مودی کی جارحانہ سیاست امن کو خطرہ

March 12, 2019

میزبان:محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ:طلعت عمران

عکّاسی:اسرائیل انصاری

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ

پلواما واقعہ کسی سیاسی جماعت کی پشت پناہی کے بغیر نہیں ہو سکتا اوراس میں بی جے پی کے ملوث ہونے کی خبریں گردش کررہی ہیں، مودی اپنا اقتدار بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں،بھارتی وزیراعظم کے اس رویے سےاندرون ملک تو انہیں فائدہ پہنچ رہا ہے، لیکن بیرون ملک ان کے اس رویے پر بہت زیادہ تنقید کی جا رہی ہے۔ او آئی سی نے مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم پر بھارت کو دہشت گرد ریاست قرار دیا ، ہم دنیا کے سامنے اپنا بیانیہ نہیں پہنچا پا رہے،اس سلسلے میں ہمارے تھنک ٹینکس اور جامعات کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا،بھارتی پائلٹ کی رہائی سے اقوامِ عالم میں پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوا،بھارت سمندری راستے سے حملے کی جرأت نہیں کرے گا

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ

دونوں ممالک کی جانب سے ہتھیاروں کے استعمال کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں ایک بار پھر اس قسم کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں، عالمی برادری نہ صرف بھارت کے جارحانہ رویے سے چشم پوشی کر رہی ہے، بلکہ اس کی پشت پناہی بھی کر رہی ہے،

ڈاکٹر ہمابقائی

جس کی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا، پاکستان کے پاس جوابی کارروائی کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا، بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی سیاسی قیادت نے بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اورعالمی برادری نے پاکستانی مؤقف کو کسی حد تک تسلیم کیا، اس وقت بھارت ’’پری الیکشن موڈ‘‘ میں ہے اور مودی کی جنگ ہنسائی کا فائدہ کانگریس اٹھا رہی ہے،طاقتور ممالک کی سول سوسائٹی پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ تاثر کی جنگ میں پاکستان کو کامیابی حاصل ہوئی،او آئی سی کی قرارداد میں پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے لیے دہشت گردی کا لفظ استعمال کیا گیا اور یہ پاکستان کی اخلاقی فتح ہے

ڈاکٹر ہمابقائی

پاکستان نے جوابی کارروائی میں بھارت کے دو طیارے مار گرائے اور ایک پائلٹ کو گرفتار کیا، جو مودی کی ناکامی ہے اور اس ثبوت کو کوئی مسترد نہیں کر سکتا،دنیا کے سامنے ملک کا مثبت امیج پیش کرنا وزارتِ خارجہ کے ساتھ وزارتِ اطلاعات کی بھی ذمے داری ہے،

اکرام سہگل

اس وقت مودی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اگر وہ کچھ نہیں کرتے، تو بھارتی عوام انہیں نہیں چھوڑیں گے ، لیکن اگر وہ ردِ عمل دیں گے، تو کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا، حالیہ واقعات میں پاکستانی حکومت اور سیاسی قیادت نے دانش مندی اور تحمل کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ رائے عامہ پاکستان کے حق میں بن گئی

اکرام سہگل

رواں برس14فروری کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع، پلواما میں بھارتی فوج کے قافلے پر خود کش حملے کے بعد پاک، بھارت کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔ اگرچہ حملے کی ذمہ داری فوری طور پر جیش محمد نامی کالعدم تنظیم نے قبول کی، لیکن اس کے باوجود بھارت نے ثبوت پیش کیے بغیر ہی پاکستان پر الزام عاید کر دیا اور 26فروری کو رات کی تاریکی میں بھارتی فضائیہ نے پاکستان میں در اندازی کی، جس کا جواب اگلے ہی روز پاک فضائیہ نے دشمن کے دو جنگی طیاروں کو تباہ اور ایک پائلٹ، ابھے نندن کو گرفتار کر کے دیا، جسے بعد ازاں وزیر اعظم پاکستان، عمران خان کے حکم پر جذبۂ خیر سگالی کے تحت بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ تاہم، اس کے باوجود بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر واقع شہری علاقوں میں فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ یاد رہے کہ جنگ میں زندگی کے ساتھ سچ بھی کھو جاتا ہے ۔گزشتہ دنوں ’’پاک، بھارت کشیدگی، آگے کیا؟ ‘‘ کے موضوع پر آئی بی اے کراچی کے مین کیمپس میں منعقدہ جنگ فورم میں حقائق جاننے کی کوشش کی گئی۔ فورم کے مقررین میں آئی بی اے سے وابستہ بین الاقوامی تعلقات کی تجزیہ کار، ڈاکٹر ہما بقائی، سیاسی و دفاعی تجزیہ کار، ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ اور اکرام سہگل شامل تھے۔ اس موقع پر ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔

