امریکا اور بھارت میں تجارتی تنازع

February 20, 2019

امریکا اور بھارت کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات میں کچھ ہی عرصے میں خاصا تناو دیکھا جارہا ہے جس کا اثرخطے کی سیاست، دفاعی ا ور تجارتی معاملات پربھی پڑرہا ہے۔ گزشتہ سال مئی کے مہینےمیں بھارتی وزیر اعظم اور روسی صدر کی ملاقات میں بھارتی وزیر اعظم نے روس کے میزائل ڈیفنس سسٹم s-400کی خریداری کی بات چیت کی تھی جس کے بعد یہ معاہدہ ماسکو میں طے ہوا اور ساڑھے پانچ سوارب ڈالرز کے معاہدےپر دست خط ہوگئے۔ اس پر صدر ٹرمپ نے شدید تنقید کی کہ روس پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے اتنا بڑا سودا روس سے کرلیا جب کہ امریکا اور بھارت کے درمیان گزشتہ سال ہی مختلف جدید ہتھیاروں کی خرید و فروخت کے معاہدے ہوئے تھے جس میں ہتھیاروں کے ساتھ بعض جدید ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی بھی بھارت کو منتقل کی گئی۔بھارت نے نہ صرف امریکی ڈرون خریدے بلکہ اس کی ٹیکنالوجی بھی امریکا سے خریدی۔ بھارت نے امریکی میزائل ڈیفنس سسٹم ،تھاڈ کی خریداری کے لیے بات چیت کی تھی، مگر پھر روس سے ایسا ہی میزائل ڈیفنس سسٹم خرید لیا۔

گزشتہ دنوں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں نیا ڈیبٹ کریڈٹ کارڈ متعارف کرایا ہے جسے روپے کہاجاتا ہے۔ انہوں نے اس کارڈکی فروخت اور اس کی آمدنی کو ملک میں سڑکوں، اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر پر خرچ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔بھارت کےمرکزی بینک کی طرف سے نیادیسی کارڈجاری کرنےپر غیر ملکی کمپنیوں کےویزا اور ماسٹر کارڈ، جن پر اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی ہے، خطرے میں پڑ گئے ہیں اوروال مارٹ اور امیزون نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔ دوسری جانب سینٹرل بینک آف انڈیا تمام ڈیجیٹل سسٹم کو کنٹرول کرنے کے لیے ، غیر ملکی سرمایہ کاری، ادائیگیوں اور خرید وفروخت کا ڈیٹا جمع کررہا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ بھارت، امریکامخالف ملک، ونیزویلا سے تیل بھی خریدرہا ہے۔ اس پر امریکی مشیر دفاع، جان بولٹن نے بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ ونیزویلا اور امریکاکے ایک عرصے سے تعلقات خراب رہے ہیں اور امریکاکی طرف سے اس پر سخت پابندیاں عاید ہیں، اس کے باوجود بھارت نے اس سے تیل خریدنے کا معاہدہ کرلیاہے۔جان بولٹن کا کہنا تھا کہ ونیزویلاسے تجارت کا مطلب ہے، صدر نکولس مدورا کی حمایت کرنا جسے امریکا برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ تجارتی شعبے میں بھی بھارتی پالیسیوں پرصدر ٹرمپ کو شدید غصہ ہے۔امریکا نے فولاد اور ایلومینیم پر محصولات میں اضافہ کیا ہے اور اس ضمن کچھ پابندیاں عائد کی ہیں۔لیکن بھارت یہاں بھی خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ نریندر مودی نے الیکشن کی وجہ سے ویزااور ماسٹر کارڈ پر پابندی عاید کی ہے۔ مگر صدر ٹرمپ اور امریکی سرمایہ کار بھارت کی ان پالیسیوں کی مذمت کررہے ہیں۔ ماسٹر کارڈ کمپنی کے نائب صدر نے ایک بیان میں کہا کہ بھارتی وزیر اعظم کی پالیسیاں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور سرمایہ کاری کے لیے نقصان دہ ہیں۔ کمپنی کے صدر، وجے بانگانے بھی ،جو بھارتی نثراد امریکی ہیں، ایک بیان میں کہا کہ ان کی کمپنی نے 2016میں بھارت میں ڈیجیٹل ادائیگی کو فروغ دیا اور چند ہی ماہ میں ان کی کمپنی نے51ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کیں۔ کمپنی کادعویٰ ہے کہ بھارت کے دیسی کارڈ، روپے، کی فیس ماسٹر کارڈ سے زیادہ ہے اور بھارتی حکومت اپنےعوام کو اندھیرے میں رکھ رہی ہے۔

ان حالات میں حال ہی میں امریکا کے وزیر تجارت ولبرروز ،نئی دہلی کا دورہ کرچکے ہیں، مگر کوئی نتیجہ خیز بات چیت نہ ہوسکی۔ دونوں ممالک اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔امریکی وزیر تجارت نے امید ظاہر کی کہ وہ بھارتی صنعت کاروں، تاجروں اور سرمایہ کاروں سے او ر امریکابھارت فرینڈ فورم پربھی بات کریں گے جس سے حالات بہتر ہوجائیں گے ۔انڈیا،امریکابزنس فورم کی صدنیشا بوال کہتی ہیں کہ بات چیت ضروری ہے۔ ان کی بھی خواہش ہےکہ دوطرفہ تعلقات اور تجارت فروغ پائے، مگر ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ امریکا اور بھارت کی سرحد ملتی ہے اور نہ امریکا اور بھارت کے مابین دوطرفہ تجارت کا جامع معاہدہ ہے۔وہ کہتی ہیں کہ دونوں طرف کے لوگ مورچہ بند ہوگئے ہیں۔ ایک طرف تامّل ہے اور دوسری طرف بے چینی اور غصے کا رحجان پایا جاتا ہے۔

