اپوزیشن کی حالت

September 07, 2018

عام انتخابات کے نتائج کی وجہ سے بھرپور تاثر ابھرا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں خصوصاً نون لیگ، پیپلزپارٹی اور متحدہ مجلس عمل مل کر ایک بہت بڑی حزب اختلاف کی فورس بن گئی ہے اور یہ عمران خان حکومت کو کافی ٹف ٹائم دیتی رہے گی۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ جمہوریت کیلئے بہت اچھا تھا کیونکہ مضبوط اپوزیشن حکومت وقت کو بہت سے غیر جمہوری اور غیر ضروری کاموں سے روک سکتی ہے۔ تاہم چند ہفتوں میں ہی اپوزیشن کے متحد ہونے کا خیال دھڑام سے گر کر پارہ پارہ ہوگیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی علیحدہ علیحدہ پالیسیاں ہیں۔ امکان یہی ہے کہ آئندہ بھی یہ اسی روش پر چلتی رہیں گی اور حکومت مزے سے بغیر کسی طاقتور اپوزیشن کے بہت سے کام اپنی مرضی سے کرتی رہے گی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد کو برباد کرنے میں پیپلزپارٹی کا کردار سب سے زیادہ اور واضح ہے۔ ہمیں علم ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی دختر پہلے ہی جیل میں ہیں اور یقیناً دبائو میں ہیں مگر اس کے باوجود ان کی حکمت عملی میں کوئی زیادہ ’’ڈنٹ‘‘ نہیں پڑا۔ سابق صدر آصف زرداری ابھی تک تو جیل سے باہر ہیں مگر وہ اور ان کی بہن محترمہ فریال تالپور سخت ترین دبائو میں ہیں کہ وہ کسی صورت بھی نون لیگ اور دوسری اپوزیشن جماعتوںکے ساتھ مل کر بڑی حزب اختلاف نہ بنائیں۔ اس بارے میں خصوصاً ایف آئی اے کی تحقیقات ہیں جو کہ جعلی بینک اکائونٹوں کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں جاری ہیں جن میں دوسروں کے علاوہ آصف زرداری اور فریال تالپور کے نام نمایاں ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لیا ہوا ہے اور اب تو اس نے پانامہ اسٹائل پر جے آئی ٹی بنانے کا حکم بھی دے دیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آصف زرداری پر دبائو کتنا شدید ہے کہ وہ نون لیگ سے دور ہی رہیں۔ اگر اس جے آئی ٹی نے بھی پانامہ ٹیم کی طرح ہی کام کیا تو آصف زرداری کا بچنا ناممکن ہوگا۔ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ پانامہ جے آئی ٹی کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی ۔ اگر اب نون لیگ بھی ایسا ہی کرے تو پیپلزپارٹی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ عام انتخابات کے بعد اور کچھ عرصہ پہلے ان بینک اکائونٹوں کے بارے میں تحقیقات نے بہت زور پکڑا اور آصف زرداری کے کئی ساتھی خصوصاً ارب پتی انور مجید اور ان کے بیٹے گرفتار بھی کیے گئے ہیں۔ یہ دبائو تو اپنی جگہ ہے مگر انتخابات کے نتیجے میں سندھ حکومت کا پیپلزپارٹی کو ملنا بھی اپوزیشن اتحاد میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ آصف زرداری کو تو بہرحال الیکشن میں سے وہ کچھ مل گیا ہے جس کی انہیں شدید خواہش تھی۔ ہاں اگر سندھ حکومت بھی ان کے ہاتھ نہ آتی تو پھر ان کی اپوزیشن اتحاد کے بارے میں پالیسی وہ نہیں ہونی تھی جو کہ ابھی ہے چاہے دبائو جتنا مرضی ہوتا۔ سندھ حکومت پیپلزپارٹی کے پاس ہوتے ہوئے آصف زرداری کیلئے بہت بڑی ’’کنسولیشن‘‘ ہے اور اس طرح وہ اس حکومتی نظام میں ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہیں۔