جنگ :اس وقت پاک، بھارت کشیدگی کس نہج پر ہے اور اس کا مستقبل کیا ہو گا؟

ڈاکٹر ہما بقائی :فی الوقت صورتحال خاصی مخدوش ہے۔ گزشتہ دنوں دونوں ممالک کی جانب سے ہتھیاروں کے استعمال کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں ایک بار پھر اس قسم کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ پاک، بھارت کشیدگی صرف دو ممالک کا مسئلہ نہیں رہی، بلکہ یہ افغان امن عمل اور پاک، چین راہداری سمیت پورے خطے کی ترقی سے جڑ گئی ہے، لیکن اس کے باوجود عالمی برادری نہ صرف بھارت کے جارحانہ رویے سے چشم پوشی کر رہی ہے، بلکہ اس کی پشت پناہی بھی کر رہی ہے، جس کی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔ ان حالات میں عموماً عالمی برادری فائر بریگیڈ کا کام انجام دیتی ہے اور جب بھی پر تشدد واقعات میں اضافہ ہوتا ہے، تو تبھی یہ حرکت میں آتی ہے۔ اس موقع پر خلیجی ممالک، امریکہ اور چین بھی فعال ہو جاتا ہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی برادری کب تک اس خطے میں صرف فائر بریگیڈ ہی کا کردار ادا کرتی رہے گی۔ آخر عالمی برادری کب تک دو جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے پر اسے کم کرنے کے بعد بھارت کو اس کے حال پر چھوڑتی رہے گی۔ یہ کسی صورت بھی امن کا نسخہ نہیں ہے۔ اس وقت پاک، بھارت تعلقات سے امریکہ، چین اور مشرقِ وسطیٰ کے مفادات وابستہ ہو چکے ہیں۔

جنگ:ہم امریکہ، چین اور خلیجی ممالک کو اپنا دوست قرار دیتے ہیں، لیکن وقت پڑنے پر یہ بھارتی مؤقف کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟

ڈاکٹر ہما بقائی :آپ کی بات کسی حد تک درست ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی جب پاک، بھارت کشیدگی عروج پر تھی، تو کسی نے بھی بھارتی رویے پر تنقید نہیں کی، بلکہ بارہا یہی کہا گیا کہ فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں اور طاقت کا استعمال نہ کریں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ پاکستان دفاعی پوزیشن میں ہے۔ اس مرتبہ تو پاکستان کے پاس جوابی کارروائی کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا، لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت نے بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ تاہم، اس بار عالمی برادری نے پاکستانی مؤقف کو کسی حد تک تسلیم کیا۔ اس وقت بھارت ’’پری الیکشن موڈ‘‘ میں ہے اور مودی کی جنگ ہنسائی کا فائدہ کانگریس اٹھا رہی ہے۔ اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد کانگریس اس رویے کا مظاہرہ نہیں کرے گی، جو اس وقت مودی کا ہے۔

جنگ :کیا اس صورتحال میں پاکستان تنہا نہیں دکھائی دیا۔ مودی نے مذاکرات کے لیے ’’ڈو مور‘‘ کی شرط عائد کی ہے اور پھر او آئی سی میں بھی پاکستان نے شرکت نہیں کی؟

ڈاکٹر ہما بقائی :’’ڈور مور‘‘ سن سن کر تو ہمارے کان پک گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی برادری ہماری کوششوں اور قربانیوں کا اعتراف نہیں کر رہی۔ اگرچہ عالمی طاقتیں بھارت کی ناراضی کے ڈر سے اس پر تنقید سے گریز کر رہی ہیں، لیکن ان ممالک کی سول سوسائٹی پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاثر کی جنگ میں پاکستان کو کامیابی حاصل ہوئی۔ امریکہ، چین اور مشرقِ وسطیٰٰ تینوں ہی کے لیے بھارت اہمیت کا حامل ملک ہے اور جب او آئی سی میں بھارتی وزیرِ خارجہ، سشما سوراج کو مدعو کیا گیا، تو اس سے پاکستان کو تکلیف پہنچی، لیکن اس کی قرارداد میں پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے لیے دہشت گردی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہ پاکستان کی اخلاقی فتح ہے۔

جنگ :آئندہ دنوں پاک، بھارت تنائو مزید بڑھے گا یا اس میں کمی واقع ہو گی؟

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ :جب پلواما کا واقعہ ہوا، تو اس وقت سعودی ولی عہد دورۂ پاکستان پر تھے اور ایسے موقع پر پاکستان کسی قسم کی مہم جوئی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ حملہ دونوں ممالک کے غیر ریاستی عناصر میں سے کسی نے کروایا ہو۔ سامنے آنے والے شواہد سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کارروائی کسی سیاسی جماعت کی پشت پناہی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو گردش کر رہی ہیں کہ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے چند افراد نے اس کارروائی کے لیے رقم فراہم کی۔ اگر یہ ویڈیو حقیقی ثابت ہو جاتی ہے، تو مودی مزید مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔ مودی ایک ایسے شخص ہیں کہ جو اپنا اقتدار بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