کہاجاتا ہے کہ چند ماہ میں دونوں جانب کے تجارتی اور سرمایہ کاروں کے حلقوں کی کوششیں رہی ہیں کہ اختلاف رائےدورکرکے کسی حتمی معاہدے تک پہنچ جائیں جس سے طبّی آلات، زرعی سامان اور موبائل وغیرہ کی تجارت کو فروغ مل سکے۔ مگر وال مارٹ اور امیزون کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی بھارتی پالیسی نے امریکا کو جھٹکا دیا ہے اور ان اداروں کا اربوں ڈالرز کا کاروبار خطرے میں پڑچکا ہے۔ ایسے میں صدر ٹرمپ کے قریبی حلقے ان پر زور دے رہے کہ بھارت کو امریکا کی طرف سے جوبھی سہولتیں دی گئی ہیں،وہ واپس لے لی جائیں۔ صدر ٹرمپ کے ایک مشیر کا کہنا ہے کہ صدر کوئی سخت قدم نہیں اٹھائیں گے۔ شاید وہ اس کمی کو دیگر شعبوں میں تعاون سے پورا کرنے کی کوششیں کریں۔

امریکا کےدفاعی مشیر نے خیال ظاہر کیا کہ ایران پر شدید پابندیاں عاید ہیں، مگر بھارت نے ایران سے تعلقات اور تجارت جاری رکھی ہے اور صدر ٹرمپ نے اس ضمن میں بھارت کو چھوٹ دے رکھی ہے۔دفاعی شعبوں میں امریکانے بھارت کو جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کی دفاعی حکمت عملی میں زیادہ اہمیت دے رکھی ہے۔ حال ہی میں بھارت نے انڈونیشیا کے تین جزائر کو اپنا نیول بیس بنانے کا معاہدہ کیا ہے ۔ بھارت اپنے طور پر بحرہند اور مغربی بحرالکاہل میں اپنی بحریہ کو فعال بنارہا ہے۔ گلوبل جیو پالٹیکس میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ ایسے میں امریکا زیادہ مضطرب دکھائی دیتا ہے۔ یورپی یونین میں بے چینی پائی جاتی ہے کیوں کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی تیاریاں یورپی یونین کے اتحاد کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ چین تجارتی معاملات میں امریکاکے سامنے ڈٹ گیا ہے اور امید ہے کہ جلد ہی دونوں ممالک کے سربراہوں کی ملاقات ہوگی تو کوئی نتیجہ برآمد ہوگا۔تاہم فی الحال عالمی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ بڑی اسٹاک مارکیٹوں کا انڈیکس گرتا جارہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں حالات مزید مخدوش دکھائی دے رہے ہیں۔جنوبی ایشیا میں افغانستان کا معاملہ غیر یقینی صورت حال سے گزر رہا ہے۔ ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات مزید سرد مہری کا شکار ہورہے ہیں۔شام میں امریکی انخلا کے بعد وہاں روس، ترکی اور ایران اپنا کردار ادا کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں، مگر شام کا مسئلہ تاحال الجھاو کا شکار ہے۔ روس یہ ذمے داری ایران اور ترکی پر ڈال کرکچھ پیچھے ہٹ رہا ہے۔

ان حالات میں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا،بھارت کے غیرلچک دار رویّے کے باوجود اس کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا ۔کیوں کہ دوسال قبل امریکااور بھارت کے اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں زیادہ تر دفاعی اور کچھ تجارتی معاہدےطے پائے تھے۔ اس خطے میں بھارت ایک طرح سے امریکاکا بڑا اتحادی بن کر ابھرا ہے۔بھارتی سفارتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ دونوں ممالک کے مابین قدرے کشیدگی اور سردمہری کےباوجود دفاعی اور تجارتی معاہدوں پر عمل کیاجارہا ہے ۔ اس کے لیےتجارت سے زیادہ دفاع اہم ہے۔ مگر بدلتی دنیا کے بدلتے ہوئےحالات میں ہر ملک اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔2019میںعالمی معیشت اور آزاد معیشت قوم پرست معاشی پالیسی کی طرف مراجعت کا سفرکرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔امریکا فی الوقت بہت سے مسائل سے دوچار ہے۔ میکیکو کی دیوار صدر ٹرمپ کا جذباتی مسئلہ بن گئی ہے۔ یورپی یونین والے دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر ہم کم زور ہوگئے تو امریکی اتحاد کوبھی کم زورکریںگے۔امریکانے روس ، ایران ، شمالی کوریا، ونیز ویلا پر پابندیاں لگا کر عالمی معیشت کوشدید متاثر کیا ہے اور بڑی حد تک خو بھی متاثر ہورہا ہے۔ ان حالات میں لگتا ہے کہ امریکا،بھارتی وزیر اعظم، مودی کی پالیسیوں کو برداشت کرلے گا ۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ صدر ٹرمپ کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔لہذا بھارت کو محتاط رہنا چاہیے۔