وزیراعظم کے الیکشن میں پیپلزپارٹی شہبازشریف کو سپورٹ نہ کرکے بودی دلیلیں دیتی رہی کہ وہ نون لیگ کے کسی بھی امیدوار کی حمایت کیلئے تیار ہے مگر وہ شہبازشریف کو ووٹ نہیں دیگی حالانکہ اپوزیشن الائنس کی بات چیت کے دوران اس نے ہی شہبازشریف کو بطور وزیراعظم امیدوار نامزد کرنے پر زور دیا تھا۔ یقیناً شہبازشریف اور آصف زرداری کے درمیان تلخیاں ابھی بھی اسی طرح ہی ہیں جس طرح کے پہلے تھیں جس کی وجہ نون لیگ کے صدر کے ماضی میں دیے گئے بیانات ہیں تاہم اگر ایسے بیانات کی بات کی جائے تو پیپلزپارٹی بھی نوازشریف اور شہبازشریف کو اٹیک کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہی یہاں تک کہ سابق وزیراعظم کو مودی کا یار بھی کہتی رہی۔ وزیراعظم کے انتخاب میں اپوزیشن کا ’’اتحاد‘‘ بکھر گیا۔ رہی سہی کسر صدارتی الیکشن میں نکل گئی جب پیپلزپارٹی نے اعتزاز احسن اور نون لیگ اور دوسری اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کو اپنے اپنے امیدوار نامزد کر دیا۔ اگر ساری اپوزیشنیں جماعتیں اکٹھی بھی ہوتیں تو یہ الیکشن نہیں جیت سکتی تھیں مگر پھر بھی اس کے ایک ہونے کی وجہ سے اپوزیشن میں اتحادکا ایک بڑا بھرپور پیغام جاتا۔ باوجود اس کے کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی پالیسیوں کی وجہ سے اپوزیشن ایک مذاق بن گئی ہے مگر آنے والے دنوں میں پارلیمان کے اندر یہ مختلف اہم امور پر ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا مل کر چلتی رہیں گی۔ جب حکومت کوئی اہم قانون سازی کرے گی جس کی یہ دونوں جماعتیں مخالف ہوں گی تو پھر ان کے درمیان اتحاد قائم ہو جائے گا مگر یہ ’’ایشو ٹو ایشو بیسسز‘‘ پر ہوگا۔ پیپلزپارٹی کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں میں مکمل طور پر ’’آئیسولیٹ‘‘ ہوگئی ہے جس کا مظاہرہ صدر اور وزیراعظم کے الیکشن میں ہوا۔ ایک طرف تھی پیپلزپارٹی اکیلے کھڑی اور دوسری طرف تھیں نون لیگ، متحدہ مجلس عمل خصوصاً جمعیت علماء اسلام (ف)، نیشنل پارٹی ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی۔

عام انتخابات کے گہرے زخموں کی وجہ سے ان اپوزیشن جماعتوں کا غصہ اور فرسٹریشن اور نون لیگ پیپلزپارٹی کے درمیان اختلافات اپنی جگہ مگر یہ تمام فورسز حکومت کو ٹائم دینا چاہتی ہیں کہ عمران خان جو پچھلے کئی سالوں سے بڑے بڑے دعوے اور اعلانات کرتے رہے ہیں اب ان پر عمل کر کے دکھائیں۔ عمران خان ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ ان کے پاس کئی سو پروفیشنلز موجود ہیں جو کہ ان کی حکومت بنتے ہی ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے ایکشن میں آ جائیں گے تاہم وزیراعظم بننے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ وہ تو حکومت کیلئے تیار ہی نہیں تھے ایک کے بعد دوسری ٹاسک فورس بنائی جارہی ہے تاکہ مختلف شعبوں کے بارے میں سفارشات مرتب کی جائیں۔ لگ یوں رہا ہے کہ جیسے انہوں نے زیرو سے کام شروع کیا ہے اور پہلے کسی قسم کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ ایجنڈا ہمالیہ کے پہاڑ جتنا ہے مگر صلاحیت نظر نہیں آرہی۔ ابھی تک حکومت کا جو بھی مذاق بنا ہے یہ اپوزیشن جماعتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ حزب اختلاف نے تو ان حماقتوں کو بہت بڑا ایشو ہی نہیں بنایا۔ بجائے اس کے کہ حکومت کچھ ڈپٹی کمشنروں کی طرف سے کی جانیوالی سیاسی مداخلت کی شکایت پر متعلقہ ممبران اسمبلی کی سرزنش کرتی اس نے الٹا ان سرکاری افسروں کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ اپنے تمام ممبران کو بتائیں کہ یہ نیا پاکستان ہے اور پرانے پاکستان والی باتیں اب نہیں چل سکتیں اب میرٹ اور شفافیت کا راج ہے۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان اتحاد کا فقدان اپنی جگہ مگر حکومت کی طرف سے کوئی ایسا ’’انیشی ایٹو‘‘ نظر نہیں آرہا جو یہ ظاہر کرے کہ وہ ان بڑی جماعتوں کو مختلف گھمبیر قومی مسائل پر ’’آن بورڈ‘‘ لینا چاہتی ہے۔ حزب اختلاف کی موجودہ حالت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر حکومت اس وقت اسے اپروچ کر لے تو بہتر ہے ورنہ کل کو اگر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اتحاد ہوگیا تو پھر مشکل ہو جائیگی۔