سیاسی وسفارتی معاملات پر احتیاط کی ضرورت؟

October 27, 2018

سب سے پہلے تو اپنی اپوزیشن سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ برداشت سے کام لے اور فی الوقت نئی قائم ہونی والی حکومت کو گرانے کی تدابیر سے باز رہے۔حالیہ دنوں مولانا فضل الرحمٰن کی کاوشوں سے ن لیگ اور پی پی میں جو قربتیں بڑھی ہیں یہ اُسی کاشاخسانہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے شکوے شکایات کے باوجود نہ صرف ملاقات کا عندیہ دیا ہے بلکہ موجودہ حکومت کو نااہل قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اسے گرانے کے لئے متفقہ قرار داد کے ذریعے کاوشیں کی جائیںگی۔ آصف زرداری کے بقول موجودہ نااہل حکمرانوں سے ملک نہیں چلایا جا رہا۔شتابی میں کہی گئی یہ بات ہماری نظر میں نہ صرف یہ کہ قبل از وقت ہے بلکہ اس سے نہ ختم ہونے والی نئی محاذ آرائی شروع ہو سکتی ہے۔ سیاسی سوجھ بوجھ یا سمجھداری کا تقاضا یہی ہے کہ اپوزیشن اپنا دباؤ ضرور ڈالے رکھے لیکن انتہائی اقدام اٹھانے سے باز رہے۔نئی حکومت کو اپنی سمجھ کے مطابق کھل کھیلنے کا پورا موقع دیا جانا چاہیے۔

دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کی ہم تین پہلوؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں یہ اچھی روایت ہے کہ پچھلی حکومتوں کی طرح وہ سعودی عرب سے اچھا خاصا قرضہ اٹھا لانے میں کامیاب ہوئے ہیں تین سال تک تیل بھی ادھار یا قرض پر ملتا رہے گا۔ کچھ قرضہ چین، متحدہ عرب امارات اور دوسرے ممالک سے بھی مل جائے گا جو کمی رہ جائے گی وہ ہمارے متحرک وزیراعظم IMF سے پوری کروا لیں گے لیکن انہیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ سابقہ حکومتوں پر اُن کا بڑا اعتراض یہی رہا ہے کہ وہ ملک پر قرضے چڑھاتے رہے ہیں اب بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ خود آپ کیا کر رہے ہیں؟ اگرچہ اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر قرض لینا برائی نہیں مگر اُس کا غیر ترقیاتی یا غلط استعمال اصل خرابی ہے ۔

پوری قوم یہ جانتی اور مانتی ہے کہ ہم طاقت کے زور پر انڈیا سے کشمیر حاصل کرنے کی پوزیشن میں قطعی طور پر نہیں تو پھر ہمارے میڈیا نے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے کیوں لگا رکھا ہے ؟افغانستان ایک آزاد ،خود مختاراور ہمارا برادر ہمسایہ ملک ہے اب وہ بتدریج جمہوری مملکت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے ہمارے وزیراعظم کو اس نوع کے بیانات سے احتراز کرنا چاہیے کہ امریکا وہاں کسی نوع کی غیر منتخب عبوری حکومت قائم کرواتے ہوئے طالبان کو بھی اس حکومت میں حصہ دلوائے ۔افغانستان کا بھی ایک آئین اور سسٹم ہے ابھی تازہ تازہ وہاں انتخابات ہوئے ہیں ہمیں اُن کے قومی احساسات کا احترام کرنا چاہیے۔

