اَن کورنگ ایشیا 2018ء دنیا بھر کے تحقیقاتی صحافیوں کی بیٹھک

October 28, 2018

افتتاحی سیشن میں ’’گلوبل انویسٹی گیٹیو جرنلزم ‘‘کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، ڈیوڈ کیپلان، پاکستانی صحافی ظفر عباس اور ’’کوریا سینٹر فار انویسٹی گیٹیو جرنلزم ‘‘کی سربراہ ، ینگ جن کم اسٹیج پر بیٹھے ہیں

تحقیقاتی صحافت، کڑی جانچ پڑتال اور تفتیش کے ذریعے وہ حقائق اور اُن کے پس منظر اُجاگر کرنے کا فن ہے کہ جو عوام و خواص کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں ۔ نیز، حالات و واقعات کے پسِ پردہ موجود حقائق کی دریافت یا انکشافات کو صحافتی زبان میں ’’تحقیقاتی صحافت‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک تحقیقی یا تفتیشی صحافی حقائق کا پتا لگاتا اور خامیوں کی نشان دہی کرتا ہےاور اس مقصد کے لیےاسے بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ بعض اوقات کسی واقعے کی حقیقت تک پہنچنے میں کئی ماہ یا سال بھی لگ جاتے ہیں اور پھر اس ضمن میں راز داری کا عُنصر بھی ناگزیز سمجھا جاتا ہے۔ دُنیا بَھر میں تحقیقاتی صحافت کو ’’جان دار صحافت‘‘ تصوّر کیا جاتا ہے کہ بعض اوقات حقائق کی کھوج میں صحافی اپنی زندگی بھی دائو پر لگا دیتا ہے۔ چُوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرائم کی نوعیت تبدیل ہو رہی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے باعث منظّم جرائم پیشہ نیٹ ورکس نے باقاعدہ مافیا کی شکل اختیار کرلی ہے، لہٰذا جرائم کو بے نقاب کرنے اور مجرموں کی نشان دہی کے لیے صحافیوں کو جدید طرزِ تحقیق کی تربیت فراہم کرنا لازم ہو چُکا ہے۔ اِن دِنوں جرائم پیشہ افراد نِت نئے طریقوں سے کرپشن، مَنی لانڈرنگ،انسانی اسمگلنگ اور منشّیات فروشی سمیت دیگر گھنائونے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور یہ عناصر سرحدوں کی حدود و قیود سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ جرائم پیشہ افراد مختلف ممالک میں جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، جس سے ہونے والی آمدنی بھی مختلف ممالک میں بھجوائی جاتی ہے۔

کانفرنس کے شرکاء مباحثے میں مصروف ہیں

ان دِنوں دُنیا بَھر میں منشّیات فروشی اور انسانی اسمگلنگ کا دھندا عُروج پر ہے اور اسی تناظر میں گزشتہ دِنوں جنوبی کوریا کے دارالحکومت، سیئول میں ’’گلوبل انویسٹی گیٹیو جرنلزم نیٹ ورک‘‘ نے ’’کوریا سینٹر فار انویسٹی گیٹیو جرنلزم‘‘ اور ’’کانرڈ آڈینر اسٹیفٹنگ‘‘ ( کے اے ایس ) کے تعاون سےتحقیقاتی صحافیوں کی تیسری بڑی3روزہ کانفرنس کا ’’Uncovering Asia 2018‘‘کے عنوان سے انعقاد کیا،جو5سے7اکتوبر تک جاری رہی۔یہ کانفرنس ہر دو سال بعد منعقد ہوتی ہے اور پہلی کانفرنس فلپائن ، جب کہ دوسری نیپال میں منعقد ہوئی تھی۔ سیئول میں منعقدہ کانفرنس کا بنیادی مقصد صحافیوں کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنا تھا، تاکہ وہ موجودہ حالات کے مطابق اپنی صحافتی ذمّے داریوں سے بہ حُسن و خوبی نبرد آزما ہو سکیں۔ کانفرنس کے شرکاءکی تعداد 450تھی، جب کہ ایشیا کے 48ممالک سمیت دُنیا بَھر سے ایک سو مقرّرین کو اس لیے مدعو کیا گیا تھا کہ وہ صحافیوں کو اپنے تجربات سے آگاہ کریں اور جدید طرزِ تحقیق سے روشناس کروائیں۔ خیال رہے کہ دُنیا بَھر کے صحافیوں کی طرح ایشیاکے تحقیقاتی صحافیوں نے بھی عالمِ صحافت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔

