پی اے سی کی سربراہی کا استحقاق؟

October 01, 2018

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا فرما نا ہے کہ اپنا حتساب خود کرو اس سے پہلے کہ کوئی اور آپ کا احتساب شروع کردے اور اپنے اقدامات کا جائزہ آپ لو اس سے پہلے کہ کوئی اور آپ کے اقدامات پر باز پرس شروع کر دے۔ یہ فرمان انہی عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے جنہوں نے حقیقی فلاحی ریاست کے قیام کے لئے گورننس کا ایسا بہترین نظام وضع کیا جو آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یورپ میں ’’عمر لاء‘‘ کے نام سے نافذ ہے۔ خود احتسابی بڑا دل گردے کا کام ہے خود کو کٹہرے میں کھڑا کرنا آسان کام نہیں ہے انفرادی اور اجتماعی غلطیاں ہی ہیں جو بلاخر احتساب کے نظام کو جنم دیتی ہیں۔ وطن عزیز میں احتساب کے لئے کئی ادارے کام کر رہے ہیں جن میں سپریم ادارے یعنی قومی احتساب بیورو کی طرف سے گزشتہ کچھ عرصے سے جس نوعیت کا احتساب جاری ہے اس کے متعلق تو ملک کی سپریم عدالت کے چیف جسٹس جو کچھ فرما چکے ہیں اس کے بعد توکچھ لکھنے کی جسارت زیب ہی نہیں دیتی۔ ان سطور میں احتساب کے اس ادارے کا ذکر کرتا ہوں جو کہ پارلیمانی نظام کے تحت حکومت اور اس کے اداروں کی کارکردگی میں شفافیت کی جانچ پڑتال کے لئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے نام سے کام کرتا ہے۔ اس ادارے کا قیام 1948 میں پہلی بارعمل میں آیا تھا اور اب تک 14 پبلک اکاؤنٹس کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی ہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا بنیادی کام وفاقی وزارتوں، ڈویژنوں، کارپوریشنوں ، خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کے حسابات کے متعلق آڈیٹر جنرل کی رپورٹوں کا جائزہ لے کر ان اداروں میں ہونیو الی مبینہ بد عنوانیوں ، بے ضابطگیوں اور بد انتظامیوں کی نشان دہی کرنا ، قومی خزانے کو پہنچائے گئے نقصان کی تلافی ممکن بنانا اور سفارشات کے ذیعے خرابیوں کو دور کرکے نظام میں شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔

