ادب پارے: اختر شیرانی

July 18, 2018

مشہورمحقق، حافظ محمود شیرانی، حیدرآباد دکن گئے، ایک تقریب میںایک صاحب نے اُن سے کہا: ’’شیرانی صاحب! آپ کی ایک نظم مجھے بہت پسند ہے۔‘‘

’’کون سی نظم بھائی!....‘‘ مولانا نے استفسار کیا۔

وہی، جس کا مصرعہ ہے۔ ’’بسی کی لڑکیوں میں بدنام ہورہا ہوں۔‘‘

مولانا نے ٹھنڈی سانس بھری اور بولے: ’’یہ نظم میری نہیں، میرے نالائق بیٹے اختر شیرانی کی ہے، وہ تو محض بدنام ہورہا ہے، میں اس کے کرتوت سے رسوا ہورہا ہوں۔‘‘

..............

اختر شیرانی اور مجاز، علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر گھوم رہے تھے۔ اُن کی نظر سکینڈ کلاس کے ایک کمپارٹمنٹ پر پڑی، جہاں دو لڑکیاںترکی برقعے اوڑھے بیٹھی تھیں۔ ایک لڑکی نے دوسری سے کہا:’’وہ دیکھو! اختر شیرانی!‘‘

اختر نے مجاز سے کہا:’’بھاگ اور ٹکٹ خرید کر لا!‘‘

ابھی یہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچے تھے کہ گاڑی چل پڑی۔ اختر کے ہاتھ کوئی کمپارٹمنٹ تو نہیں آیا، گارڈ کا ڈبا آگیا۔ جب اختر گارڈ کے ڈبے میں داخل ہونے لگے تو گارڈ نے روکا۔ اختر نے گارڈ کو ڈانٹ کر کہا:

"Shut up, it is a matter of love and Romance."

’’خاموش! یہ محبت اور رومان کا معاملہ ہے۔‘‘

..............

اختر شیرانی، لاہور کی ایک دکان میںجوتے خریدنے پہنچے، دکان دار نے اُن کے سامنے جوتوں کا ڈھیر لگادیا۔ اختر شیرانی نے ایک جوڑا دیکھا، مگر کوئی جوڑا پسند نہیں آیا۔ قیمتوں پر بھی انہیں اعتراض تھا، دکان دار طنزیہ لہجے میں بولا:

ـ’’اتنے جوتے پڑے ہیں، آپ اب بھی مطمئن نہیںہوئے؟‘‘

اختر شیرانی ایک جوڑا پہنتے ہوئے بولے:

’’بارہ روپے لیتے ہو یا اتار وں جوتا؟‘‘

..............

لاہور کا ذکر ہے، ایک بار اختر شیرانی، جوش ملیح آبادی کے ساتھ موٹر میں بیٹھے مال روڈ سے گزر رہے تھے، حرماں نصیب، حرماں خیر آبادی بھی ساتھ تھے کہ اختر شیرانی نے فٹ پاتھ اور سواریوں سے گزرتی ہوئی عورتوں کو دیکھ دیکھ کر ’’ہائے مار ڈالا‘‘ کے نعرے لگانا شروع کردئیے۔ ہر شخص انہیںعجیب نگاہوں سے دیکھنے لگے، جوش نے موٹر رکوائی اور بھاگ کھڑے ہوئے۔