کانفرنس کے میزبان و منتظم، ’’کوریا سینٹر فار انویسٹی گیٹیو جرنلزم‘‘ نے شرکاء اور مقرّرین کے لیے نقل و حمل اور قیام و طعام کے بہترین انتظامات کیے تھے۔ کانفرنس میں مختلف موضوعات پر 60نشستیں ہوئیں اور ایک وقت میں کم از کم 6سیشنز ہوئے، جن میں صحافیوں کی دِل چسپی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مختلف موضوعات کا انتخاب کیا گیا ۔ نیز، صحافیوں کو کسی بھی نشست میں شامل ہونے کی مکمل آزادی تھی اور یوں وہ ایک ہی روز میں مختلف موضوعات پر لیکچرز سُن سکتے تھے۔ کانفرنس کے آغاز سے قبل ایک پُر تکلّف عشائیے کا اہتمام کیا گیا، جب کہ 5اکتوبر کو کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ’’گلوبل انویسٹی گیٹیو جرنلزم نیٹ ورک‘‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، ڈیوڈ کیپلان کا کہنا تھا کہ ’’مختلف ممالک کے صحافیوں کے درمیان روابط سے تحقیقاتی صحافت کو فروغ ملا ، کیوں کہ جرائم کسی ایک شہر یا مُلک تک محدود نہیں، بلکہ ان کے تانے بانے مختلف ممالک سے ملتے ہیں۔ اب دُنیا بَھر کے تحقیقاتی صحافی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے میگا اسکینڈلز بے نقاب کر سکتے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال پاناما لیکس کی صُورت ہمارے سامنے ہے، جس میں کئی ممالک کے صحافیوں نے مل کر کام کیا۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’ گلوبل انویسٹی گیٹیو جرنلزم نیٹ ورک تحقیقاتی صحافیوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے پر آمادہ ہے، کیوں کہ ہمارا مقصد کرپشن، مَنی لانڈرنگ اور انسانی اسمگلنگ جیسے جرائم کا خاتمہ ہے۔‘‘ ’’کوریا سینٹر آف انویسٹی گیٹیو جرنلزم‘‘ کے سربراہ، ینگ جن کم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مَیں تمام صحافیوں کا ممنون ہوں کہ وہ یہاں تشریف لائے۔ کانفرنس کا بنیادی مقصد دُنیا بَھر کے تحقیقاتی صحافیوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا ہے، تاکہ وہ مل کر بڑے بڑے منصوبوں پر کام کر سکیں۔ مَیں تمام صحافیوں سے پُر زور درخواست کرتا ہوں کہ وہ صرف کانفرنس کے سیشنز تک ہی محدود نہ رہیں، بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مستحکم روابط قائم کرنے پر توجّہ دیں، تاکہ انہیں صحافتی امور کی انجام دہی کے دوران سرحدوں کی قدغن سے نجات مل سکے۔‘‘ کانفرنس میں پاکستان کے معروف انگریزی اخبار کے مدیر، ظفر عباس نے صحافیوں کو درپیش نِت نئے خطرات اور اُن پر قابو پانے کے طریقوں کے موضوع پر خطاب کیا۔ علاوہ ازیں، شرکاءنے عصرِ حاضر میں اپنے اپنے مُلک میں میڈیا کو درپیش خطرات پر سیر حاصل گفتگو بھی کی ۔

