افغان، بھارت تجارت بہ ذریعہ پاکستان

September 19, 2018

افغانستان میں امریکا کے سفیر جان باس نے گزشتہ دنوں جب یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان نے زمینی راستے سے افغانستان اور بھارت کے درمیان تجارت بحال کرنے کے لیے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے تو ایسا محسوس ہواکہ شاید اب فریقین کی رضامندی سے یہ خطہ کابل سے کولکتہ تک زمینی تجارت کے لیے کھل جائے گا۔ مگر سولہ ستمبر کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کی تردید کردی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایسی کوئی رضامندی ظاہر نہیں کی ہے۔

دراصل یہ قصہ اس وقت شروع ہوا جب امریکی سفیر نے ایک بھارتی اخبار کو انٹرویو دیا جس میں انکشاف کیا کہ حکومت پاکستان نے چند ماہ قبل افغانستان اور بھارت کے درمیان تجارت کےلیے زمینی راستہ کھولنے کے لیے مذاکرات کا عندیہ دیاتھا۔ یہ مسئلہ اس خطے میں باہمی تجارت کے فروغ کےلیے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے کیوں کہ افغانستان ، امریکا ، بھارت، سب کی خواہش ہے کہ یہ زمینی راستہ جلد از جلد کھولا جائے۔تاہم پاکستان کا موقف ہے کہ زمینی راستہ کھولنےسے پہلے بہت سے دیگرتیکنیکی اور اسٹرٹیجک مسائل حل ہونے چاہییں اور اس سے قبل ٹرانزٹ ٹریڈ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اس وقت امریکا،افغان،بھارت زمینی تجارت کھولنے میں بہت دل چسپی ظاہر کررہاہے، مگر اس دل چسپی کا اندازہ اس بات سےلگایا جاسکتا ہے کہ امریکا نے 1989ء میں سوویت فوجوںکے انخلا کے وقت امریکی سفارت خانے کو کابل میں بند کردیا تھا، کیوں کہ ایک طرف تو سوویت یونین کو امریکا سے نکالنے کا مقصد پورا ہورہا تھا اور دوسری طرف افغانستان میں مزید لڑائی کا اندیشہ تھا۔ اس لیے امریکا نے 1989ء میں اپنا سفارت خانہ بند کردیاتھا۔ اسی طرح ہم نے دیکھا کہ جب سوویت فوجوں نے افغانستان میں دس سال قیام کے بعد 1989ء میں کابل خالی کیا تو افغان مجاہدین نے ڈاکٹر نجیب اللہ کی سیکولر حکومت کے خلاف کارروائیاں مزید تیز کردی تھیںکیوں کہ انہیں سوویت یونین کی مدد حاصل نہیں رہی تھی۔دوسری جانب افغانستان کے مجاہدین میں شامل گل بدین حکمت یار ، احمد شاہ مسعود، عبدالرشید دوستم، جلال الدین حقانی، پروفیسر برہان الدین ربانی، عبدالرب رسول سیاف اور دیگر کو نہ صرف امریکابلکہ پاکستان ، سعودی عرب اور مصر وغیرہ کی بھرپور مدد حاصل رہی۔

ایسے میں 1990ء کا عشرہ افغان مجاہدین کی باہمی لڑائی کی نذر ہوا تو امریکا بہادر افغانستان میں اپنا سفارت خانہ بند کرکے رفوچکر ہو چکا تھا۔اب امریکا کو کوئی دل چسپی نہیں تھی کہ افغانستان میںامن بحال ہو یا تعمیر وترقی کا کوئی اور کام ہو۔ جب افغان مجاہدین باہم دست و گریباں ہو تے ہوتے تھک گئے تو طالبان 1996ء میں کابل پر قابض ہوگئے۔ گو کہ طالبان کی افغانستان پر حکومت پانچ سال رہی لیکن اس دوران دنیا بھر کے دوسو ممالک میں سے صرف دو ممالک یعنی پاکستان اور سعودی عرب نے ان کی حکومت کو جائز اور قانونی حکومت تسلیم کیا تھا۔

پھر جب 2001ء میں امریکا پر حملوں کے بعد امریکا اور اتحادی فوجوں نے افغانستان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا تو 2002ء میں کابل میں امریکی سفارت خانہ دوبارہ کھولا گیا اور پچھلے سولہ برس میں بارہ امریکی سفیر کابل میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس طرح اوسطاً ہر امریکی سفیر صرف ایک یا ڈیڑھ سال وہاں رہا۔موجودہ امریکی سفیرجان باس کو اس عہدے پر ایک سال بھی نہیں ہوا ہے۔وہ اس سے قبل تین سال تک ترکی اوراتنے عرصے تک کوہ قاف کے ملک جارجیا میں سفیررہ چکے ہیں ۔ ترکی میں ان کی سفارت کے دوران 2017ء میں امریکا اور ترکی کے تعلقات کشیدہ رہے اور اکتوبر 2017ء میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے جان باس کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھاجس کے بعد صدر ٹرمپ نے انہیں افغانستان میں سفیر مقرر کیا ۔

افغانستان میں سفیر بننے کے بعد جان باس نے دعوے کیے ہیں کہ وہ اس خطے میں امن کی بحالی چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں زمینی تجارت کے راستے کھلوانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے، کیوں کہ اس سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ وسطی ایشیاکےساتھ بھی تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔اس بات میں بڑی حد تک صداقت ہے کیوں کہ آج کے دور میں تجارت باہمی تعلقات کی بہتری کا اہم ذریعہ ہے اور نہ صرف امریکا بلکہ چین اور روس بھی اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ وسطی ایشیا سے جنوبی ایشیاتک زمینی راستے کھولنے کی ضرورت ہے۔