جنگ :پاکستان نے جذبۂ خیر سگالی کے طور پر بھارتی پائلٹ، ابھے نند کو بھارت کے حوالے کیا اور پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے بھارتی ہم منصب سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی، تو یہ یک طرفہ کوششیں ہمارے لیے کتنی سود مند ثابت ہوں گی؟

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ :عمران خان نے تین مرتبہ مودی کو فون کیا، لیکن انہوں کال وصول نہیں کی، حالانکہ یہ ان کا فرض بنتا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مودی کس قسم کی ذہنیت کے مالک ہیں اور ان پر اس وقت کتنا دبائو ہے۔

جنگ:کیا اس سےمودی کو سیاسی طور پر فائدہ پہنچے گا؟

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ :اندرون ملک تو انہیں فائدہ پہنچ رہا ہے، لیکن بیرون ملک ان کے اس رویے پر بہت زیادہ تنقید کی جا رہی ہے۔ او آئی سی نے مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم پر بھارت کو دہشت گرد ریاست قرار دیا ۔

جنگ:لیکن دہشت گرد ریاست کا الزام تو ہم پر عائد کیا جا رہا ہے اور ایف اے ٹی ایف میں ہم خطرے میں ہیں؟

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ :اس کا سبب یہ ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اپنا بیانیہ نہیں پہنچا پا رہے۔ یہ ہماری وزارتِ خارجہ اور سفارتکاروں کی ذمے داری ہے۔ دنیا بھر میں موجود ہمارے سفارتکاروں میں بعض ایسے افراد بھی شامل ہیں کہ جنہیں سیاسی بنیادوں پر تعینات کیا گیا ہے۔ ابتدا میں سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگانے کا الزام بھی پاکستان پر عائد کیا گیا تھا، لیکن جب اس واقعے کی تحقیقات ہوئیں، تو یہ بات سامنے آئی کہ اس میں آر ایس ایس ملوث تھی۔ یاد رہے کہ مودی بھی آر ایس ایس کا رکن ہے۔ اسی طرح ممبئی حملے کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کو بھی قتل کر دیا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ اس واقعے میں بھی بھارتی ریاست ہی ملوث ہے۔

جنگ :ہم دنیا کو یہ کیسے یقین دلائیں کہ ہم ایک امن پسند قوم ہیں؟

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ :اس سلسلے میں ہمارے تھنک ٹینکس اور جامعات کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

جنگ:مستقبل میں پاک، بھارت کشیدگی مزید بڑھے گی یا اس میں کمی واقع ہو گی؟

اکرام سہگل :میں سب سے پہلے ممبئی حملوں پر بات کرنا چاہوں گا۔ جرمنی کے ایک مصنف نے 800صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے ، جس میں بھارت کی جانب سے پیش کیے گئے ہر ثبوت کو مسترد کیا گیا ہے، لیکن ہم نے اس کتاب کی تشہیر ہی نہیں کی، جو ہماری ناکامی ہے۔ دنیا کے سامنے ملک کا مثبت امیج پیش کرنا وزارتِ خارجہ کے ساتھ وزارتِ اطلاعات کی بھی ذمے داری ہے۔ میں نے یہ بات سابق وزیرِ اطلاعات، مریم اورنگزیب سے بھی کہی، لیکن انہوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا۔ پاکستان نے جوابی کارروائی میں بھارت کے دو طیارے گرائے اور ایک پائلٹ کو گرفتار کیا، جو مودی کی ناکامی ہے اور اس ثبوت کو کوئی مسترد نہیں کر سکتا۔ دیگر الزامات کے علاوہ بھارت نے یہ الزام بھی عاید کیا کہ ایف 16طیارے نے ہیلی کاپٹر گرایا اور مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ایک اینکر نے بھی ایک بھارتی چینل پر یہی بات کہی۔ یعنی ہمارے اینکر تک ان کے پروپیگنڈے میں آ گئے۔ میں ہائبرڈ وار فیئر پر لیکچرز دیتا رہتا ہوں۔ فیک نیوز اور ڈسٹورٹڈ نیوز بھی اس میں شامل ہیں اور بھارت فالس فلیگ آپریشن میں مہارت رکھتا ہے۔ اس وقت مودی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر وہ کچھ نہیں کرتے، تو بھارتی عوام انہیں نہیں چھوڑیں گے ، لیکن اگر وہ ردِ عمل دیں گے، تو کشیدگی بڑھتی رہے گی۔ تاہم، حالیہ واقعات میں پاکستانی حکومت نے بڑی دانش مندی اور تحمل کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے رائے عامہ پاکستان کے حق میں بن گئی۔

