ہوش اور جوش

March 01, 2019

انتقام اور غصے کا بھانبڑاور ذہن میں جذبات کا بپھرا ہوا سمندر انسان کا امتحان اور ٹیسٹ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح جوش میں ہوش کا دامن تھامے رکھتا ہے۔غصے اور نفرت کی آگ جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور راکھ بننے سے بچنے کے لئے ہوش کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی طرح قومی سطح پر خطرناک بحران اور جنگی کیفیت قیادت کی بصیرت اور اہمیت کا امتحان ہوتی ہے کہ وہ اس طوفانی صورتحال سے کیسے عہدہ برآ ہوتی ہے۔عامیانہ قیادت وقت کی لہر کے ساتھ بہتی ہے جبکہ اہل اور صحیح معنوں میں ’’قیادت ‘‘ وقت کی لہر کا رخ بھی موڑ سکتی ہے۔اب تو یہ واقعہ بہت سی کتابوں کی زینت بن چکا لیکن مجھے ایک باخبر صاحب سے سننے کا اتفاق ہوا۔پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیاء الحق کو ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے عزائم کا بخوبی علم تھا۔ ہندوستان راجستھان کے علاقے میں جنگی مشقیں کر رہا تھا اور منصوبہ اس طرف سے پاکستان پر حملہ کرکے کراچی اور سندھ کے بعض علاقوں کو پاکستان سے کاٹ دینا تھا۔ دونوں ملکوں میں جنگی بخار کا درجہ حرارت بڑھ رہا تھا۔ پاکستان 1971ء کی ہندوستانی جارحیت سے ڈسا ہوا تھا اور ہندوستان طاقت اور فتح کے نشے میں پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا۔1971میں اندرا گاندھی کے تاج میں پاکستان کو توڑنے اور بزرگوں کی ’’غلطی ‘‘ کا حساب برابر کرنے کا سرخابی پر لگ چکا تھا۔ اب اندرا کا بیٹا بھی اپنے تاج میں سرخاب کے پر کا اضافہ کرنا چاہتا تھا۔جنگ جتنی تباہی لاتی ہے اس کا نہ صرف جرنیلوں بلکہ عام لوگوں کو بھی اچھی طرح علم ہے۔جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں اگرچہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا راز فاش ہو چکا تھا لیکن حکومت پاکستان اس پر راز کا پردہ ڈال رہی تھی۔ضیاء الحق اقتدار میں رہ کر کچھ ڈپلومیسی سیکھ چکے تھے اور پھر افغان وار نے بھی ان کی تربیت کی تھی۔ مختصر یہ کہ ضیاءالحق کرکٹ کا میچ دیکھنے ہندوستان گئے وطن واپسی کے موقع پر راجیو گاندھی ایئرپورٹ پر رخصت کرنے آئے۔جنرل ضیاءالحق نے راجیو کو ’’جپھا‘‘ مارا اور کان میں کہا جنگی منصوبہ بناتے ہوئے یہ نہ بھولنا کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے۔ایٹمی قوت کے استعمال سے دونوں ممالک ایک دوسرے کو نیست ونابود کر سکتے ہیں لیکن یاد رکھنا مسلمان کرہ ارض پر کروڑوں کی تعداد میں موجود رہیں گے البتہ ہندوئوں کا نام ونشان مٹ جائے گا۔ ضیاءالحق کی جپھی ڈھیلی ہونے تک راجیو کا رنگ پیلا زرد ہو چکا تھا۔جنگ کے بادل چھٹ گئے ہندوستانی فوجیں جنگی مشقوں کے ساتھ بیرکوں میں واپس چلی گئیں۔ سانپ مر گیا، لاٹھی بچ گئی۔

سیانے کہتے ہیں وہ حالات اور تھے بدلہ لینا ضروری ہے یہ ہماری غیرت اور قومی حمیت کا تقاضا ہے۔کچھ سیانے کہیں گے 1971،1965اور 1999کا کارگل معرکہ محدود پیمانے پر تھے۔اب اگرجنگ چھڑتی ہے تو محدود نہیں رہے گی اور میدانوں، فضائوں، سمندروں حتیٰ کے پہاڑوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