چین کے نئے منصوبوں میں درجنوں ممالک کو باہمی طور پر تجارت کے لیے منسلک کرنا اہم ترجیح رہی ہےاور چین نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کوباہمی تعلقات بہتر کرنے چاہییں۔ مگر اس میں امریکا، بھارت، افغانستان، ایران اور حتیٰ کہ سعودی عرب بھی اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہےہیں۔ امریکا کا جھکائو بھارت کی طرف ہے اور وہ بھارت کو چین کے مقابلے میںبڑی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ افغانستان کو پاکستان سے زیادہ بھارت عزیز ہے اور اس کی ٹھوس وجوہ بھی ہیں کیوں کہ بھارت وہاں بڑی سرمایہ کاری کررہا ہے۔دوسری جانب پاکستان کو دنیا ایسا ملک سمجھتی ہے جو دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے اور علاقے میں نقص امن کا باعث ہے۔ اب جب امریکی سفیر نے یہ بیان دیا توبھارت کے سابق سیکریٹری خارجہ سلمان حیدر نے بھی کہا کہ حالات میں بہتری کے اشارے تو مل رہے ہیں مگر ان سے کوئی بڑی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ اس دوران پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان نے بھی بھارت سے تعلقات میں بہتری پر زور دیا، مگر مزید کسی پیش رفت کا امکان نہیں نظر آرہا۔ وزیراعظم کو اس بارے میں ذاتی دل چسپی لینی چاہیے ۔گو کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جان باس کی بات کی تردید کردی ہے، لیکن اس اہم مسئلے کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے۔بہ ہرحال پاکستان کو اس خطے میں رہنا ہے اور افغانستان و ایران کے علاوہ بھارت سے بہتر تعلقات رکھنے ہیں۔

ہم نے ستّر برسوں میں پڑوسیوںسے تعلقات کشیدہ رکھ کر کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔ پہلے صرف امریکا پر بھروسہ کیا ،اس کی ایما پر جنگیں بھی لڑتے رہے اور اپنے ملک کو میدان جنگ بنادیا۔اب ہمارا انحصار مکمل طور پر چین اور سعودی عرب پرہے۔ ہم افغانستان ، ایران اور بھارت کو نظرانداز کرتے رہے ہیں۔ہم نے افغان مجاہدین کی تقریباً چالیس سال تک مدد تو کی، مگر ساتھ ہی افغان دھرتی کی تباہی میں بھی اپنا کردار ادا کیا جس کی قیادت جنرل ضیاء الحق اور جنرل حمید گل کرتے رہے۔گو کہ 1980ء اور نوّے کےعشروں میں بار بار تجزیہ نگاروں نے اس طرف توجہ دلائی کہ پہلے افغان مجاہدین اور پھر افغان طالبان کی مدد کرنےسے خودپاکستان پر بہت منفی اثرات مرتب ہوںگے، مگر ہمارے کرتا دھرتا کچھ سننے کوتیار نہیں تھے۔ جیسا کہ ا س وقت کیا جارہا ہے، یعنی مسلسل زمینی تجارت کو دیگر مسائل، جیسے مسئلہ کشمیر وغیرہ سے جوڑا جاتاہے جو بالکل درست نہیں ہےاور باہمی تعاون کے لیے ہمیں کہیں سے تو آغاز کرنا ہوگا۔

حال ہی میں ایک امید اس وقت پیدا ہوئی تھی جب پاکستان کے نئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ پاکستانی فوج اور حکومت دونوں ہی خطے میں امن کے لیےبھارت سے مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ یہاں فوج اور حکومت دونوں کے رضامند ہونےسےیہ تاثرملتاہے کہ شاید دونوں الگ ہیں۔ دراصل پڑوسیوں سے تعلقات میں بہتری کا فیصلہ حکومتوں کو کرنا ہوتا ہے نہ کہ افواج کو۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے خطے میں چاہے وہ افغانستان ہو،ایران، بھارت ہو یا پاکستان سیاسی حکومتیں فیصلے کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتی ہیں اور دفاتر خارجہ خود اپنے اختیارات افواج کو منتقل کردیتے ہیں یا ان کے یہ اختیارات لے لیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں خطے کے ممالک مسلسل کشیدگی کا شکار رہتے ہیں۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خطے میں امن ہی سے اس علاقے کےممالک اپنے عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار کے بہتر مواقعے فراہم کرسکتے ہیں۔ بھارت کے سابق وزیراعظم، آں جہانی اٹل بہاری واجپائی نے اس خطے میں ایٹمی دوڑ شروع کرکے امن کو شدید نقصان پہنچایا۔ پاکستان اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کوطویل عرصہ گزر چکاہے، مگر ایٹمی ہتھیار بڑھتے جارہے ہیں اور تجارت کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ایسے میں پاکستان کو سنجیدگی سے زمینی تجارت کو فروغ دینے پر غور کرنا چاہیے تاکہ پڑوسیوں کو سہولت ہو اور پاکستان کے بارے میں منفی تاثرات ختم ہوں۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ صرف بعض ممالک پر الزام دھر کر خارجہ پالیسی آگے نہیں بڑھائ جاسکتی۔پاکستان اور دیگر تمام ممالک کا مفاد اسی میںہے کہ جلد از جلد زمینی تجارت کے لیےمذاکرات شروع کر کے اس عمل کا آغاز کیا جائے اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے مواقعے سے فائدہ اٹھایا جائے۔