نام وَر صحافی ،عُمر چیمہ نے تحقیقاتی صحافیوں کو لاحق خطرات پر اظہارِ خیال کیا

کانفرنس کے مقرّرین اس بات پر متّفق تھے کہ آج میڈیا کو ریاستی و غیر ریاسی عناصر سے خطرات لاحق ہیں، جب کہ غیر صحافتی پسِ منظر کے حامل میڈیا ہائوسز کے مالکان اور اینکرز نے صحافت کا معیار گرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اینکرز کے غیرپیشہ ورانہ رویّوں، جُھوٹی خبروں اور افواہ سازی کی وجہ سے عوام کا اخبارات اور نیوز چینلز سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ مقرّرین کا یہ بھی ماننا تھا کہ اب حکومتوں کی جانب سے سینسر شپ عاید کرنے کا طریقۂ کار تبدیل ہو چُکا ہے۔ آج کل بڑے اور معتبر میڈیا ہائوسز کو غیر مؤثر کرنے کے لیے انہیں مالی طور پر کم زور کیا جا رہا ہے اور پُر اسرار انداز سے سرمایہ کاری کے ذریعے نِت نئے چینلز اور اخبارات متعارف کروائے جا رہے ہیں اور اس سرمائے کے ذرایع کے حوالے سے شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں۔ نیز، میڈیا ہائوسز کے درمیان جاری رسّا کشی بھی صحافت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، جس کے ذریعے انہیں کم زور کیا جا رہا ہے۔ مقرّرین نے اس اَمر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ان دِنوں میڈیا ہائوسز کو دبائو میں لانے کے لیے مقدّس ہستیوں اور ریاستی اداروں کی توہین سمیت مُلک سے غدّاری کے بے جا الزامات عاید کر کے مالکان اور صحافیوں کے خلاف جُھوٹے مقدّمات درج کروائے جا رہے ہیں اور آزادیٔ صحافت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔

