انساں کو جو روندے وہ قدم تیرا نہیں ہے

March 02, 2019

پاکستان سے ہمیں شکایت رہتی ہے کہ یہاں قیادت کا بحران ہے لیکن اس حوالے سے ’’شائننگ‘‘ انڈیا کی جو حالت ہے، وہ نریندر مودی کی صورت میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اِتنے بڑے ملک میں اِتنے چھوٹے درجے کی قیادت جس نے اپنے ذاتی اور گروہی مفاد کے لئے اپنے ملک و قوم کے وقار اور عزت و آبرو کو دائو پر لگا دینے میں بھی ذرا شرم محسوس نہیں کی۔ پلوامہ حملہ اپنی نوعیت کی پہلی واردات نہیں تھی جس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ہے۔ یہی الزام پٹھانکوٹ، اوڑی اور ممبئی حملوں کے وقت بھی پاکستان پر لگایا گیا۔ اُس وقت بدلے کی آگ بجھانے کے لئے پاکستان پر حملہ کیوں نہیں کیا گیا؟ جب انڈین پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اُس وقت کیوں صبر اور حوصلے سے کام لیا گیا؟ کوئی دن نہیں گزرتا جب بھارتی ذمہ داران کی طرف سے ہم پر کشمیر میں در اندازی یا پراکسی وار کا الزام نہیں لگتا۔ اب کے ایسی کیا انہونی ہو گئی جس پر آپ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا؟ اُس وقت آپ کی اپنی خامیاں اور کوتاہیاں سب پر واضح تھیں۔ آپ کی اپنی قوم سے یہ آوازیں اٹھ رہی تھیں کہ آپ نے ایئرلفٹنگ کیوں نہ دی؟ واضح دھمکیوں کے باوجود آپ نے سیکورٹی کا فول پروف بندوبست کیوں نہ کیا؟ آپ کے اپنے لوگ یہ پوچھتے رہے کہ آپ اپنے اداروں کی نااہلی و کوتاہی دوسروں کے سر کیوں مونڈھ رہے ہیں؟ واضح جواب ہے کہ یہ سارا الیکشن اسٹنٹ تھا۔ جو اس اشتعال کو بھڑکا کر آنے والے الیکشن میں سیٹیں بڑھانے کیلئے کیا گیا۔ یہ کھوکھلا دعویٰ کہ ہم نے بالاکوٹ کے جنگل میں پہاڑی چوٹی پر واقع جیشِ محمد کے تربیتی سنٹر میں موجود 350دہشت گردوں کو مار ڈالا ہے، کیا اتنا بڑا جھوٹ پست ذہنیت کی دلیل نہیں ہے؟ کیا میڈیا کے اس دور میں اتنی زیادہ اموات چھپی رہ سکتی تھیں؟ اس کے بعد آپ لوگوں نے یہ بے پر کی چھوڑی کہ ہم نے پاکستان کا F16طیارہ مار گرایا۔ اگر مار گرایا ہے تو کہاں ہے اس کا ملبہ؟ کوئی ثبوت؟ کوئی تصویر؟ کوئی پائلٹ؟

