برتر یا بدتر

December 07, 2012

جہاں کہیں بھی کھانے پینے کے ریسٹورنٹ ہوتے ہیں اس کے اردگرد بھکاری بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں وہ ہر آنے جانے والے کے کپڑے کھینچ کر بھیک مانگتے ہیں یا گاڑی میں ہی بیٹھ کر کھانے والوں کو بھی بھیک دینے پر اصرار کرتے رہتے ہیں۔ اپنے گاہگوں کی اس مصیبت کو کم کرنے کیلئے ان ریسٹورنٹس اور کھانے پینے کے اسٹالز کے مالکان نے بعض جگہ ڈنڈا بردار سیکورٹی اہلکار رکھے ہوتے ہیں جو ان بھکاریوں کو بھگاتے رہتے ہیں۔ان بھکاریوں اور ڈنڈا بردار سیکورٹی اہلکاروں کی آنکھ مچولی لگی رہتی ہے۔ چند روز قبل مجھے اسلام آباد کے تجارتی مرکز بلیو ایریا میں پلاؤ کے حوالے سے مشہور آؤٹ لیٹ پر جانے کا اتفاق ہوا میں نے دیکھا کہ ایک سیکورٹی اہلکار ایک دس بارہ سالہ لڑکے کو اندرجانے سے روک رہا تھا۔ لڑکا شکل سے بھکاری معلوم ہوتا تھا اس نے بوسیدہ لباس پہن رکھا تھا لیکن لڑکے نے سرخ رنگ کی شرٹ اور پھر اس کے کالرز کھڑے کرکے ایک خاص اسٹائل بنا رکھا تھا بلکہ اپنے لمبے لمبے بالوں کو بھی بڑے انداز سے سنوار رکھا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ لڑکا فلمیں دیکھنے کا بہت شوقین ہے اور اس نے اپنا اسٹائل بھی کسی ہیرو کی طرح بنا رکھا تھا اور گفتگو بھی کسی اسٹریٹ ڈان کی طرح کر رہا تھا۔ سیکورٹی اہلکار نے اسے دھکیلتے ہوئے کہا کہ بھاگ جاؤ لیکن لڑکا شاید اس صورتحال کیلئے تیار نہ تھا وہ تن کر کھڑا رہا اور کہنے لگا میرے پاس پیسے ہیں اور میں اپنے پیسوں کا پلاؤ لے کر کھاؤں گا۔ سیکورٹی اہلکار کو لڑکے کی اس بات پر قطعی یقین نہ تھا۔اس لئے اس نے لڑکے کو دوبارہ دھتکارتے ہوئے کہاکہ چلو بھاگو بڑا آیا پیسے والا۔”کول نہیں دھیلا تے کردی میلہ میلہ“(پاس پیسے نہیں اور میلے کا شوق رکھتا ہے) لڑکا شاید اس بے عزتی کیلئے تیار نہ تھا۔ اس نے اپنی پینٹ کی پچھلی جیب میں ہاتھ ڈالا اور سو سو روپے کے کڑکتے ہوئے آٹھ دس نوٹ نکال کر سیکورٹی اہلکار کے سامنے لہرا دیئے۔اس صورتحال سے میرے سوا کوئی دلچسپی نہیں لے رہا تھا اور مجھے اس لڑکے کا اسٹائل بہت اچھا لگ رہا تھا اور ان دونوں کی نوک جھونک سے بڑا لطف اندوز ہورہا تھا اور مجھے یقین تھا کہ یہ لڑکا اس پلاؤ کے مرکز کے اندر ضرور داخل ہوگا لیکن مجھے اس وقت سخت دھچکا لگا جب کڑکتے نوٹ دکھانے بدتر باوجود سیکورٹی اہلکار نے اس کو اندر جانے سے روک دیا۔ وہ لڑکا کچھ دیر جسم اکڑائے اور بازو پھیلا کے وہاں کھڑا رہا اور بغیر پلکیں چھپکائے وہ سیکورٹی اہلکار کو ٹک دیکھنے لگا کچھ دیر بعد وہ ہلکے ہلکے قدم اٹھاتا ہوا وہاں سے جانے لگا۔ میں بھی لڑکے کے پیچھے ہو لیا۔ لڑکا پلاؤ مرکز کی دوسری طرف چل پڑا اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ ایک فیملی کی اوٹ لیکر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا وہ ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ جب پاس سے ویٹرز نے کئی مرتبہ گزرنے کے باوجود اس کو لفٹ نہ کرائی تو اس نے کھڑے ہوکر ایک ویٹر کو آرڈردیا۔ ویٹر نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور کچھ دیر بعد اس کے سامنے پلاؤ کی پلیٹ رکھ دی میں نے دیکھا کہ لڑکا پلاؤ کھاتے ہوئے اس کوشش میں تھا کہ اسے وہ سیکورٹی گارڈ پلاؤ کھاتا ہوا دیکھ لے لیکن لگتا تھا کہ سیکورٹی اہلکار کے اندر دیکھنے پر پاپندی ہے لڑکے نے منٹوں میں پلیٹ چٹ کی اور پھر وہ پلیٹ سے ٹیبل پر گرے ہوئے چاول اکٹھا کرکے کھانے لگا اس نے بل ادا کیا اور اسی دروازے سے باہر نکلا جس دروازے پر سیکورٹی اہلکار کھڑا تھا۔ سیکورٹی اہلکار نے اس لڑکے کو دیکھا تو ایسے پھدکا جیسے وہ لڑکا اندر کوئی بم رکھ آیا ہو۔ لیکن لڑکا اس ساری صورتحال سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ سیکورٹی اہلکار کویہ معلوم ہو چکا تھا کہ لڑکا اسے جل دے کر نہ صرف اندر چلا گیا ہے بلکہ پیٹ کی آگ بھی بجھا آیا ہے لیکن سیکورٹی اہلکار کیلئے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ لڑکے کو نظر انداز کرے۔ لڑکا کچھ دیر کھڑا گھنگھورے مارتا رہا اور پھر وہاں سے چل دیا۔ کچھ آگے جاکر اس نے اپنی شرٹ کے نیچے سے کمر کے گرد لپٹا ایک کپڑا نکالا اور وہاں آنے والی گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے لگا اور یہ اس کا پیسہ کمانے کا انداز تھا، لیکن میں سوچنے لگا کہ یہ درست ہے کہ اس لڑکے کا لباس بھکاریوں کی طرح کم تر تھا۔ میں بھی شروع میں اس لڑکے کو بھکاری ہی سمجھ رہا تھا، لیکن وہ لڑکا گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے کی محنت کرتا تھا، لیکن سیکورٹی اہلکار جو قریب قریب اس کی کلاس کا بندہ تھا لیکن اس کی کوشش تھی کہ وہ اس غریب کو اس کے لباس کی وجہ سے اندر نہ جانے دے لیکن ایک خوش لباس شخص جو بڑی سی گاڑی میں آتا ہے تو اس کیلئے سیکورٹی والے فوراً ایک قدم پیچھے ہٹ کر اس کو پروٹوکول دیتے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اجلے کپڑوں کے مالک نے واقعی محنت سے پیسہ کمایا ہے یا کرپشن سے ان بھکاریوں کے انداز میں گھومنے والے لوگوں کے گوشت نوچ کر یہ بڑی بڑی کاریں اور اجلے لباس زیب تن کئے۔ سرکاری زمینوں پر قبضہ کرکے مال کمایا ہے۔ اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں اورشاہراؤں کی معیاری تعمیر کی بجائے بجری، ریت، سیمنٹ اور تارکول کو ناجائز طریقے سے بیچ کر اپنی شان و شوکت بنائی ہے یقیناً یہ پہچان کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن اگر میلے کچیلے کپڑوں والا کوئی لڑکا یا شخص بڑے شاپنگ پلازوں یا ریستورانوں میں داخل ہونا چاہتا ہے، وہ شاپنگ کرنا یا کھانا تناول کرنا چاہتا ہے تو سیکورٹی اہلکاروں کے ذریعے انہیں نہیں روکنا چاہئے۔