اس کے برعکس آپ اپنی نشری تقریر میں ببانگِ دہل یہ کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کان کھول کر یہ سن لے کہ میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا جتنا چاہے شور مچالیں کسی کو NRO نہیں ملے گا جبکہ اپوزیشن یہ پوچھ رہی ہے کہ NROمانگا کس نے ہے ؟اس بحث سے علی الرغم درویش کی رائے میں کسی وزیراعظم کو اپنی اپوزیشن کے لئے اس نوع کا لب و لہجہ زیب نہیں دیتا ہے۔ وزیراعظم کے عہدے کا ایک وقار اور احترم ہے یہ کسی پارٹی کا نہیں قومی قیادت کا منصب ہے اور پھر ہمارا ایک سسٹم ہے اگر کوئی عام شہری، سیاستدان یا لیڈر کرپشن یا کوئی بھی غلط کام کرتا ہے تو ہمارے عدالتی و احتسابی ادارے موجود ہیں ۔رہ گئی بات NRO کی تو وہ بھی کسی وزیراعظم کے بس کی بات نہیں ہے ۔یہ تو انہی کا کام ہے جن کی ماورائی حیثیت کا پتہ سب کو ہے تابِ سخن کسی میں نہیں ۔

اپنے وزیراعظم کی جن تین باتوں کی طرف ہم توجہ دلانا چاہتے ہیں ان میں سے ایک تو یہی ہے کہ وہ کم از کم اس منصب پر بیٹھ کر اپنے لب و لہجہ میں نرمی اختیار فرمائیں۔ اپوزیشن کا بھی ایک وقار اور احترام ہوتا ہے وہ بھی عوامی ووٹ ہی کے ذریعے منتخب ہو کرایوانوں میں پہنچتی ہے ۔جمہوریت ہمیں برداشت اور حوصلہ سکھاتی ہے اسی طرح خارجی محاذ پر ڈپلومیسی یا سفارت کاری کے معاملات و امور جس حساسیت کا تقاضا کرتے ہیں وزیرا عظم عمران خان کو ان کا بھی پاس و لحاظ ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے ۔دوسروں کے بارے میں غیر سفارتی زبان کا استعمال پوری قوم کے لئے مضمرات لاتاہے جیسے کہ گزشتہ دنوں انڈیا کے بارے میں نظر آتی بہتری بد احتیاطی سےخرابی میں بدل گئی ،کچھ ایسی ہی صورتحال افغانستان کے حوالے سے بھی ہونے جا رہی ہے ۔ایک طرف وطنِ عزیز کے معاشی بحران کا اس قدر رونا رویا جاتاہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار ادھر کا رخ کرنے کے لئے سوچتے ہوئے بھی خوف کھائیں دوسرے دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہمارے نزدیک اخلاقی اقدار و معیارات کی کوئی اہمیت نہیں ہم تو بس مادہ پرست لوگ ہیں ۔

اس صورتحال میں ہمارے دانشور آپ کے سامنے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آپ نے یمن جنگ میں ثالثی کا جو مبینہ دعویٰ کیا ہے اس کی زمینی حقیقت کیا ہے ؟آپ قوم کو یہ ضرور بتا دیں کہ فریقین نے آپ کو اس حوالے سے کب کچھ کہا ہے ؟کسی ایک فریق نے بھی کہیں کوئی گفتگو یا پیشکش کی ہو تو بتائیں وگرنہ اس طرح آپ خود کو خارجی معاملات میں زیادہ متنازع بنا سکتے ہیں ۔دمشق میں آپ مغربی ممالک کو اپنے سفارت خانے لانے کا جو اعلان فرما رہے ہیں کیا آپ کو اس کا پس منظر معلوم ہے؟ کیا آپ ا س پر ہر دو اطراف کے موقف سے آگہی رکھتے ہیں ؟اسی طرح سی پیک کے حوالے سے پہلے یہ کہا گیا کہ سعودی عرب کو تیسرے پارٹنر کی حیثیت سے نہ صرف شامل کر لیا گیا ہے بلکہ چین کو بھی اس حوالے سے کوئی اعتراض نہیں ہے مابعد دو تین پینترے بدلے گئے۔کم از کم اس نوع کے معاملات پر طبع آزمائی سے پہلے ہوم ورک مکمل کر لینا چاہئے۔