بھارتی سیاستدان اور دانشور بھی مودی پالیسیوں کیخلاف میدان میں آگئے

February 24, 2019

کراچی (رفیق مانگٹ ، نیوز ایجنسیاں) پلوامہ حملے کے بعد بھارت میں روزانہ نئے بیانات سامنے آرہے ہیں،بھارتی سیاستدان ، دانشور اور فنکار بھی مودی پالیسی کیخلاف میدان میں آگئے ہیں ، بھارتی اخبارات کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے سابق وزریراعلیٰ فاروق عبداللہ کے مطابق بھارت نے پاکستان کے ساتھ جنگ کی تو بی جے پی انتخابات ہار جائے گی،بھارت میں ایک سروے کے مطابق پلوامہ حملے کے بعد36فی صد بھارتی پاکستان کے ساتھ بھرپور جنگ کے حامی ہیں،بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اور سابق وزیراعظم واجپائی کے مشیر اے ایس دولت کا کہنا ہے کہ جنگ تفریح نہیں،اب ہتھیار بھی1971والے نہیں،سب تبدیل ہوچکا،اس لیے پاکستان کے خلاف جنگ کے آپشن کے بجائے سفارتکاری کا راستہ اختیار کیا جائے، بھارتی اشوکایونیورسٹی کے وی سی پرتاب بھانو مہتا نے کہا ہے کہ پلواماواقعہ پر بھارتی واویلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان جیت گیا ہے، بھارتی ردعمل خود اس کے لیے تباہ کن ثابت ہورہاہے، پوری عالمی برادری میں کوئی بھارت کا موقف سننے کو تیار نہیں، عالمی برادری بھارتی رویے کو بطوراشتعال انگیزی لے رہی ہے، بھارتی اخبار میں شائع ہونے والے مضمون میں بھارتی دانشورنے کہا کہ بھارت کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا طبقہ پاکستان کامعترف ہوگیا ہے ،پاکستان کا تحمل عالمی سطح پر اسے مزید معتبر کر رہاہے، حقیقت یہ ہے پاکستان کیخلاف جنگ میں بھارت تنہا ہے، پاکستان پر کوئی عالمی، سیاسی اور سفارتی دبا ؤنہیں، بھارت نیم روایتی جنگ میں پاکستان کو شکست دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ بھارتی دانشور نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال خراب کرنے کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارت خود شدید گھٹن کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ حملے کے بعد سوچ بچار کے بجائے یہ تلاش کرتے رہے کہ کس پر الزام لگایا جائے، بھارت کامیاب خفیہ آپریشن کرنے اور جدید فنی صلاحیتیں حاصل نہیں کرسکا، بھارت کی بڑھکیں مارنے والی سیاسی قیادت امن قائم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ بھارتی اخبار”نیشنل ہیرالڈ‘ کے مطابق را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے کہا کہ مودی کو اپنے آپشن کے استعمال میں احتیاط کرنی ہوگی، جنگ تفریح نہیں، انہوں نے جنگ کے امکان کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہا کہ میں ایسا انہیں سمجھتا بلکہ جنگ کے علاوہ دیگر آپشنز ہیں، ممبئی حملوں کے بعد بھی جنگ کا ماحول بنا تھا جو موجودہ واقعے سے زیادہ شدید تھا،من موہن سنگھ جنگ کی طرف نہیں گئے۔ جب کہ مودی اس آپشن پر زور دے رہے ہیں،71کے بعد سے جنگ نہیں ہوئی ،کارگل محدود آپریشن تھا جس میں سویلین کا زیادہ نقصان نہیں ہوا، لیکن اگر لاہور،امرتسر یا مظفر گڑھ پر بمباری ہوتی تو کیا ہم ان نتائج کےلئے تیار تھے،اب ہتھیار بھی1971والے نہیں،سب تبدیل ہوچکا، بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی کے مطابق مقبوضہ جمو ں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ بی جے پی صرف ملک کو تباہ کررہی ہے،اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس جنگ سے جیت جائیں گے تو وہ ہار جائیں گے، جنگ ایک فیصلے سے کبھی ختم نہیں ہوتی،اس بار جنگ معمولی نہیں ہوگی اور معاملہ سیکورٹی کونسل جائے گاپھر سیکورٹی کونسل کی قرارداد آئے گی،کیا بھارت اس کےلئے تیار ہے، بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے کہا کہ آر ایس ایس نے اب رام مندر کے معاملے کو پس پشت ڈال دیا ہے اور پلوامہ حملے کے بعد کشمیر کو ترجیح دے دی ہے،اب اس نعرے کو دوبارہ بلند کرنے کی ضرورت ہے کہ مستحکم حکومت اور مضبوط وزیر اعظم منتخب کروبھارتی اخبار’ہندوستان ٹائمز“ میں معروف صحافی برکھادت نے مضمون میں لکھا کہ پلوامہ حملے کے بعد کشمیر کی اندرونی پالیسی اورپاکستان کوجواب دینے کے معاملے پر ڈرامائی تبدیلی کی توقع ہے،لائن آف کنٹرول پر گولہ باری بھی ہوسکتی ہے،خفیہ ایکشن بھی اور فضائی طاقت بھی استعمال ہوسکتی ہے۔حریت رہنمائوں کی سیکورٹی واپس لینا ایک قدم ہے،مضمون میں لکھا گیا کہ2016سے کشمیر پالیسی میں تبدیلی لائی گئی، کشمیر کے اعلیٰ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اب پولیس مقابلوں میں جاں بحق کشمیریوں کی نعشوں کوڈھانپ کررکھا جاتا ہے ان کی نمائش نہیں کی جاتی،پوسٹ مارٹم میں ان کی کوئی تصویر نہیں لی جاتی۔2016سے2019کے درمیان جیش محمد کے99کو نوجوانوں کو شہید کیا گیا، انڈیا ٹوڈے نے ایک پول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پلوامہ حملے کے بعد36فی صد افراد پاکستان کے ساتھ بھرپور جنگ کے حامی ہیں جب کہ23فی صد سرجیکل اسٹرائیکس کے حق میں ہیں،18فی صد نے جیش محمد کے سربراہ کے خلاف آپریشن کرنے کاکہا جس طرح اسامہ بن لادن کے خلاف امریکا نے کیا تھا،صرف پندرہ فی صد نے پاکستان کو معاشی اور سفارتی لحاظ سے تنہا کرنے کے حق میں رائے دی۔