لمحوں کی غلطیاں اور صدیوں کی سزا

December 21, 2012

تاریخ کے سفر پر نگاہ ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ صدی غلامی سے رہائی کی صدی تھی جس کے دوران تقریباً سبھی غلام ملکوں نے محکومی کی زنجیریں توڑ ڈالیں اور آزادی کے تاج پہن لئے۔ صدیوں کی غلامی کے بعد آزادی کے تقاضے نبھانا اور سیاسی کشتی کو کنارے تک لے جانا آسان نہیں ہوتا۔ قیادت بصیرت سے مالا مال اور مخلص ہو تو حکومتی حوالے سے ناتجربہ کاری کے باوجود قومی سفر بخریت طے ہو جاتا ہے ورنہ ایک کے بعد دوسرا بحران جنم لیتا ہے ۔ نہرو کی طویل سیاسی قیادت نے ہندوستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کر دیں جبکہ پاکستان میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے مغربی پاکستان کی نوکر شاہی کا غلبہ جو غلام محمد، چوہدری محمد علی، سکندر مرزا اور جنرل ایوب کے گٹھ جوڑ سے پیدا ہوا اور جس نے خواجہ ناظم الدین جیسے وزیراعظم کو ڈسمس کرنے کے بعد قانون و دستور ساز اسمبلی کا بوریا بستر لپیٹ دیا، بالآخر 1958 کے مارشل لا پر منتج ہوا اس گٹھ جوڑ نے بنگالیوں کو شدید احساس محرومی میں مبتلا کیا اور ان میں بغاوت کے جراثیم پرورش پانے لگے۔ جمہوریت کوئی آئیڈیل اور بہترین نظام حکومت نہیں لیکن جمہوریت کے ہوتے ہوئے صوبوں، علاقائی اکائیوں، لسانی، ثقافتی اور مذہبی گروہوں کو حکومتی ڈھانچے میں احساس شرکت حاصل رہتا ہے اور اس امید کی شمع روشن رہتی ہے کہ انہیں اقتدار میں حصہ ملے گا۔ جب جمہوریت کی شمع بجھا کر ایک مخصوص گروہ اقتدار پر اجارہ داری قائم کر لے تو امیدوں کے چراغ بجھ جاتے ہیں اور جنم لینے والی تاریکی میں بغاوت کی چنگاریاں سلگنے لگتی ہیں۔ پاکستان میں 1951ء سے لے کر 1971 تک بیورو کریسی کے راج نے اسی طرح کے گل کھلائے، جمہوریت کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر بنگالیوں کو کم تر ہونے کا احساس دلایا اور یہی احساس کمتری بالآخر بغاوت کا لاوا بن گیا، کیونکہ انیسویں صدی غلامی کی نہیں، آزادی کی صدی تھی۔ اولاد آدم کی تاریخ میں اتنی قومیں کبھی آزاد نہیں ہوئیں جتنی انیسویں صدی میں آزادی سے ہمکنار ہوئیں۔ یہ صدی غروب ہونے سے پہلے روس جیسی جابر، طاقتور اور خوفناک ریاست کو توڑ کر ریاستوں اور ملکوں میں تقسیم کر گئی اور ایران کو شاہ ایران کی آمریت و بادشاہت سے نجات دلا گئی۔ بیسویں یعنی موجودہ صدی نے ابھی صرف بارہ کروٹیں لی ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے موجودہ صدی، عالمی طاقتوں سے رہائی، قوموں کی برابری، انسانی حقوق اور معاشرتی جبر سے رہائی کی صدی ہے۔ جو زندہ رہیں گے اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ لوگ بادشاہتوں، آمریتوں، طبقاتی اقتدار غالب قوتوں اور معاشرتی بے انصافیوں کے خلاف جدوجہد کریں گے، قومیں قوموں کے تسلط کے خلاف بغاوت کریں گی اور اس صدی کے خاتمے تک اولاد آدم کے خواب خاصی حد تک شرمندہ تعبیر ہو چکے ہوں گے۔
متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تین بڑے مسلم لیڈر تھے۔ اول سر سید احمد خان، دوم علامہ اقبال اور سوم محمد علی جناح۔ باقی سب مقتدی اور سپاہی تھے۔ تینوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ہندو مسلم اتحاد سے کیا اور تینوں بے پناہ تلخ تجربات اور کانگریسی و ہندو ذہنیت کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندو ذہنیت کسی طور بھی مسلمانوں کو برابری کا درجہ دینے کیلئے تیار نہیں، کانگریس خالصتاً ہندو جماعت ہے، ہندوستان کی ہندو اکثریت مسلمانوں پر غلبہ چاہتی ہے اور غلبہ حاصل کرنے کے بعد ان سے شودر کا سا سلوک کرے گی۔ تینوں کو اپنے اپنے دور میں مسلمانوں کے منفرد اور الگ کلچر، معاشرتی اقدار، تاریخ اور الگ مذہب کا شدت سے احساس ہوا اور تینوں نے مسلمانوں کی بقاء کا راز علیحدگی میں مضمر پایا۔ جن حضرات کو صدیوں کے ان تجربات کے نچوڑ پر شبہ ہے، خود جا کر ہندوستان میں مسلمانوں کا حال اور حشر دیکھ لیں۔ سچ یہ ہے کہ ہندوستان کا ہر مسلمان ہندو جبر کا شکار ہے۔ پاکستان کا مسلمان جدوجہد کر کے جاگیرداری، صوبائی تسلط اور معاشرے کی غالب قوتوں سے رہائی حاصل کر سکتا ہے لیکن ہندوستان کا مسلمان قیامت تک ہندو جبر سے رہا نہیں ہو سکتا۔ مسلمان کو کانگریس صدر بنا دے یا وزیر خارجہ، اس کا لب و لہجہ، انداز و اطوار ہندو جبر کی چغلی کھاتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہندوؤں نے مسلمانوں سے کم تر سلوک کیا، کانگریس برابر بے انصافیاں اور وعدہ خلافیاں کرتی رہی۔ نتیجہ علیحدگی اور ہندوستان کی تقسیم نکلا۔ مغربی پاکستان کی قیادت اور مقتدر طبقات نے بنگالیوں کو کم تر جانا، مشرقی پاکستان سے زیادتیاں اور بے انصافیاں کیں نتیجہ بنگالیوں کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں ظاہر ہوا۔ عام شہری سے لے کر سیاسی لیڈروں تک ہمیں یہ بنیادی حقیقت اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ مشرقی پاکستان کیوں علیحدہ ہوا؟ اگر اس تاریخی عبرت کا پورا ادراک نہ کیا گیا تو آئندہ بھی بغاوت کی چنگاریاں سلگتی اور شعلے بنتی رہیں گی۔ کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار۔اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں۔
یاد رکھو کوئی شخص پیدائشی باغی نہیں ہوتا، حالات اسے باغی بنا دیتے ہیں۔ اس حوالے سے تاریخی کرداروں کا مطالعہ نہایت دلچسپ اور بصیرت آموز ہوتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن، اے کے فضل الحق، جی ایم سید سبھی مسلم لیگی تھے، تحریک پاکستان کے معزز کارکن اور قائداعظم کے سپاہی تھے۔ اے کے فضل الحق شیر بنگال نے 23/ مارچ 1940 کے تاریخی دن قرار داد لاہور (پاکستان) پیش کی تھی اور جی ایم سید اس روز اسٹیج پر رونق افروز تھے۔ فضل الحق مشرقی پاکستان میں صوبائی انتخابات (1954) میں مسلم لیگ کو شکست فاش دینے کے بعد وزیر اعلیٰ بنے۔ وہ کلکتہ دورے پر گئے تو متحدہ بنگال کا نظریہ پیش کر آئے اور حکومت گنوا بیٹھے۔ جی ایم سید کے قیام پاکستان سے قبل ہی مسلم لیگی قیادت سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور انہوں نے الگ سیاسی دکان چمکا لی۔ خان عبدالغفار خان کچھ اس طرح نہرو خاندان کی محبت اور مہاتما گاندھی کی چمک کے اسیر ہوئے کہ انہوں نے نہ صرف قیام پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کی بلکہ مرنے کے بعد بھی وطن کی خاک سے بغاوت کرتے ہوئے افغانستان میں دفن ہونے کو ترجیح دی۔ پاکستان نہ بنتا تو وہ بہرحال چارسدہ میں آخری آرام گاہ بنواتے۔ اب غفار خان کے جانشین اور خیبر پختونخوا موجودہ حکمران پشاور کے آرام باغ میں موجود قائداعظم کی نشانی کو توسیع کے بہانے مٹا کر غفار خان سے وفاداری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ اے کے فضل الحق کی جگتو فرنٹ کے تحت قائم کردہ حکومت کو مرکزی حکومت نے ڈسمس کیا تو وہ باغی ہو گئے۔ اس کابینہ میں ایک شعلہ نوا نوجوان شیخ مجیب الرحمن بھی صوبائی وزیر کی حیثیت سے شامل تھا۔
