ادبِ عالیہ اور انسانی شعور

August 22, 2018

سید ریاض حسین زیدی

جب جذبے کی آنچ، احساس کے حلقے، سوچ کی لکیر اور تخّیل کی پرواز کو فنی عظمت سے ہم کناری نصیب ہوتی ہے تو ادبِ عالیہ کی تخلیق سے انسانی شعور میںبالیدگی جنم لیتی ہے، فکری تسلسل کو جلا نصیب ہوتی ہے اور دل کی دھڑکن میںحسن و رعنائی کے عناصر، جاگزیں ہوجاتے ہیں۔ ادب ذہن کی پاکیزگی اور جذبے کی نفاست سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ جب سوچ کے وسیع سمندر میں جوار بھاٹا پیدا ہوتا ہے، جب جذبے کی آنچ شعلے کا روپ دھارتی ہے اور جب فکری کی رفعتیں، آسمان کی وسعتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہیں تو ادب کا لافانی حسن منصۂ شہود پر ابھرتا ہے۔ ادب کی معراج سے دلوں کی کشادگی اور ذہنوں کو وسعت کی لازوال دولت نصیب ہوتی ہے۔

اچھا ادیب، احساسِ شکست سے ناآشنا ہوتا ہے، وہ زندگی کے بے ڈھب، بد وضع اور غلط رویوں سے سمجھوتا نہیںکرتا، وہ خیر کا داعی اور ہنروری کا مداح ہوتا ہے۔ وہ بہتری کی تخلیق اور برائیوں کی تکذیب پر کاربند رہتا ہے۔ انصاف کا پرچم بلند رکھنا، اس کا نصب العین ہوتا ہے۔ حق اور سچائی کی دائمی رفاقت، اس کا توشۂ آخرت ہے۔ غلط کاری سے ذہنی ہم آہنگی ایک اعلیٰ ادیب اور حساس تخلیق کار کے کبھی شایانِ شان نہیںرہی۔ جب کبھی حقائق کا منہ چڑایا جاتا ہے، ناحق کو ’’طرۂ فضلیت‘‘ پہنایا جاتا ہے اور ناانصافی اور تشکیک کو ’’روحِ عصر‘‘ قرار دیا جاتا ہے، جب لایعنیات کو سر آنکھوں پر بٹھانے کا چلن عام ہوتا ہے، سچا ادیب اس رواج کی خبر لیتا ہے اور اسے ہر اعتبار سے بے وقعت قرار دینے کی عملی تدابیر اختیار کرتا ہے، یعنی خود بے معنی اور تشکیک آمیز ادب تخلیق نہیں کرتا۔

اس کے اندر کا انسان جاگتا رہتا ہے اور اس کا قلم، ضمیر کی پاکیزگیوںکو آشکار کرنے اور غلط کاریوںکو سرنگوں کرنے کے لیے جہد مسلسل کرتا ہے۔ ہر دور نے اعلیٰ ادیبوں کو جنم دیا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ ضمیر کی کسک اور فکر کی خلش، کبھی موت سے ہم آغوش نہیں ہوتے، جو لوگ ضمیر کی چبھن اور فکر کی آب داری سے مجروح ہوجائیں، وہ اور تو سب کچھ ہوسکتے ہیں، ادیب اور فن کار نہیں ہوسکتے، جن لوگوں کا ادب سے والہانہ لگاؤ ہوتا ہے، وہ راست باز ہوتے ہیں، ان کے افکار میںکوئی جھول نہیںہوتا، وہ طمع اور حرض کی چمک سے اپنی آنکھوںکو خیرہ نہیںہونے دیتے۔ ملکی سالمیت پر ان کا ایمان کسی شک و شبے سے بالا ہوتا ہے۔ مملکت کی نظریاتی اساس، ان کا محور فکر و نظر رہتی ہے۔ وہ مصلحت کے نخچیر نہیںبنتے۔ زمانہ سازی ان کا ذہنی سرمایہ اور قلبی سکون غارت نہیںکرتی۔ وہ کردار کی پختگی کے جاوداںنقوش، جریدۂ عالم پر ثبت کرتے ہیں۔ فکر آمیز متانت اور خیال افروز جذبے کی ضوفشانی اُن کا مقصد ہوتا ہے۔ کسی بیرونی شکست و ریخت سے ہم نوائی، ان کو راس نہیں آتی، کیوںکہ وہ سلامت روی کو متاع فکر و نظر بناتے ہیں اور شرافت سے ناتا جوڑتے ہیں۔ توازن، اعتدال، میانہ روی اور وضع داری کے اوصافِ حمیدہ اُن کے ذہنی و قلبی خدوخال کو نکھارتے ہیں۔ قلم کا دھنی، کسی منفی اکھاڑ پچھاڑ میںحصہ دار نہیں بنتا۔ گروہ بندی میںاپنے آپ کو نہیں جکڑتا، منافرت کی گفتگو میں اپنی زبان کو آلودہ نہیں ہونے دیتا۔ وہ توڑ پھوڑ پر نفرین بھیجتا ہے، وہ اول و آخر دیانت، احساس اور شرافت فکر و نظر کا پاس دار ہوتا ہے اور ان سے دست برداری کا خیال کرنا بھی اپنی توہین گردانتا ہے، جن لوگوںنے قلم کی آبرو کو تاخت و تاراج کیا ہے اور زمانے کی غلط کاریوں سے سمجھوتہ کرنے میںعافیت سمجھی ہے، وہ قلم کاروںکے قافلۂ سخت جان کے کبھی ارکان نہیںرہے۔ وہ اصل میںغلط کاریوں کی اونچی دکان کے بیوپاری ہیں، جن کا تقدیسِ قلم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔

ہمیں ایسے ادب کی ضرورت ہے، جو لکھنے والوں اور پڑھنے والوںکو باضمیر بنائے۔ حقائق کی پرکھ اور سچائی کی پہچان کا سلیقہ عطا کرے، نیکی کا خوگر بنائے اور فساد و نظر کی بجائے، طمانیت قلب و جگر کے جوہر سے مالا مال کرے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ادب، سچائی سے تعلقِ خاطر جوڑنے اور اس کو اوڑھنا بچھونا بنانے سے ہی معرض وجود میں آسکتا ہے۔ ہم جس آفاقی اور بین الاقوامی ادب کے بلند بانگ نعرے سنتے رہتے ہیں اور جن عالمی انسانی تحریروں کی آوازیں ہمارے کان میںپڑتی رہتی ہیں، ان کا وجود سچائی سے مکمل اور غیر مشروط ہم آہنگی کا مرہونِ منت ہے۔ ہمیں ادب کو مفروضوں اور نام نہاد بیرونی چمک دمک سے محفوظ رکھنا ہے۔ نظم ہو یا نثر، ہر ذریعۂ ابلاغ یہ طرۂ امتیاز اپنے سر پر سجائے رکھے کہ اس سے اقدارِ خیر کی ترویج ہو، اعلیٰ ترین اخلاقی رویوں کی پرورش و پرداخت ہو، لیکن ایسا ادب محض تبلیغ کا خشک اور بے روح گورکھ دھندہ بھی نہ بن جائے۔ ضرورت ہے کہ ہماری قلم کاری کسی مثبت نصب العین کی غماز ہو۔ محض لفظوںکے طومار باندھنا اور مدعا سے برأتِ کلی اختیار کرنا، ادب کی قلم رو سے کوسوں دُور بسنے کے مترادف ہے، لہٰذا ایسا ادب تخلیق ہونا چاہیے، جو ہمیں سچائی، اخلاص اور دروں بینی کا خوگر بنائے۔