یہاں منطق اور تاریخ بھی بے بس ہو جاتے ہیں

January 03, 2019

نیا سال مبارک ہو!

کیا ارادے ہیں آپ کے؟ ان 12مہینوں، 52ہفتوں اور 365دنوں کو کیسے گزارنا ہے۔ ویسے ہی جیسے پچھلا سال گزارا تھا؟ حکمرانوں کو کوستے، منفی تجزیے کرتے، ٹاک شوز دیکھتے۔ یہ سال 2018سے بھی زیادہ بحران، المیے اور چیلنج لے کر آرہا ہے۔ دنیا بہت کچھ سوچ رہی ہے۔ تصورات کو عملی شکل دینے کے لئے ٹیکنالوجی کی نئی نئی ایجادات آ رہی ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں اور فاٹا میں 16ویں اور 17ویں صدی پورے شباب کے ساتھ موجود ہیں۔ انسانوں کی اکثریت اب بھی مٹھی بھر سرداروں، جاگیرداروں کے سامنے سر اٹھا کر نہیں بیٹھ سکتی۔ ان کے فیصلے اب بھی پولیس یا عدالتیں نہیں کرتیں، سردار، ملک اور خان ہی کرتے ہیں۔ پہلے بعض سیاسی جماعتیں، تنظیمیں، ٹریڈ یونین لیڈر یہ نعرے تو لگا دیا کرتے تھے‘ کھیت وڈیروں سے لے لو، ملیں لٹیروں سے لے لو، اب نہ ایسے نعرے لگتے ہیں نہ ہی کسی پارٹی کے انتخابی منشور میں ایسے عزائم شامل کئے جاتے ہیں۔

72سال کے بعد پاکستان کی آبادی جتنی ہونا چاہئے تھی عین اس کے مطابق بلکہ کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے۔ لیکن 72سال کے بعد ہماری معیشت جہاں ہونا چاہئے تھی، جہاں ہمارا تمدّن، رہن سہن ہونا چاہئے تھا، تعلیم کی شرح جہاں ہونا چاہئے وہاں نہیں ہے۔ 72سال کے بعد ہماری زندگی میں جتنی آسانیاں ہونا چاہئے تھیں، انسانی نقل و حرکت کے لئے جتنی آرام دہ، تیز رفتار ٹرانسپورٹ ہونا چاہئے تھی، وہ نہیں ہے۔

اس کا ذمہ دار کون ہے۔ ہم سب ہیں۔ ہمارے سوچنے، دیکھنے کے انداز حقیقت پسندانہ نہیں ہیں۔ یہ حکمراں سول یا فوجی، ہم میں سے ہی تھے اور ہیں۔ ہم ہی انہیں پیدا کرتے ہیں، پرورش کرتے ہیں پھر منتخب کرتے ہیں یا انہیں اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع دیتے ہیں۔

ہم نے ایسے معاشرے کو جنم دیا ہے جہاں منطق اور تاریخ بھی اپنی چوکڑی بھول جاتے ہیں۔ میں دو تین دن سے سوچ رہا ہوں کہ کیا ہمارے ہاں مختلف ادوار کے عملی نتائج منطق اور تاریخ کے اصولوں کے مطابق تھے۔ آج کے عمرانی دور سے جائزہ لینا شروع کر لیتے ہیں۔ کیا یہ زرداری اور شریفی ادوار کا واقعی منطقی نتیجہ ہے۔

بات لمبی ہو جائے گی مگر یہ دیکھنا تو ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے اگر صدارتی اختیارات، نیک نیتی سے پارلیمنٹ کو منتقل کئے جس سے پارلیمانی نظام مضبوط ہوا تو کیا تاریخ کا تقاضا یہ نہیں ہونا چاہئے تھا کہ انہیں پانچ سال اور مل جاتے۔ نواز شریف کا اس وقت سرکاری افق پر ابھرنا کیا عین منطقی تھا؟ نواز شریف نے میگا پروجیکٹس بنائے، جنرل کیانی سے مفاہمت کی، کیا ان کا عدالتی فیصلے سے برطرف ہونا منطق اور تاریخ کے مطابق تھا؟ اور پیچھے چلے جائیں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ساڑھے پانچ سال میں جتنے بنیادی کام کئے، اس سر زمینِ بے آئین کو ایک متفقہ منظور شدہ آئین دیا، 90ہزار جنگی قیدی واپس لائے، بے روزگار پاکستانیوں کو خلیج کی ریاستوں میں ملازمتیں دلوانے کے لئے پاسپورٹ کا اجرا آسان کیا۔ ان کے ساتھ کیاکچھ ہوا۔ حکومت برطرف کی گئی، پھر انہیں سزائے موت بھی دے دی گئی، کیا یہ سب کچھ منطق اور تاریخ کے عین مطابق تھا؟ جنرل ضیاء الحق کے مذہبی نظریات کو عوام میں بہت پذیرائی ملی، ملک کی اکثریت شدت پسند ہو گئی، وہ گیارہ سال تک بلا شرکتِ غیرے حکمرانی کرتے رہے، ان کا منہ سے نکلا حرف ہی آئین اور قانون تھا، ان کے مذہبی رجحانات کے پیروکار تو اب بھی پورے ملک میں موجود ہیں لیکن ان ہم خیال طبقوں کو اقتدار نہیں مل سکا۔ کوئی بھی جنرل ضیا سے اپنا تعلق ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہے حتیٰ کہ ان کا مشن مکمل کرنے کے دعویدار بھی ان سے بہت دور ہو گئے ہیں۔