جنگ :کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے عالمی دبائو کے تحت بھارتی پائلٹ کو رہا کیا؟

اکرام سہگل :اس بات میں کوئی صداقت نہیں۔ پاکستان نے جذبۂ خیر سگالی کے تحت بھارتی پائلٹ کو رہا کیا۔ میں یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان نے اپنی جوابی کارروائی میں اس مقام کو بھی نشانے پر لے لیا تھا کہ جہاں انڈین آرمی چیف پریزنٹیشن دے رہے تھے اور اس کا مقصد صرف یہ پیغام دینا تھا کہ پاک فوج یہ تک جانتی ہے کہ اس وقت بھارت کا آرمی چیف کہاں موجود ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی :کلوز کیمرا بریفنگ اورپارلیمنٹ میں یہ بتایا گیا کہ بھارت پاکستان پر میزائل حملہ کرنے والا تھا، لیکن پاکستان کی جانب سے اپنائی گئی حکمتِ عملی کی وجہ سے بھارت نے حملہ نہیں کیا۔

فلک ناز :عموماً جب بھی اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، تو ریاست کی جانب سے ایک متذبذب بیانیہ سامنے آتا ہے، لیکن اس مرتبہ ایک متفقہ بیانیہ سامنے آیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پر امن تعلقات کے ساتھ تجارتی تعلقات کس طرح قائم کیے جا سکتے ہیں؟

ڈاکٹر ہما بقائی :پاکستان اس وقت جیو اکنامکس کی جانب راغب ہے اور روابط بڑھانے کی بات کر رہا ہے۔ پاکستان کو مغربی و مشرقی دونوں سرحدوں پر اپنے تجارتی روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تاہم، حالیہ کشیدگی کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کا تجارتی حجم مزید کم ہو گیا ہے۔ پاک، بھارت تنائو کی وجہ سے پورے خطے کے سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی امکانات یرغمال بن گئے ہیں اور بھارت کے جارحانہ رویے کے سبب اس خطے سے وابستہ امریکہ اور چین کے مفادات پر بھی زد پڑ رہی ہے۔

اکرام سہگل :فوری طور پر تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مشرقی پنجاب کے کسان متاثر ہو رہے ہیں۔

عتیق الرحمٰن :میں ایک معاشی تجزیہ کار ہوں۔ اس وقت تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے سے سب سے زیادہ بھارت متاثر ہو رہا ہے۔ البتہ پاکستان پر یہ فرق پڑا ہے کہ واہگہ بارڈر سے اس کے سیمنٹ سے بھرے کنٹینرز واپس آ گئے۔ اس وقت بھارتی کی سبزیاں اور کپاس پڑے پڑے برباد ہو رہی ہے، لیکن پاک، بھارت کشیدگی سے قطع نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا پاکستان کس طرح اپنی آمدنی میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کر سکتا ہے؟ تاہم، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں ہی پر دوبارہ ٹیکس کا بوجھ لاد دیا جائے۔

اکرام سہگل :ہمیں صرف ضروری اشیا ہی درآمد کرنی چاہئیں، جب کہ ہم مکھن، انڈے، دودھ اور پانی تک درآمد کر رہے ہیں۔ ہمیں غیر ضروری اشیا کی درآمد روک کر بھی بھارت پر دبائو بڑھانا چاہیے۔

ڈاکٹر ہما بقائی :بھارت کی پاکستان مخالف پالیسی کا ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ پاکستان کی معیشت کو اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ یہ اس کے لیے چیلنج نہ بنے۔

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ :بھارت کو آلو کی برآمدات بند ہونے سے ہمارا کسان بھی متاثر ہو رہا ہے۔

محمد مشرف شہزاد :کیا امریکہ کے انخلا کے بعد پاکستان اور بھارت افغانستان میں پراکسی وار کے لیے تو تیاری نہیں کر رہے؟ نیز، کیا امریکہ اس خطے میں کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے یا اسے کم کر رہا ہے؟

ڈاکٹر ہما بقائی :بھارت کے چین کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات مستحکم ہیں اور امریکہ کا کنزیومر ازم چین کے بغیر چل نہیں سکتا۔ بھارت اس وقت جھنجھلاہٹ کا شکار ہے۔ اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے افغانستان میں جگہ حاصل کی تھی، لیکن افغان امن عمل میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے اور اگر طالبان ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس کا بہت زیادہ امکان ہے، تو بھارت کو ایک بار پھر دفاعی پوزیشن اختیار کرنی پڑے گی۔