کانفرنس کے پہلے روز مقرّرین نے کرپشن سمیت دیگر جرائم، سرحد پار صحافتی تعاون، کوریا میں قیامِ امن کے عمل،رپورٹرز کی جانب سے اپنے اور خبر کے ذرایع کے تحفّظ اور ڈیٹا جرنلزم پر سیر حاصل بحث کی۔ نیز، اسی روز کشیدگی کے دوران رپورٹنگ، ٹی وی اور ریڈیو کے لیے تحقیقاتی رپورٹنگ، اسمگلنگ، جنگی جرائم کی تحقیقاتی رپورٹنگ اور رپورٹس کے لیے متعلقہ ذرایع یا دستاویزات تک رسائی جیسے موضوعات پر بھی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے خالد خٹک نے ڈیٹا جرنلزم پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ واضح رہے کہ تحقیقاتی صحافت میں ڈیٹا کی کافی اہمیت ہے، جس کی بنیاد ہی پر مواد تیار کیا جاتا ہے اور یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ تحقیقاتی رپورٹنگ اور اعداد و شمار کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دوسرے روز مقرّرین نے شرکاء کو جعلی خبروں اور پروپیگنڈے، سرحد پار تحقیقاتی رپورٹنگ،ریڈیو کے لیے تحقیقاتی رپورٹنگ، خواتین رپورٹرزکے کردار، ایشیا سمیت دُنیا بَھر سے ڈیٹا کے حصول، ریاستی جبر وپُر تشدّد واقعات، ڈیجیٹل سیفٹی اور ویب اسکریننگ سے تفصیلاً آگاہ کیا، جب کہ جرائم پیشہ نیٹ ورکس کی رپورٹنگ، صحافیوں کو ہراساں کرنے اور دھمکانے اور صحت کے حوالے سے تحقیق سمیت سیاسی، عدالتی، سوشل میڈیا اور سرحد پار رپورٹنگ جیسے موضوعات پر مباحثے کا انعقاد بھی کیا گیا۔ کانفرنس کے تیسرے روز کاروباری جرائم، ٹیکس چوری سمیت بدعنوانی پر مشتمل دیگر سرگرمیوں، موبائل جرنلزم، نیوز روم کی بہتری کے لیے درکار سرگرمیوں، قانونی معاملات اور ڈیٹا بیس کے قیام جیسے موضوعات پر بحث کی گئی، جب کہ ’’ایشین انویسٹی گیٹیو جرنلزم نیٹ ورک‘‘ کے قیام سمیت دیگر امور پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ کانفرنس میں روزنامہ جنگ کے مشہور تحقیقاتی صحافی، عُمر چیمہ نے تحقیقاتی صحافیوں کو ملنے والی دھمکیوں اور ہراساں کرنے کے واقعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس موقعے پر شرکاء کو ٹیکس چوری اور بدعنوانی کے واقعات سے متعلق اپنے تجربات سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کرپشن اور ظلم و زیادتی سمیت دیگر جرائم پر مبنی اسکینڈلز طشت ازبام کرنے والے صحافی کو حقائق کی تلاش میں نہ صرف اپنی جان خطرے میں ڈالنا پڑتی ہے، بلکہ اُسے سخت مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کانفرنس میں تحقیقاتی رپورٹنگ کے لیے درکار صلاحیتوں پر بھی بحث کی گئی کہ تحقیقاتی صحافت ہر دَور میں اہمیت کی حامل رہی ہےاوراسی کی بنیاد پر حکومتیں اصلاحات کرتی ہیں۔ نیز، صحافت، حکومت اور عوام کے درمیان پُل کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ ایک صحافی عوامی مسائل کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومتی اقدامات کے لیے رائے عامّہ ہم وار اور عوام کو حالاتِ حاضرہ سے آگاہ کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کئی ممالک میں معلومات اور اعداد و شمار تک رسائی کے لیے ’’قانونِ حقِ اطلاعات‘‘ (رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ )نافذ ہے، جس کے ذریعے صحافی یا عام ان تک رسائی حاصل کرتا ہے اور اس کی بنیاد پر تحقیقی مواد جمع کر کے تحقیقاتی صحافت کو فروغ دیا جا تا ہے۔ اس سلسلے میں پوری دُنیا بالخصوص مغربی ممالک میں خُوب کام ہو رہا ہے اور اسے عوام و خواص پزیرائی بھی مل رہی ہے۔ اگر پاکستان میں بھی حقِ اطلاعات کو استعمال کرتے ہوئے تحقیقاتی صحافت کو فروغ دیا جائے، تو خاصے امید افزاء نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

کچھ سیئول کے بارے میں…

دوسری جنگِ عظیم کے 3برس بعد مئی 1948ءمیں جنوبی کوریا کو ’’جمہوریہ‘‘ قرار دیا گیا۔ خوب صُورت شہر، سیئول اس کا دارالحکومت قرار پایا اور سینگ من ری کو مملکت کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ جنوبی کوریا کا رقبہ 38,000مربّع میل ہے اور اس کی آبادی 5کروڑ 14لاکھ 6ہزار سے زاید نفوس پر مشتمل ہے۔ 5جولائی1950ء کو شمالی کوریا کی افواج نے جنوبی کوریا پر چڑھائی کی،تو جنگِ کوریا کا آغاز ہو گیا۔ اس دوران اقوامِ متّحدہ کے فوجی دستے امریکا کی زیرِ قیادت جنوبی کوریا کی مدد کو پہنچے۔ یہ جنگ3برس تک جاری رہی۔ یہ دُنیا کی پہلی جنگ تھی کہ جس میں اُس وقت کی دو عالمی طاقتیں، امریکا اور سوویت یونین بالواسطہ ملوّث تھیں۔ اس جنگ میں کم و بیش 3لاکھ افراد ہلاک ہوئے، جن میں 36,940امریکی بھی شامل تھے۔ 1953ءمیں جنگ بندی عمل میں آئی اور اس کے ساتھ ہی دونوں کوریائی ریاستیں ’’38عرضِ بلد‘‘ پر مستقلاً تقسیم ہو کر رہ گئیں۔ بعدازاں، دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے جُدا کرنے والی سرحد، 38th Parallel کو بارودی سُرنگوں اور خار دار تاروں کی تنصیب سے محفوظ بنانے کا اہتمام کیا گیا اور دونوں ریاستیں اقوامِ متّحدہ کی رُکن بن گئیں۔

