بنگلا دیش: حسینہ واجد مشکل میں ہیں ؟

September 19, 2018

بنگلا دیش میں چند دنوں قبل دس یوم پر محیط طلبا کی جانب سے کیے گئے ہنگاموں پر ریاستی طاقت کے زور پر قابر پا لیا گیا۔ لیکن خیال یہ ہے کہ یہ اشتعال اس حد تک بنگلا دیش کے معاشرے میں اس وقت بھی موجود ہے اور وہ دوبارہ بہت جلد کسی بھی وقت آتش فشاں کی مانند پھٹ سکتا ہے۔ ان مظاہروں کا آغازاس بے چینی سے ہوا جو دو نوجوان طلبا کی بس کے حادثے میں ہلاک ہونےسے پیدا ہوئی تھی۔ دیا اور کریم ڈھاکا ایئر پورٹ کے نزدیک بس اسٹینڈ پر اپنی بسوں کا انتظار کر رہے تھے کہ دو تیز رفتار بسیں ریس لگاتے ہوئے آئیں اور ان میں سے ایک بے قابو ہو کر بس اسٹینڈ میں بس کا انتظار کرتے طلبا پر چڑھ دوڑی ۔ دو طلبا موقعےپر ہی جان کی بازی ہار گئے اور کچھ زخمی ہو گئے۔ بعض طلبا اس الم ناک واقعے میں شدید زخمی بھی ہو ئے۔ طلبا میں اس واقعے کے بعد اضطراب بڑھنا شروع ہوا اور انہوں نے ٹرانسپورٹ کے ناقص نظام اور سڑکوں کی حالت زار کو اس کا ذمے دار قرار دے دیا۔

حسینہ واجد کی حکومت برسوں سے یہ راگ الاپ رہی ہے کہ وہ بنگلا دیش میں بہت خوش حالی لے آئی ہے۔ اب یہ نعرہ وہاں کی نوجوان نسل کے لیے ذہنی تشدد کا باعث بن چکا ہے۔ اس اضطراب کو بس ایک چنگاری کی ضرورت تھی جواس حادثے نے فراہم کر دی۔ حادثے کے ایک ماہ بعد طلبا پورے ملک میں سڑکوں پر آ گئے ، بڑے پیمانے پر حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئےاور حکومتی نظام لڑ کھڑانے لگا۔ بنگلا دیش میں یہ عام انتخابات کا سال ہے۔2014 کے عام انتخابات کا حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا اور عوامی لیگ تن تنہا ہی انتخابات میں اتری تھی۔ مگر اس دفعہ بی این پی انتخابات کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں مظاہروں کی وجہ سے برسر اقتدار جماعت کے لوگوں کے ہاتھ پائوں پھول جاناقابل فہم بات ہے۔ ان مظاہروں کی جہاں سیاسی وجوہات تھیں وہیں نہایت مضبوط معاشی وجوہات بھی ہیں۔ عوامی لیگ کی حکومت بہت شدو مد سے دعویٰ کرتی ہے کہ وہ بنگلا دیش کی معیشت کو دوبارہ درست ٹریک پرلے آئی ہے۔ اس سال ملک کے جی ڈی پی کی شرح نموساڑھے سات فی صد رہی ، مگر عوام اس صورت حال سے بہت تیزی سے نالاں ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی ایک تہائی تعداد ملازمتوں سے محروم ہے اورباقی میںسے بھی اکثریت کو ملازمتیں ان کی قابلیت اور ضرورت سے کم اجرت پر مہیا کی جاتی ہیں۔ خواتین اور کم اجرت پر کام کرنے والے افراد کے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام ایسی اقتصادی ترقی سے بے زار ہو رہے ہیںجس میں یا تو ملازمتوں کا قحط ہےیا ان ملازمتوں سے حاصل ہونے والی آمدن اتنی محدودہے جس سے ضروریات زندگی پوری نہیں ہوسکتیں۔ اقتصادی ترقی کے اشاریوںکے باوجود عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے والی خدمات میں سرمایہ کاری عوامی خواہشات کے برعکس ہے۔ ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کا بہتر نظام عوام کی بنیادی ضروریات میں شامل ہو تا ہے۔ مگر ان کی حالت عوامی لیگ کی حکومت کے دونوں ادوار میں بد سے بدترین ہوتی چلی جا رہی ہے۔

