ختم ہوگئی، سعودیہ کے ایک کھجور فروش نے بتایا کہ ایک درخت سو سال کے بعد پھل نہیں دیتا،اب جو کھجور بغیرگٹھلی کی ہے ، وہ سعودیہ کے لوگوں کی اپنی آرٹیفیشل پیداوار ہے؟کیا یہ درست ہے؟( مریم ،لالہ موسیٰ )

جواب: علماء لکھتے ہیں کہ عجوہ کھجور کا درخت رسول اللہ ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے لگایاتھا ،تاہم اس کا حوالہ کہیں سے دستیاب نہ ہوسکا۔حدیث پاک میں ہے : ترجمہ:’’حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ تمر کی تمام قسموں میں محبوب ترین رسول اللہ ﷺ کے نزدیک عجوہ تھی،(فیض القدیر:502)‘‘۔آپ نے سوال میں جس کھجور کے بارے میں لکھا ،اُس کی تفصیل کہیں موجود نہیں ،عموماً قلمی یا تخمی ہوتے ہیں اورقلمی وتخمی دونوں طرح کے پھل جائز ہیں ۔ عجوہ کھجور میں گٹھلی ہوتی ہے ،جس کے متعلق حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:حضرت سعد ؓفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شدید بیمار ہوا ، آپ ﷺ میری عیادت کے لئے تشریف لائے اور آپ ﷺنے اپنا دست مبارک میرے سینے پر رکھا یہاں تک کہ میں نے اپنے قلب میں آپ ﷺکے دست مبارک کی خنکی (ٹھنڈک)محسوس کی،اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:تم کو عارضۂ قلب کی شکایت ہے، جاؤ حارث بن کلدہ کے پاس جاکر اپنا علاج کراؤ جو بنو ثقیف کا بھائی ہے اور وہ طبیب ہے۔ پس اسے چاہیے کہ مدینہ طیبہ کی سات کھجوریں لے کر اور انہیں ان کی گٹھلیوں سمیت پیس لے اور ان کا مالیدہ سا بناکر تمہارے منہ میں ڈالے،(سُنن ابو داؤد:3869)‘‘۔مُحدثین نے اس کی شرح میں لکھاہے کہ آپ ﷺ نے دواتجویز کرنے کے لیے باوجود طبیب کے پاس اس لیے بھیجا کہ طبیب اپنے تجربے اور پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے دواکی مقدار تجویز کرسکتاہے ۔

ماہرینِ زراعت کے مطابق کھجور کے درخت کی عمر 150سال تک ہے ۔درخت اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے بعد ختم ہوسکتاہے لیکن مختلف اقسام کے اعتبار سے ان کی نسل بالکل معدوم ہوجائے ،یہ مشکل ہے ۔

ترجمہ:’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عالیہ کی عجوہ کھجوروں میں شفاء ہے اور وہ زہر وغیرہ کے لئے تریاق کی خاصیت رکھتی ہیں جبکہ اسے دن کے ابتدائی حصہ میں (یعنی نہار منہ) کھایا جائے،(صحیح مسلم:2048)‘‘۔

مدینہ منورہ کے اطراف قبا کی جانب جو علاقہ بلندی پر واقع ہے، وہ عالیہ یا عوالی کہلاتا ہے، اسی مناسبت سے ان اطراف میں جتنے گاؤں اور دیہات ہیں، اُن سب کو عالیہ یا عوالی کہتے ہیں۔ اسی سمت میں نجد کا علاقہ ہے اور اس کے مقابل سمت میں جو علاقہ ہے، وہ نشیبی ہے اور اسے سافلہ کہا جاتا ہے، اس سمت میں تہامہ کا علاقہ ہے ۔اس زمانے میں عالیہ یا عوالی کا سب سے نزدیک والا گاؤں مدینہ سے تین یا چار میل اور سب سے دور والا گاؤں سات یا آٹھ میل کے فاصلے پر واقع تھا۔’’عالیہ کی عجوہ میں شفا ہے ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ دوسری جگہوں کی عجوہ کھجوروں کی بہ نسبت عالیہ کی عجوہ کھجوروں میں زیادہ شفا ہے یا اس سے گزشتہ حدیث کے مطلق مفہوم کی تقیید مراد ہے یعنی پچھلی حدیث میں مطلق عجوہ کھجور کی جو تاثیر وخاصیت بیان کی گئی ہے، اسے اس حدیث کے ذریعہ واضح فرمادیا گیا ہے کہ مذکورہ تاثیر وخاصیت عالیہ کی عجوہ کھجوروں میں ہوتی ہے۔

ترجمہ:’’ جس نے صبح سات کھجور عجوہ کھائیں ،اُسے زہر یا جادو سے کوئی شے نقصان نہیں پہنچائے گی ،(سُن ابو داؤد:3870)‘‘۔

عجوہ جنت کی کھجور ہے:ترجمہ:’’حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :عجوہ جنت کی کھجوروں میں سے ہے اور اس میں زہر سے شفاء ہے اور کمأۃ (کھنبی)مَن (کی ایک قسم)ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفاء ہے،(سُنن ترمذی: 2066)‘‘۔

یہ بات کسی صحیح روایت یا حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک سے لگائے ہوئے کھجور کے درخت اب تک موجود ہوں، البتہ یہ ممکن ہے کہ قلم یا گٹھلیوں کے ذریعے ان کی قسمیں آگے چل رہی ہوں، واللہ اعلم بالصواب۔

آج کل پوری دنیا میں تخمی بیجوں اور درختوں کی قلمیں لگانے کی بابت تجربات ہوتے رہتے ہیں اور پھل کی کوالٹی کو بہتر بنانے اور مقدار کی افزائش کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ہمارے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک سے لگی کھجور کے درختوں کا پھل گٹھلی کے بغیر تھا ،یہ ساری موضوع روایات ہیں،ان کی کوئی اصل نہیں ہے ۔اگر مصنوعی طریقے سے بغیر گٹھلی کی کھجوریں پیداکی جارہی ہوں ،تواس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے ۔