شیخ مجیب الرحمن تحریک پاکستان کا سرگرم رکن اور قائداعظم کا عقیدت مند تھا۔ گزشتہ دنوں ڈھاکہ اور راجشاہی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سجاد حسین کی کتاب ”شکست آرزو“ پڑھ کر مجھ پر انکشاف ہوا کہ شیخ مجیب الرحمن امن پسند لوگوں میں سے تھا جنہوں نے تقسیم ہند سے قبل پاکستان پر کتاب لکھ کر قیام پاکستان کو ذہنی اور فکری حمائت فراہم کی۔ مجیب الرحمن کی کتاب کا نام ”پاکستان“ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ سیاسی کارکن کی حیثیت سے متحرک رہا اور مشرقی پاکستان کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتا رہا۔ حسین شہید سہروردی اس کے سیاسی گرو تھے اور اسے کنٹرول میں رکھتے تھے۔ ایوبی مارشل لا نے سیاسی مخالفین پر بڑے ستم ڈھائے، ان پر بغاوت کے لیبل سجائے، میڈیا پر قدغن لگا کر عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کی اور مشرقی پاکستان کو مستقل احساس محرومی میں دھکیل دیا۔ مولوی تمیز الدین، ڈاکٹر مالک منعم خان اور عبدالقادر چودھری جیسے بزرگ سیاستدان متحدہ پاکستان کی خاطر قومی دھارے میں شامل رہے اور پنجاب کے ایجنٹوں کا خطاب پایا۔ نوجوان بنگالی دانشور اور سیاسی کارکن شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں بغاوت پر تل گئے لیکن یہ بغاوت مغربی پاکستان کے تسلط کے خلاف تھی نہ کہ علیحدگی کیلئے۔ ایوب خان کی جیلوں اور قید و بند نے مجیب الرحمن کو علیحدگی پسند بنا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے گریٹ ٹریجڈی میں لکھا ہے کہ جب وہ بحیثیت وزیر ڈھاکہ میں مجیب الرحمن سے ملے جو نیا نیا رہا ہو کر آیا تھا تو مجیب نے بھٹو سے کہا ایوب کی جیلوں نے میرے سینے کی آگ ٹھنڈی کر دی ہے۔ پھر مجیب پر اگرتلہ سازش کیس بنا جس میں اس پر ہندوستان کی مدد سے پاکستان توڑنے کا الزام تھا۔ باخبر لوگ کہتے ہیں مقدمہ درست تھا۔ ایوب خان کے خلاف تحریک کے دباؤ نے مجیب کو رہائی دلوائی۔ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کی ناکامی کے بعد مجیب الرحمن لندن چلا گیا۔ 16 نومبر 2009 کو بنگلہ دیش کی وزیراعظم اور مجیب الرحمن کی صاحبزادی نے ایک بیان میں انکشاف کیا کہ 1969 میں وہ لندن میں والد گرامی کے ساتھ تھی جہاں شیخ مجیب الرحمن نے ہندوستانی را کے عہدیداران سے ملاقات کی اور بنگلہ دیش کے قیام کیلئے حکمت عملی طے کی۔ حسینہ کا کہنا ہے کہ جب وہ چائے لے کر کمرے میں گئی تو وہاں یہی بات ہو رہی تھی۔ کیا خیال ہے کیا حسینہ جھوٹ بول رہی ہے؟ اسی وقت پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے بھی حکومت کو اس کی اطلاع دی تھی جس کا مجھے علم ہے۔ 1972ء میں پاکستان کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے قیدی مجیب الرحمن کو رہا کر کے لندن بھیج دیا۔ لندن پہنچنے کے بعد مجیب نے بی بی سی کے معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو انٹرویو دیا جس میں مجیب الرحمن نے کہا میں عرصے سے بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے کام کر رہا تھا۔ ڈھاکہ پہنچنے کے بعد عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مجیب نے کہا میں آزادی کیلئے برسوں سے کوشاں تھا۔ میرا خواب اب شرمندہ تعبیر ہوا ہے۔
دوستو! تاریخ کے سیاسی کرداروں کا مطالعہ نہایت فکر انگیز ہوتا ہے۔ ایک ملک یا قوم کا باغی دوسرے ملک اور قوم کا ہیرو ہوتا ہے۔ قائداعظم ہندوستان کا باغی اور پاکستان کا بانی ہے۔ مجیب الرحمن پاکستان کا باغی اور بنگلہ دیش کا بانی ہے۔
لمحوں نے غلطیاں کیں، صدیوں نے سزا پائی اور صرف چوبیس برس بعد 1971ء میں پاکستان ٹوٹ گیا۔ اندلس کے بعد مسلمانوں کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا سانحہ تھا۔ خدا را اس سے سبق سیکھو۔