کانفرنس کے شرکاء کا گروپ فوٹو

رفتہ رفتہ جنوبی کوریا میں سنگ من ری کی حکومت غیر مقبول ہوتی چلی گئی اور طلبہ نے اس کے خلاف زبردست تحریک چلائی، جس کے نتیجے میں 26اپریل 1960ءکو صدر کو مستعفی ہونا پڑا۔16مئی 1961ءکو فوجی بغاوت کے نتیجے میں جنرل پارک چنگ حُکم راں ٹولے کے چیئرمین بن گئے اور 1963ءمیں انہیں صدر منتخب کر لیا گیا۔ 1972ء میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں جنرل پارک چنگ کو غیر معیّنہ مُدّت تک کے لیے مُلک کا صدر بننے کا اختیار دے دیا گیا۔ 26اکتوبر 1979ء کو کورین سی آئی اے کے چیف نے جنرل پارک چنگ کو قتل کر دیا۔ مئی 1980ءمیں ملٹری انٹیلی جینس کے سربراہ، جنرل جن دوہواں نے پورے مُلک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور جمہوریت کے حق میں مظاہرہ کرنے والے عوام کو کوانگ جو میں طاقت کے ذریعے کُچل دیا۔

جولائی 1972ءمیں کوریا کے دونوں حصّوں کو پُر امن ذرایع سے متّحد کرنے کے لیے کوششوں کا فیصلہ کیا گیا، لیکن 1985ء تک اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ 1985ء میں دونوں ممالک کے مابین اقتصادی معاملات پر تبادلۂ خیال کا فیصلہ کیا گیا۔10جون 1987ء کو جنوبی کوریا میں مزدوروں، کارکنوں، دُکان داروں اور متوسّط طبقے سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد نے حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں طلبہ کا ساتھ دیتے ہوئے جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ نتیجتاً، یکم جولائی1987ء کو چن نے انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں دسمبر 1987ء میں روہ تائی وو جنوبی کوریا کے صدر منتخب ہوئے۔ 1990ءمیں مُلک کی 3بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک ہی جماعت میں ضم ہونے کا فیصلہ کیا، لیکن ایک لاکھ طلبہ نے اس اقدام کو غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔ 1993ءمیں کِم یونگ سام نے 1961ء کے بعد پہلی مرتبہ جمہوری صدر کے طور پر منصب سنبھالا۔ 26اگست 1996ء کو سیئول کی ایک عدالت نے جنرل چنگ کو بغاوت اور کرپشن کے الزام میں سزائے موت اور روہ تائی وو کو ڈھائی سال قید کی سزا سُنائی۔ 18دسمبر 1997ء کو کم وائے جنگ نے صدارتی انتخاب جیت لیا اور 22دسمبر 1997ءکو چن اور روہ کو معافی دے کر رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک جنوبی کوریا میں صدارتی نظام نافذ ہے اور اس وقت مون جایا اِن اس کے صدر، جب کہ لی ناک یون وزیرِ اعظم ہیں۔