ان حالات کے سبب اب بنگلا دیش کی نوجوان نسل کے ہاتھوںسے صبر کا دامن چھوٹا جا رہا ہے۔ 2006 میں فوجی اقتدار اعلیٰ کے ساتھ سویلین کے شراکت اقتدار کےکیے گئے تجربے کے بعد 2009میں حسینہ واجد اقتدار میں آگئیں اور وہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی حسینہ واجد نے سیاسی عدم برداشت کی نئی مثال قائم کی۔ انہیںبھارت کی کھلم کھلا مدد حاصل ہے اور وہ اس مدد کے سہارے تیسری بار اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہیں جس کے لیے انتخابات کو مینیج کرنے کی کوشش کر رہی ہیںجسے ہماری عوامی زبان میں دھاندلی سے تعبیر کیا جاتاہے۔ اس وقت بنگلا دیش میں یہ تاثر بہت سرعت سے عوامی حلقوں میں پھیل رہا ہے کہ حسینہ واجد، خالدہ ضیاء کو زہردے کر یا کسی اور طرح سے جیل میں قتل کروانا چاہتی ہیں۔یہ تصور مزید اشتعال کا باعث بن رہا ہے۔ کیوں کہ حسینہ واجد کا ٹریک ریکارڈسیاسی مخالفین کو مروادینےکا ہے۔ اس لیےاس تصور میں بہت جان ہے۔ 2010 سے اب تک صرف بی این پی کے 500 کارکنان پولیس سے تصادم میں ہلاک کرائے جا چکے ہیں اور519 افراد کو غائب کر دیا گیا تھا جن میں سے 300 کے متعلق کچھ علم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا تاریک راہوں میں مار دیے گئے۔

ذرایع ابلاغ پر اتنا دبائوہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم معروف کارکن، فوٹو گرافر شاہد العالم کو اس لیے گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ الجزیرہ ٹی وی کو حالیہ ہنگاموں کی خبریں اور تصاویر ارسال کر رہے تھے۔ بنگلا دیش میں انتخابات 31 اکتوبر سے دسمبر کے درمیان کسی وقت منعقد ہوں گے، مگر اب عوامی لیگ کی جانب سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ امن و امان کی صورت حال کو بنیاد بنا کر عام انتخابات کو غیر معینہ مدت تک کےلیے ملتوی یا کچھ وقت کےلیے ٹالنے کا فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔ لیکن رائے عامہ اب اس عمل کو برداشت کرنے کے لیے بالکل تیار نظر نہیں آتی۔ ان حالات میں 2006کے اواخر کی مانند فوجی مداخلت کا امکان بڑھ گیا ہے۔ اس وقت بھی فوجی مداخلت کا یہی جواز تراشا گیا تھا کہ عام انتخابات کے انعقاد کی صورت میں خون خرابے کا اندیشہ ہے۔بنگلا دیش کی صورت حال پر نظر رکھنے والوں کے مطابق ملک میں اب تک فوجی مداخلت اس لیے نہیں ہوئی ہے کہ امریکافوجی کے بجائے قومی حکومت قائم کرنے کے حق میں ہے اور اس نےفوج کو دبائو میں رکھنے کی غرض سے انڈیا پیسیفک کمانڈ کو بنگلا دیش کے اتنا قریب کر دیا ہے کہ وہ صرف ایک گھنٹے کے نوٹس پر ملک کی حدود میں داخل ہوسکتی ہے۔ بات بالکل واضح ہے کہ صاف شفاف انتخابات نہ ہونے کی صورت میں صرف داخلی نظم و نسق ہی تباہ نہیں ہوتا بلکہ بین الاقوامی سرحدیں بھی خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔اس میں ہمارے لیے بھی سبق ہے۔