میں نے اینکر پرسن اور تجزیہ کار کو بلند آواز میں جذبات کا رنگ بھر کر کہتے سنا ہم نے ایٹم بم ڈرائنگ روم میں سجانے کے لئے نہیں بنایا۔افسوس آج ہندوستان میں نہ کوئی گاندھی جی ہیں اور نہ عدم تشدد کے پیرو۔جنگ عظیم زوروں پر تھی۔جرمن ہٹلر لندن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے بے چین تھا جرمن طیارے لندنی بادلوں پر چھائے نظر آتے تھے۔گاندھی جی ہندوستان کے انگریز وائسرائے سے ملے اور عدم تشدد کا پرچار کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ حکومت برطانیہ ہٹلر کے حملوں کا بالکل جواب نہ دے۔ جب ہٹلر کے طیارے لندن کی فضا میں نمودار ہوں تو انگریز گھروں سے باہر نکل کر کھڑے ہو جائیں اور ہٹلر کو بم برسانے دیں۔وہ خود ہی تائب ہو جائے گا۔ وائسرائے کو اس مشورے سے اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ گاندھی کو رخصت کرنے کے لئے اے ڈی سی بلانا بھول گیا۔ انگریزوں کو ایسا عدم تشدد قبول نہ تھا۔ہم مسلمان ایک گال پر ’’مکا‘‘ پڑے تو مارنے والے کی گردن دبوچنے سے کم ردعمل پہ یقین نہیں رکھتے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے آئینی اور قانونی راہ اپنائی اور کامیاب رہے۔ذہانت اور بصیرت اسی کو کہتے ہیں کہ کم سے کم نقصان یا بلانقصان ہدف یا مقصد یا منزل حاصل کر لینا۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر دوستوں کو اپنے اپنے معاشی مفادات عزیز ہیں اور ان مفادات نے کسی حد تک دوستی کے تصور کو بھی متاثر کیا ہے۔مسلم امہ کے مذہبی، روحانی اور قلبی جذبات پر معاشی مفادات کا رنگ غلبہ پا رہا ہے۔ہمارا عزیز اور مخلص دوست سعودی عرب پاکستان میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے تو ہندوستان میں ایک سو ارب ڈالر کی، ایران چا بہار پہلے ہی ہندوستان کے حوالے کر چکا ہے اور یہی حال یو اے ای اور چین کا بھی ہے۔1965ء اور 1971ء والے رسپانس یا کھلی حمایت کی توقع شکوک کے پردوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ یہ وقت روس اور چین جیسے بہی خواہوں کی مدد سے فائدہ اٹھا کر اقوام متحدہ بلکہ سلامتی کونسل کے ذریعے دبائو ڈالنے کا ہے کیونکہ امریکہ شاید نیوٹرل رہے گا۔عالمی قوتوں کی مداخلت سے جنگ کے شعلوں پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتاہے۔او آئی سی کا ہندوستانی وزیر خارجہ کو بلانا افسوسناک ہے اور ہمیں معاملات سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کا ردعمل سو فیصد درست ہے کہ وہ ہندوستانی وزیر خارجہ کی موجودگی میں میٹنگ کا بائیکاٹ کریں گے۔ 57مسلمان ممالک کی او آئی سی نے یہ کام پہلی دفعہ نہیں کیا۔یاد کیجئے یحییٰ خان کے دور میں او آئی سی کی سربراہی میٹنگ مراکش کے دارالحکومت رباط میںمنعقد ہوئی اس وقت مشرقی پاکستان کے بحران کے سبب جنگ کے شعلے لپک رہے تھے۔یحییٰ خان نے ہندوستان کے نکالے جانے تک میٹنگ میں شرکت نہیں کی تھی۔

ہوش کا دامن ہاتھوں سے سرکنے نہ پائے ہندوستانی طیاروں نے بدھ کے روز دوسری بار پاکستانی علاقے میں آکر اپنے عزائم کا اظہار کیا۔الحمدللہ ہمیں اپنی دفاعی قوت پر اعتماد اور ناز ہے۔ الحمدللہ پاکستان نے ہندوستان کے طیارے مار گرائے اور ایک طیارہ جو ہماری حدود میں گرا اس کا پائلٹ گرفتار ہوا۔ظاہر ہے اس سے پاکستانی قوم کا اعتماد بڑھے گا اور ہندوستان میں ہزیمت کا زخم انتقام کی آگ پر تیل ڈالے گا۔یہ وقت ہے کہ پاکستان حسب معمول اپنی دفاعی حکمت عملی پر قائم رہ کر ہندوستان کے عزائم اور مودی کی جنگی ذہنیت کو عالمی سطح پر واشگاف کرے اور عالمی قوتوں، عالمی اداروں اور عالمی رائے عامہ کو متحرک کرے تاکہ وہ ہندوستان پر دبائو ڈالیں۔مودی انتخابات میں فتح کےلئے جنگ کی آگ بھڑکا رہا ہے یہی اس کی شکست کا سبب بنے گی۔ہوش کو جوش پر غالب رکھنے کی بہترین مثال عمران خان کا قوم سے خطاب ہے جس نے عالمی سطح پر پاکستان کا امن پسندانہ امیج ابھارا ہے۔دونوں ممالک میں دانشوروں، لکھاریوں اور موثر طبقات کو امن کی بحالی کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے اور جنگ کی تباہ کاریوں کے خلاف شعور بیدار کرنا چاہئے۔دریں حالات ہر صورت ہوش کو جوش پر غالب رکھیں۔