ثوبیہ کمال :کیا پاک، بھارت کشیدگی صرف ان دونوں ممالک ہی تک محدود ہے یا یہ کسی گریٹ گیم کا حصّہ ہے اور مودی اس کا مہرا ہے؟

ڈاکٹر ہما بقائی :عائشہ جلال نے ایک کتاب لکھی ہے، جس کے آغاز ہی میں انہوں نے پاکستان کو Conspiristan قرار دیا ہے۔ آپ کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

اکرام سہگل :میں عائشہ جلال کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا، کیوں کہ ہر ملک ہی میں سازشی مفروضے موجود ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت نے روزِ اول ہی سے دو قومی نظریے کو تسلیم نہیں کیا۔ اگرچہ انہوں نے بنگلہ دیش بنایا، لیکن اس کے باوجود بھی دو قومی نظریہ قائم ہے۔ ہم بنگلہ دیش کو بھارت کا غلام کہتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں پاک آرمی کے ساڑھے تین انفنٹری ڈویژنز تھے اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہیں تھے، لیکن آج بنگلہ دیش کے 7انفنٹری ڈویژنز اور دو آرمرڈ بریگیڈز ہیں، تو کوئی ان سے پوچھے کہ وہ کس سے جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔ دو قومی نظریے کے علاوہ ابھی بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک اور مسئلہ ابھر کر سامنے آنے والا ہے اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ کم و بیش 20لاکھ بنگلا دیشی آسام میں چلے گئے ۔ اب آسام نے یہ قانون منظور کیا ہے کہ مقامی باشندوں کے علاوہ کوئی بھی شہریت حاصل نہیں کر سکتا، تو یہ 20لاکھ بنگلہ دیشی غیر ملکی بن گئے۔ کیا بنگلہ دیشی اس بات کو تسلیم کر لیں گے۔ وہ کبھی یہ تسلیم نہیں کریں گے۔

محب :پاک، بھارت کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، تو یہ مشکلات کیسے دور ہوں گی؟

ڈاکٹر ہما بقائی :مودی اور بی جے پی کے جارحانہ رویے کی وجہ سے اس وقت سب سے زیادہ نقصان خود بھارت کو پہنچ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت کی سماجی بنت، سیکولر ازم اور آئین تباہ ہو رہا ہے اور جمہوریت پر سمجھوتا کیا جا رہا ہے۔ انڈین سول سوسائٹی کو اس صورتِحال کا فوری طور پر تدارک کرنا چاہیے، کیوں کہ ہم اس کے نتائج بھگت چکے ہیں۔

اکرام سہگل :ہندو مذہب ذات پات پر مبنی ہے۔ ایک اچھوت کسی برہمن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتا، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ وہاں تقریباً 17کروڑ مسلمان اور 20کروڑ دلِت بستے ہیں اور اس کے علاوہ 10کروڑ قبائلی رہتے ہیں اور ان سب کو اچھوت شمار کیا جاتا ہے۔ اس وقت بھارت میں 20کروڑ اونچی ذات کے ہندو باقی بھارتی شہریوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مشرقی اور جنوبی بھارت کے عوام ہندو، مسلم فسادات میں نہیں پڑنا چاہتے اور نہ ہی وہاں کبھی اس قسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ پھر سکّھوں سے بھی ان کے اختلافات ہیں اور پلواما واقعے میں مارے جانے والے 34بھارتی فوجی سِکھ تھے۔ سِکھوں کا کہنا ہے کہ ہمیں قربان کیا گیا۔

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ :سرحد کے آر پار دونوں ممالک کے باشندوں کے رشتے دار بستے ہیں اور بھارت میں انتخابات ہونے تک یہ صورتِحال برقرار رہے گی۔ تاہم، انتخابات کے کچھ عرصے بعد حالات معمول پر آ جائیں گے اور دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ بھی شروع ہو جائے گی، لیکن اس کا دارومدار انتخابات کے نتائج پر بھی ہو گا۔

ڈاکٹر ہما بقائی :تاہم، بھارت نے لائن آف کنٹرول پر جس انداز سے اپنے فوجی دستے صف آراء کیے ہیں اور جس طرح وہاں جنگی ہتھیاروں سے فائرنگ کی جا رہی ہے، وہ خطرناک ہے اور اس کے جواب میں پاکستان بھی اسی قسم کے ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔

اکرام سہگل :پچھلے دنوں مودی نے یہ تسلیم کیا کہ اگر ان کے پاس رافیل طیارے ہوتے ، تو اس وقت ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔

ڈاکٹر ہما بقائی :دلچسپ بات یہ ہے کہ کارگل کی جنگ کے بعد بھی بھارت نے یہی کہا تھا کہ ہماری فوج ٹھیک طور پر مسلح نہیں ہے اور ہمیں اسےدوبارہ مسلح کرنا ہے۔ حال ہی میں مودی نے ایک اسلحہ فیکٹری کا افتتاح کیا اور روس سے آبدوزوں کی خریداری کا معاہدہ کیا۔ اگرچہ بھارت ہتھیاروں کی خریداری کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، لیکن اس کے باوجود وہاں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ہتھیاروں کی جنگ میں پاکستان اسے پیٹ دیتا ہے۔

سرمد:کیا ہماری سرزمین دہشت گردوں سے پاک ہو چکی ہے؟

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ : اگرچہ ریاست کے ہر ادارے کو ان کا قلع قمع کرنا ہے، لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس سلسلے میں پاک فضائیہ پوری طرح تیار ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی :ہمیں اس مسئلے کو صرف بھارت کے نقطۂ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ ہمیں خود اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ چین کی بھی یہ خواہش ہے کہ ہم اپنی سرزمین کو غیر ریاستی عناصر سے پاک کریں۔

عبداللہ ظاہر :پاکستان دنیا کے سامنے اپنا بیانیہ مؤثر انداز میں پیش نہیں کر پا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھی روس کے سرکاری ٹی وی پر پاکستان ہی کو پلواما واقعے کا ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ حالیہ کشیدگی میں صرف ترکی ہی نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی، جب کہ باقی ممالک نے دونوں ممالک کو مذاکرات کے ذریعے تنازعات طے کرنے کا مشورہ کر دیا اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھی بھارت ہی کے بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں، تو پاکستان کو اپنا بیانیہ پیش کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟

ڈاکٹر ہما بقائی :میں اکثر یہ جملہ کہتی ہوں کہ بین الاقوامی تعلقات میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آپ کی کہانی سچی ہے یا جھوٹی، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ فروخت ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ جملہ میرا نہیں، بلکہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا ہے۔ پاکستان کی کہانی ابھی فروخت ہونا شروع ہوئی ہے، لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت کی پروپیگنڈا مشین بہت طاقتور ہے اور نئی دہلی دنیا کے لیے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس ایک واقعے سے بھارت کی اہمیت ختم نہیں ہوئی۔ لہٰذا، یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ البتہ اس مرتبہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستان کے رد عمل کو جائز تسلیم کیا گیا۔ البتہ چونکہ میں نے روسی چینل نہیں دیکھا، تو اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتی۔

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ :اگر روسی چینل یہ کہہ رہا ہے، تو دوسری جانب روس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالث بننے کی پیشکش بھی کی ہے۔ نیز، روسی وزیر خارجہ جلد ہی پاکستان کا دورہ کریں گے۔ یاد رہے کہ سی پیک کی وجہ سے سب سے زیادہ فائدہ روس کو ہو گا۔ سی پیک کی صورت میں اس کا گرم پانیوں تک پہنچنے کا دیرینہ خواب پورا ہو جائے گا اور اسے کچھ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔

اکرام سہگل :ہم نجی شعبے کی شمولیت کے بغیر اپنی خارجہ پالیسی کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔ میں گزشتہ 17برس سے ورلڈ اکنامک فورم میں بریک فاسٹ دے رہا ہوں اور اس مد میں ہماری ٹھیک ٹھاک رقم خرچ ہوتی ہے۔ ایک موقعے پر کسی صاحب نے کم و بیش 250افراد کی موجودگی میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان سے کہا کہ اکرام سہگل اس قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، تو حکومت کو بھی انہیں فنڈز فراہم کرنے چاہئیں۔ اس پر شاہد خاقان عباسی نے جو جملہ کہا، وہ میں نے اور ڈاکٹر ہما بقائی نے اپنے پاس تحریری شکل میں محفوظ کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا، تو جو کچھ یہاں ہو رہا ہے، وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ یعنی پرائیویٹ سیکٹر جو کچھ کر رہا ہے، اسے کرنے دیں۔ اگر گورنمنٹ نے فنڈز دینا شروع کر دیے، تو یہ بریک فاسٹ کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ دنیا بھر میں کاروباری وفود اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر دوسری عالمگیر جنگ میں امریکی صدر، روز ویلٹ کے گہرے دوست، ہیری ہاپکنز نے برطانیہ کی بہت زیادہ مدد کی تھی۔ اگر ہمیں پاکستان کا بیانیہ فروخت کرنا ہے، تو ہمیں نجی شعبے کی خدمات ضرور حاصل کرنی ہوں گی۔