کیا ساری مملکتیں اسی طرح بھٹکتے، راستے بدلتے چلتی ہیں۔ پاکستان میں اصولوں، نظریات اور پالیسیوں کو تسلسل کیوں نہیں ہے۔ قومی مفادات کا تعین کیوں نہیں کیا جاتا۔ امریکہ سے اتحاد کو ہمیشہ ہمارے ہاں تسلسل نصیب ہوا ہے۔ ہر حکمراں فوجی یا سیاسی عام طور پر وائٹ ہائوس میں حاضری کو اپنی سیاسی زندگی کی معراج سمجھتا تھا۔ اس بار یہ تسلسل بھی ٹوٹ گیا ہے۔ خبر نہیں‘ عمران خود نہیں جانا چاہ رہے یا وائٹ ہائوس والے نہیں بلا رہے۔

نیا سال بھی شور و غوغا اور افراتفری سے شروع ہو رہا ہے۔ میڈیا اور دوسری کئی صنعتوں میں کارکن فارغ کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ برطانیہ میں بھی ایسی صورتحال آتی ہے مگر وہاں سوشل سیکورٹی بے روزگاروں کو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے کچھ وظیفہ دیتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ نظام پوری طرح شروع نہیں ہوا۔ جہاں تھوڑا بہت ہے، وہاں کہیں حکومت کی طرف سے، کہیں بڑے صنعتی اداروں کی طرف سے اپنا حصّہ نہیں ڈالا جاتا۔

اربوں روپے کی لوٹ مار، بیرونِ ملک سرمائے کے فرار کی باتیں تو ہو رہی ہیں مگر سرکاری خزانے میں اس لوٹی ہوئی رقم سے اب تک کچھ واپس نہیں آیا ہے۔

حکمران، اپوزیشن، تجزیہ کار اور میڈیا صرف اندرونِ ملک مقدمات اور سیاسی بیانات پر اٹکے ہوئے ہیں۔ عالمی دارالحکومتوں میں ہماری بربادیوں کے لئے جو مشورے ہو رہے ہیں ان سے متعلق کہیں بات نہیں ہو رہی ہے۔ ایسا تو نہیں ہےکہ سپر طاقت امریکہ نے اس خطّے میں دلچسپی ترک کر دی ہے۔ اس کے سفارتکار اور خفیہ ایجنٹ روز کچھ نہ کچھ تو کر رہے ہیں۔ امریکہ اب بھی علاقے میں تبدیلیوں کی سکت رکھتا ہے، وہ تو اب ہمارا پڑوسی ہے۔ کابل میں امریکہ، بھارت اور افغانستان 2019کے لئے جو روڈ میپ بنا رہے ہیں اس میں پاکستان کے لئے زیر زمین بارودی سرنگیں رکھی جا رہی ہیں۔ چین کیا اس مثلث کی سرگرمیوں سے بے خبر ہے؟ یقیناً نہیں۔ لیکن وہ حرکت میں اسی وقت آئے گا جب یہ گٹھ جوڑ اس کے مفادات کا راستہ روکے گا یا ہم اس کو احساس دلائیں گے۔ سہ فریقی مذاکرات سے ان سازشوں کا کسی حد تک توڑ ہوا ہے۔ بعض بین الاقوامی تجزیے تو کہتے ہیں کہ امریکہ نے اس علاقے میں چین کو اپنی اقتصادی سرگرمیوں کی کھلی چھوٹ دے دی ہے کیونکہ اس کو فوجی حوالے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ چین پاکستان اور افغانستان کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور یورپ تک اپنی رسائی مستحکم کر رہا ہے۔ امریکہ بھی ایشیا میں اپنی اقتصادی موجودگی برقرار رکھنے کے لئے(ARA) Asia Reassurance Initiativeکا اربوں ڈالر کا پروگرام شروع کر رہا ہے۔

ان سارے محرّکات اور عوامل کا پاکستان میں کسی سطح پر ذکر نہیں ہوتا۔ کیا یہ ہمارے نزدیک اہم نہیں ہیں؟ کیا عمران خان میں اتنی مدبرانہ صلاحیتیں ہیں جو ان بین الاقوامی پیچیدگیوں میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ حالات جس سمت بڑھ رہے ہیں کیا عمران خان کو پاکستان بالخصوص پنجاب میں اتنی سیاسی مقبولیت اور طاقت حاصل ہو گی کہ وہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کر سکیں اور ان کو درپردہ بین الاقوامی حمایت کو بے اثر کر سکیں۔ پھر بھارت کے انتخابات بھی ہونے والے ہیں، ادھر سے بھی کوئی خیر کی خبر نہیں آئے گی۔ سوچنا یہی ہے کہ کیا ہم محفوظ ہاتھوں میں ہیں؟