ہمارے جن شاہینوں نے آپ کی انڈین ایئر فورس کا جہاز گرایا ہے، اُنہوں نے آپ کی طرح جھوٹ پہ جھوٹ نہیں بولا۔ وہ اُس کے ثبوت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ جلتا ہوا ملبہ ہی نہیں، پورا جہاز دکھا رہے ہیں۔ آپ کے پائلٹ کو ہجوم سے چھڑاتے اور چائے پلاتے پورے میڈیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان اپنا پورا زور لگا کر دنیا کے سامنے بھارت کی جو تذلیل نہیں کر سکتا تھا، آپ کی نا اہل قیادت نے کھوکھلا جنگی جنون پید ا کرتے ہوئے جھوٹ پر جھوٹ بول کر وہ تمام سیاہی بھارت کے چہرے پر مل دی ہے۔ آئے تھے بڑے، پاکستان کو سبق سکھانے، الٹی منہ کی کھائی ہے۔ بڑ ی طاقت بنے پھرتے تھے، سارا نشہ اتر گیا ہے۔ زعم اور بھرم ٹوٹ گیا ہے۔ اب اُس کے بعد آپ لوگوں میں ذرا بھی شرم ہو تو جنگ یا حملے کا نام نہ لیں کیونکہ پاکستان نے آپ لوگوں کو پوری دنیا کے سامنے اصولی اور اخلاقی طور پر بھی زبان درازی کے قا بل نہیں چھوڑا۔ ہمارے وزیراعظم نے آپ لوگوں کے بالمقابل اتنی نپی تلی، شائستہ اور مہذب زبان استعمال کی ہے کہ جسے پوری مہذب دنیا ہی نہیں آپ کے عوام بھی سراہ رہے ہیں۔ بار بار یہ کہا ہے کہ مودی صاحب جنگیں مسائل کا حل نہیں، ان کا سبب ہوتی ہیں۔ آئیے! ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھ جاتے ہیں، ہر مسئلے پر بات کرتے ہیں۔ اگر آپ کے خیال میں دہشت گردی سب سے بڑا مسئلہ ہے تو آغاز اُسی سے کرتے ہیں۔ آپ لوگ ہمیں ثبوت دیجئے ہم اُن غیر ریاستی گروپوں کے خلاف کارروائی کے لئے تیار ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ درویش خود کو سب سے بڑھ کر ’’فرینڈ آف انڈیا‘‘ خیال کرتا چلا آرہا ہے لیکن بی جے پی اور آپ کی قیادت نے محض انتخابی مفادات کے لئے جنگی جنون کو بڑھاوا دیتے ہو ئے جس طرح تعصبات اور منافرتوں کو فروغ دیا ہے، اُس سے درویش کا دل بہت دکھا ہے۔ یقین نہیں آرہا کہ کیا یہ واقعی گاندھی جیسی مہان ہستی کا ہندوستان ہے۔ کبھی جس کا وزیراعظم پنڈت نہرو جیسا مدبر انسان تھا آج اُسی کرسی پر بی جے پی کا ایسا آدمی براجماں ہے جو نتھو رام گوڈسے جیسے بدترین قاتل کی تصویر پر پھول چڑھاتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔ مسئلہ کانگرس کے بالمقابل کھڑی بی جے پی سے بھی نہیں ہے۔ شاعر اور دانشور اٹل بہاری واجپائی اسی پارٹی کے وزیراعظم تھے، جو امن کے لئے خود چل کر لاہور تشریف لائے اور کھلے لفظوں میں اچھی ہمسائیگی کے ساتھ امن محبت اور دوستی کا پیغام دیا۔ درویش کو ہمیشہ اپنے میڈیا سے شکایات رہی ہیں کہ وہ نفرت اور اشتعال انگیزی پر مبنی مواد کیوں چلاتا ہے لیکن جب سے بھارتی میڈیا کے افسوسناک لچھن دیکھے ہیں اپنے میڈیا کے داغ دھبے ذہنی کینوس سے محو ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اُف میرے خدایا! اتنی اشتعال انگیزی، اتنے جھوٹ، اتنی نفرت۔ ایسی کمینگی تو ڈکٹیٹر شپ میں روا رکھی جاتی ہے۔ یہ کونسی اتنی بڑی جمہوریت ہے کہ ’’طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی‘‘۔ آپ کے دھرم میں تو دَیا ہے، اہنسا ہے، شانتی ہے، گیان ہے، نروان ہے۔ وہ سب کہاں گئے؟ نریندر مودی اپنا مذہب یوں بدنام تو نہ کرو۔

اب ہم اپنے وزیراعظم سے یہ استفسار کرنا چاہتے ہیں کہ آپ غیروں کے لئے جس قدر نرم دل، مہربان، روادار اور مہذب ہیں، اپنوں کے لئے اس قدر تندخُو، منتقم مزاج اورسخت کلام کیونکر ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ رویہ ایک قومی لیڈر کے شایانِ شان ہے؟ اب آپ ماشاءاللہ جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں، آپ اپنے مخالف سیاستدانوں کے کروڑوں چاہنے والے پاکستانیوں کی ہمہ وقت دل شکنی پر کیوں کمر بستہ رہتے ہیں؟ آپ نے انڈین وزیراعظم مودی اور ان کی قوم کے لئے جس شائستہ زبان کا استعمال کیا ہے، اُس پر ہمیں خوشی ہے لیکن یہی زبان اپنوں کے تذکرے پر کیوں اتنی تلخ ہو جاتی ہے؟۔ انڈین پائلٹ پاکستان پر حملہ آور ہونے کے لئے ہماری سر زمین پر گھسا تھا، خود آپ کےبقول آپ مودی جی سے فون پر بات کرنے کے لئے کوشاں ہیں لیکن آپ کو اس حوالے سے مشکلات پیش آ رہی ہیں یعنی وہ اپنے بندے کو چھڑانے کے لئے زبانی درخواست کرنے کو بھی تیار نہیں۔ کیا ایسی صورت میں آپ کی یکطرفہ مہربانی ہماری کمزوری کی غمازی نہیں کرے گی؟ کیا جنگی ماحول کُلی ختم ہو گیا ہے؟ کیا مودی نے یہ مان لیا ہے کہ وہ اب پاکستان کی طرف کوئی میزائل یا جہاز روانہ نہیں کریں گے؟ جب تک مشترکہ دوستوں کے تعاون سے معاملہ مذاکراتی میز تک نہیں پہنچتا آپ بھی حوصلے سے کام لیں، اگر اس نوع کا کوئی فیصلہ کسی اور سیاسی جماعت نے کیا ہوتا تو آپ لوگوں نے آسمان سر پہ اٹھا لینا تھا۔ آخر میں ہم اپنی مسلح افواج بالخصوص ایئر فورس کے شاہینوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے بہترین جنگی پلاننگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کو یہ عزت دلوائی۔ بلا شبہ جنگوں میں کسی کی ہار جیت نہیں ہوتی البتہ انسانیت شکست کھا جاتی ہے۔