آصف پراچہ :پاک، بھارت کشیدگی کے دوران پاک نیوی کتنی اہمیت رکھتی ہے؟

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ: بھارت کا زیادہ تر تیل خلیج سے آتا ہے اور خلیج بالکل ہمارے سامنے ہے اور بھارت جانتا ہے کہ پاکستان اس کے سمندری راستوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت سمندری راستے سے حملے سے باز رہتا ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی :بھارت کی سمندری حدود میں بہت زیادہ آمدو رفت رہتی ہے اور اگر سمندر میں جنگ چھڑتی ہے، تو یہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہی محدود نہیں رہے گی اور پھر یہ سلسلہ بہت آگے تک جائے گا۔

اکرام سہگل :چونکہ بھارت اس کشیدگی کو اپنی اور پاکستان کی حد تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے، لہٰذا اس نے سمندر سے حملہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔

ڈاکٹر ہما بقائی :اگلے 45روز بہت سخت ہیں۔ اس عرصے میں ہماری پوری فوج ریڈ الرٹ رہے گی اور رہنی بھی چاہیے۔

ارشد احمد :میرا پہلا سوال یہ ہے کہ بھارتی پائلٹ، ابھے نندن کی رہائی پر پاکستان میں ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کی سمندری حدود میں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر دریافت کیے گئے ہیں اور ایک بین الاقوامی کمپنی، ایگزون موبل وہاں کام کر رہی ہے اور اس نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ وہاں 20سے 30برس کے ذخائر ہو سکتے ہیں، لیکن اگر یہ خطہ خطرات کی زد میں رہتا ہے، تو کیا یہ سرگرمی بھی خطرات کی زد میں نہیں آجائے گی؟

ڈاکٹر ہما بقائی :میرا ماننا ہے کہ بھارتی پائلٹ کی رہائی بہت اچھا اقدام تھا اور اس کی ایک سے زاید وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ابھے نندن کو زیادہ دیر تک تحویل میں رکھنا ہمارے لیے مشکل ہو جاتا اور ہم نے اسے جلد رہا کر کے اچھا فیصلہ کیا۔ اپنے پائلٹ کی رہائی پر بھارت جو کچھ کہہ رہا ہے، اس کے پاس اس کے علاوہ کہنے کے لیے کچھ ہے بھی نہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہے کہ اس نے مذاکرات کے بغیر ہی اپنا پائلٹ چھڑوا لیا۔ جن افراد کو کیوبن میزائل کرائسزیاد ہے، تو انہیں یہ بھی یاد ہو گا کہ دشمن کو فیس سیونگ دینا پڑتی ہے اور اتنے اہم تصادم میں اگر آپ دشمن کو فیس سیونگ نہ دیں، تو تصادم میں تیزی آتی ہے۔ لہٰذا، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بھارتی پائلٹ کو رہا کر کے پاکستان نے بھارت کو فیس سیونگ دی۔

اکرام سہگل :اگر ہم جغرافیہ دیکھیں، تو پتہ چلے گا کہ ایگزون موبل جہاں کنویں کھود رہی ہے، وہ بالکل اسی جگہ پر واقع ہیں کہ جہاں بحری جہاز خلیجی پورٹ سے انڈین پورٹ تک سامان لے کر آتے ہیں، تو کیا بھارت اس مقام کو متنازع بنانے کی کوشش کرے گا۔ یہ بات درست ہے کہ ہمیں تیل نہیں ملے گا، لیکن خلیجی ممالک اور ایران و عراق سے بھارت کو ہونے والی تیل کی فراہمی بھی متاثر ہو گی۔ لہٰذا، بھارت کے لیے یہ مقام بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ بھارت نے سمندر میں اس لیے بھی مہم جوئی کی کوشش نہیں کی کہ اگر اس نے ہمارا محاصرہ کیا، تو وہ خود کہاں جائے گا۔ پھر ہماری پاک فضائیہ کی بھی اتنی استعداد ہے کہ وہ بھارتی بحری جہازوں کو قابو میں کر لے اور ہماری استعداد ہی کی وجہ سے بھارت کبھی ہماری سمندری حدود میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کرے گا۔

ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ :میں پہلے بھارتی پائلٹ کی رہائی پر بات کروں گا۔ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کارگل کی جنگ میں ایک بھارتی طیارہ گرکر تباہ ہوا تھا اور اس کا پائلٹ بھی گرفتار ہوا تھا اور اسے بھی ہم نے چند روز بعد رہا کر دیا تھا۔ کارگل کی جنگ کے دوران کیا گیا فیصلہ بھی درست تھا اور یہ فیصلہ بھی درست ہے۔ بھارتی پائلٹ کو اس لیے جلد رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ اس سے اقوامِ عالم میں پاکستان کی ساکھ بہتر ہوتی اور ایسا ہی ہوا۔ اب جہاں تک سمندری حدود کی بات ہے، تو اگر وہاں جنگ چھڑ گئی، تو اسے روکنا آسان نہیں ہو گا۔ ہمارے پاس ہارپون نامی ایک مؤثر ہتھیار موجود ہے، جو بھارتی بحریہ کے عزائم کو خاک میں ملا سکتا ہے۔