پاکستان میں زیادہ عرصہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر خزانہ ہی رہے ہیں تاہم 80 کی دہائی سے اس کی سربراہی مقتدر حکومت کے کسی رکن قومی اسمبلی کے سپرد کی جاتی رہی تاہم یہ ادارہ قابل ذکر فعالیت کا مظاہرہ نہ کر سکا۔ آمریت کا نشانہ بننے والی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہان بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے میثاق جمہوریت کے نام سےمستقبل کے جس روڈ میپ پہ دستخط کئے اس میں یہ بھی اتفاق کیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کودی جائے گی۔ اسی معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی اس وقت کے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان کو دی۔ خود احتسابی کی نئی روایت ڈالتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ ہم نے اپنی داڑھی اپوزیشن کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ چوہدری نثار نے بطور چیئرمین پی اے سی اپنے عہدے کا حق ادا کرتے ہوئے ثابت کر دیا کہ پارلیمانی نظام کے تحت بھی حکومت کا مؤثر احتساب ممکن ہے۔ بطور چئیرمین چوہدری نثار نے جہاں قلیل مدت میں سالہا سال سے گرد آلود آڈٹ رپورٹوں کو پی اے سی میں نمٹانے کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا وہیں ڈھائی سال میں 115 ارب روپے کی وصولی ممکن بنا کر یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرائی۔ اسی پی اے سی نے حج کرپشن، رینٹل پاور پلانٹس اور پلاٹوں کی الاٹمنٹ جیسے اسکینڈلز نیب کو بھیجے۔ اسی دوران پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے آڈیٹر جنرل کے اہم عہدے پر بلند اختر رانا کی تقرری اور پی اے سی کے کام میں رکاوٹیں پیدا کرنے پر چوہدری نثار نے نومبر 2011 میں چئیرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے عہدے سے استعفی دے دیا۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے باقی عرصے کے لئے اپنے ہی رکن قومی اسمبلی ندیم افضل چن کو چئیرمین پی اے سی مقرر کر کے جہاں میثاق جمہوریت کی نفی کی وہاں اپنی ہی حکومت کے دور کا آڈٹ بھی مؤثر نہ رہ سکا۔ 2013 میں پاکستان مسلم لیگ ن نے حکومت سنبھالی تو اس نے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو چئیرمین پی اے سی مقرر کر کے میثاق جمہوریت کو ایک بار پھر زندہ کر دیا۔ بطور چئیرمین پی اے سی خورشید شاہ کے دور میں بھی یہ پلیٹ فارم ایک بار پھر فعالیت کے ساتھ کام کرتا رہا ، اس دور میں مسلم لیگ ن کے دور حکومت کی آڈٹ رپورٹوں کے جائزے سمیت نیو اسلام آباد ائرپورٹ کی تعمیر میں تاخیر اور سرکاری افسران کی طرف سے گاڑیوں کے غیر قانونی استعمال جیسے اہم معاملات کی اسکروٹنی کی گئی تھی۔ تئیس رکنی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں جنوری 2017 تک صرف قومی اسمبلی کے ارکان شامل ہوتے تھے تاہم سینیٹرز کے مطالبے پر سینیٹ اور قومی اسمبلی کے قواعد میں تبدیلی کر کے ہمسایہ ملک بھارت کی طرز پر پی اے سی میں سینیٹرز کو بھی نمائندگی دے دی گئی۔ اب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں 6سینیٹرز کا اضافہ ہونے کے بعد چیئرمین سمیت ارکان کی تعداد 29ہو چکی ہے جبکہ وفاقی وزیرخزانہ بلحاظ عہدہ اس کے رکن ہیں۔ قومی اسمبلی کے قواعد کے تحت نئی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو وہیں سے کام شروع کرنا ہے جہاں سے گزشتہ پی اے سی نے چھوڑا تھا۔ روایت کے تحت نئی پی اے سی کی چیئرمین شپ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا استحقاق ہے جس کے لئے اپوزیشن نے اسپیکر کو درخواست بھی دے رکھی ہے تاہم وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پی اے سی کی سربراہی اپوزیشن کو دینا ایسے ہی ہے جیسے لومڑی کو مرغیوں کے ڈربے کی یا بلے کو دوددھ کی رکھوالی سونپ دی جائے۔ اسپیکر اسد قیصر نے گزشتہ ہفتے جنگ گروپ کو انٹرویو میں خود تصدیق کی تھی کہ پی اے سی کی چیئرمین شپ اپوزیشن کوہی دی جائے گی تاہم اب یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی مقرر کرنے سے انکار کر دیا ہے جس پر اپوزیشن کی طرف سے پی اے سی کا بائیکاٹ کرنے جیسا سخت رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ حکومت کو ادراک ہونا چاہئے کہ پی اے سی نے مالی سال 17-2016 کی آڈٹ رپورٹوں کے جائزے سے کام شروع کرنا ہے جس کے بعد اسے موجودہ حکومت کے دور کا ہی احتساب کرنا ہے اس لئےاگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر سکتی ہیں تو تحریک انصاف کو بھی اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔ پی اے سی میں حکومت کی بھی بھرپور نمائندگی موجود ہوتی ہے اس لئے اپوزیشن لیڈر کمیٹی ارکان کی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی آڈٹ پیرا اپنے طور پر نہیں نمٹا سکتے۔ حکومت کوئی نیا تنازع پیدا کرنے کی بجائے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن کو دے کرجہاں خود احتسابی پر عمل کرنے کا یقین دلا سکتی ہے وہیں یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ سیاست دان بھی اپنے نظام کے اندر رہ کر ایک دوسرے کا احتساب کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