کانفرنس کے دوران برما میں گرفتار صحافیوں کے حق میں احتجاج کیا جارہا ہے

سیئول، جنوبی کوریا کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ ایک کروڑ سے زاید آبادی کا حامل یہ شہر دُنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ نیز، یہ دُنیا کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے کہ جس میں جنوبی کوریا کی اہم بندر گاہ، انچیون اور گیونگی ڈو کے علاقے شامل ہیں کہ جہاں جنوبی کوریا کی نصف سے زاید آبادی مقیم ہے اور اس کی ایک چوتھائی آبادی دارالحکومت کی باسی ہے۔ سیئول، شمالی کوریا کی سرحد سے صرف 50کلو میٹر کے فاصلے پر، دریائے ہان کے طاس پر مُلک کے شمال مغربی حصّے میں واقع ہے۔ اہم مالیاتی و ثقافتی مرکز ہونے کی وجہ سے سیئول ایک عالمی شہر کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ 1988ء کے گرمائی اولمپکس اورفیفا ورلڈ کپ2002ء کی میزبانی کر چُکا ہے۔ 2007ء میں سیئول کو دُنیا کا تیسرا اور ایشیا کا سب سے مہنگا شہر قرار دیا گیا۔ اس شہر میں کوریائی باشندوں کے علاوہ چینی اور جاپانی باشندوں کی قلیل تعداد بھی رہائش پزیر ہے۔ ان دنوں سیئول میں تارکینِ وطن کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جو اِس وقت شہر کی کُل آبادی کا 2فی صد ہیں۔ جنوبی کوریا کے دارالحکومت میں جرائم کی شرح بہت کم ہے اور اس کا شمار ایشیا کے پُر امن ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ سیئول کے دو بڑے مذاہب ہیں، بودھ مَت اور مسیحیت۔ نیز، یہ دُنیا کے بڑے کاروباری اداروں کا مرکز بھی ہے، جن میں سام سنگ، ایل جی اور ہُنڈائی شامل ہیں۔ گرچہ سیئول مُلک کے صرف0.6فی صد رقبے پر پھیلا ہوا ہے، لیکن مجموعی قومی پیداوار میں اس کا حصّہ 21فی صد ہے۔ سیئول سرسبز اور پہاڑی علاقوں پر مشتمل ایک صاف سُتھرا شہر ہے، جہاں فلک بوس عمارتوں کی بھرمار ہے۔

ملائیشین کارٹونسٹ نے شرکاءکو ہنسنے پر مجبور کر دیا

’’اَن کورنگ ایشیا 2018ء ‘‘ کے دوران ایک موقعے پر ملائیشیا کے کارٹونسٹ، زوران نے شرکاءکو ہنسنے پر مجبور کر دیا۔ کانفرنس کے دوسرے روز جب زوران نے اسٹیج سنبھالا، تو ان کے دِل چسپ محاورے اور باتیں سُن کر شرکا ءلوٹ پوٹ ہو گئے۔ زوران کا اصل نام ذوالکفل ایس ایم انور الحق ہے اور وہ عرصۂ دراز سے اپنے کارٹونز کے ذریعے قارئین کو محظوظ کر رہے ہیں۔ وہ اپنے فن کے ذریعے کرپشن اور اشرافیہ کی مجرمانہ سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے میں مصروف ہیں اور اس کے بدلے انہیں کئی بار جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔ حال ہی میں انہیں 43سال قید کی سزا سُنائی گئی تھی اور وہ کچھ روز قبل ہی جیل سے رہا ہوئے تھے۔ زوران سابق ملائیشین وزیرِ اعظم، نجیب رزّاق کے دَور میں بھی جیل میں رہے۔ انہوں نے کانفرنس میں چٹکلے سُنانے کے علاوہ کچھ مفید باتیں بھی کیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’سچائی سامنے لانے کے بدلے قید و بند کی صعوبتیں جَھیلنا پڑتی ہیں، لیکن ان سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے۔ مَیں ایک کارٹونسٹ ہوں اور آپ صحافی ہیں۔مَیں کارٹون بنا کر حقائق بیان کرتا ہوں اور آپ اپنی تحریر سے سچائی سامنے لاتے ہیں۔ ہر چند کہ آزادیٔ اظہارِ رائے ہمارا بنیادی حق ہے، لیکن دُنیا بَھر میں کوئی بھی حکومت ہمارا یہ حق ہمیں آسانی سے دے سکتی ہے اور نہ دے گی ، لیکن ہمیں مقابلہ کرتے رہنا چاہیے۔ مَیں نے اپنے سیاسی کارٹونز کو عوامی کارٹونز میں تبدیل کر دیا ہے اور کاپی رائٹ کی پابندی بھی ختم کر دی ہے۔ سو، لوگ میری تخلیقات کو اپنا سمجھ کر استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