رافع منصوری :ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ تاثر کی جنگ میں پاکستان کی جیت ہوئی اور پہلی مرتبہ پاکستان کے مؤقف کو جائز تسلیم کیا گیا، لیکن بھارتی ذرایع ابلاغ ابھی تک مودی کے مؤقف ہی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، تو پاکستان کا بیانیہ بھارتی عوام کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے؟

اکرام سہگل :بھارت کے روایتی میڈیا پر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے، وہ بھارتی عوام کے لیے ہے، چاہے وہ اس پر یقین کریں یا نہ کریں۔ میری اطلاعات کے مطابق بھارت کے سوشل میڈیا صارفین نے اپنے اخبارات اور چینلز کو جواب دینا شروع کر دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنا بیانیہ موجود ہے، لیکن ہمیں اسے بیچنا نہیں آتا۔ اس مرتبہ ہم نے کھوکھلے دعووں کے بہ جائے ٹھوس شواہد پیش کیے اور پہلی مرتبہ تاثر کی جنگ میں کامیابی حاصل کی اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

ڈاکٹر ہما بقائی :بھارت بھی ہماری طرح اسے اپنی فتح قرار دے رہا ہے، جو یقیناً مضحکہ خیز ہے، لیکن یہ تو تاریخ ہی ثابت کرے گی کہ کون جھوٹا تھا اور کون سچا۔

عبدالرحمٰن :پاکستان کے برعکس بھارت میں دفاعی معاملات پر سیاست چمکائی جا رہی ہے اور اس پر اس کی سول اور ملٹری بیورو کریسی اور سول سوسائٹی خاموش ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب بھی مودی کی فکر کے قیدی بن گئے ہیں؟

اکرام سہگل :سیاست چمکانے کا اہم سبب تو یہ ہے کہ وہاں چند ہفتوں بعد انتخابات ہونے والے ہیں، لیکن وہاں ارون دھتی رائے سمیت دیگر دانشوروں نے مودی کی سوچ سے اختلاف کیا ہے۔ حتیٰ کہ راہول گاندھی اور اپوزیشن کی 21جماعتیں بھی مودی کی سوچ سے متفق نہیں۔ راہول گاندھی نے بالکل وہی بات کہی، جو پاکستان کہہ رہا ہے کہ مودی اپنی سیاست کی خاطر فوج کو استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اروند کجری وال نے بھی کھل کر اختلاف کیا ۔

ڈاکٹر ہما بقائی :ریاستی انتخابات میں شکست کی وجہ سے مودی اس وقت جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں اور وہ انتخابات سے پہلے ایک بار پھر مہم جوئی کر سکتے ہیں۔ اسی لیے میرا یہ ماننا ہے کہ اگلے چند ہفتوں کے دوران ہماری فوج کو بہت زیادہ چوکنا رہنا پڑے گا۔

ثوبیہ کمال :اس ساری صورتِ حال میں عمران خان کے کردار کے بارے میں کیا کہیں گے؟

اکرام سہگل :عمران خان نے بہت اچھا کردار ادا کیا، بلکہ میں تو یہ کہنا چاہوں گا کہ ان واقعات نے ان کی حکومت کو مشکلات سے نکالنے میں مدد کی، جو اسے اپوزیشن کی جانب سے درپیش تھیں۔

جنگ :ہماری خارجہ پالیسی میں عوامی نمایندوں کا کتنا کردار ہوتا ہے؟

ڈاکٹر ہما بقائی :ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ خارجہ پالیسی میں سیاسی بالادستی ہے یا فوجی بالادستی۔ یہ پاکستان کی بالادستی ہے۔

اکرام سہگل :حکومت کو پارلیمنٹ ہی نے او آئی سی میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا اور پارلیمنٹ ہی نے یمن کی جنگ میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ امریکہ سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں کہ جو قومی سلامتی کے معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کی تجاویز پر عمل نہ کرتا ہو۔ امریکا کا نیشنل سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ اس کے ہوم سیکورٹی ڈپارٹمنٹ پر حاوی ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں ایم آئی فائیو اور ایم آئی سکس کی اپنی ایک اہمیت ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی :امریکہ کو افغانستان میں آئے 17برس ہوئے ہیں اور وہاں پینٹاگون کا کردار بڑھ گیا، جب کہ ہم تو گزشتہ 70برس سے بھارت کو بھگت رہے ہیں، تو ایک ادارے کا کردار کیوں نہیں بڑھے گا۔ عمران خان نے سول بالادستی کو پروان چڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری قوم آرمی چیف کی بجائے وزیر اعظم کی تعریفیں کر رہی ہے اور عمران خان کی حکومت نے خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی کامیابی حاصل کی۔