ایسی محبت سے ہم باز آئے

March 19, 2019

عثمان بزدار جب وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے بتایا ’’الیکشن کے دنوں میں کہیں سونا پڑ گیا تو میں نے پتھر سر کے نیچے رکھ کر نیند پوری کرلی‘‘۔ ’’وزیراعلیٰ ہائوس کے ایک کمرے میں ہم بچوں سمیت سوتے ہیں بچے فرش پر بستر لگا لیتے ہیں‘‘۔ ’’کھانا کھاتے ہیں تو ڈرائیور کو بھی اپنے ساتھ بٹھا لیتے ہیں‘‘۔ یہ جملے سیدھے دل میں پیوست ہوئے اور ہم عثمان بزدار کے عشق میں گرفتار ہو گئے۔ ہم پر کیا موقوف

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

صد شکر کہ جلد اِس عشقِ ناتمام کا نشہ تمام ہو گیا۔ نشہ اترنے کا عمل آہستہ آہستہ جاری تھا اچانک ایک ’’بل‘‘ کا قصہ شروع ہوا۔ وہ بل تو لیموں کی مثال ثابت ہوتا۔ نشہ دم بھر میں ہرن ہو گیا۔ اُس بل پر اب تک بہت بحث ہو چکی ہے۔ بہرحال وہ بل پاس ہوا یا نہیں پنجاب اسمبلی میں پیش ضرور ہوا۔ اُس میں اور تو جو کچھ تھا، تھا مگر وزیراعلیٰ کے لئے مراعات کا صفحہ دیکھنے کی چیز ہے۔ چاہے اب پنجاب حکومت اسے ٹائپنگ ’’مس ٹیک‘‘ قرار دے، ’’مس انڈر اسٹیڈنگ‘‘ کہے یا کوئی اور ’’مس‘‘۔ یہ تو وہ مقام ہے جہاں ایک مس، مس ہوئی تو دوسری مس جگہ سنبھالنے کے لئے موجود تھی، کیا کہوں وزیراعلیٰ کی قسمت پر کہ مراعات بھرا وہ کاغذ کسی مس گائیڈڈ میزائل کی طرح واپس اُس کے دفتر میں جا گرا۔ مس لیڈنگ کی تمام تر عشوہ طرازیوں کے باوجود یہ بات عمران خان کو معلوم ہو چکی ہے کہ یہ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کا وہ پہلا صفحہ ہے جسے وزیراعلی عثمان بزدار نے پورے انہماک سے تین مرتبہ پڑھا ہے۔ اس سے پہلے کبھی کسی کاغذ کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ اسی کی وساطت سے وزیراعلیٰ کو زندگی بھر کے سرکاری بنگلہ، فرنیچر، کارپٹ، قالین، بنگلے کی تزئین و آرائش کا سامان، بلٹ پروف گاڑی، مع پٹرول، ڈرائیور، نوکر، چاکر، بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بل، آگے پیچھے ہوٹر بجاتی ہوئی پولیس کی گاڑیاں ملنا تھیں۔ ’حسرت اُن غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے‘۔

یہ تمام وہ مراعات ہیں جو صدرِ مملکت کو ملازمت کے اختتام پر ملا کرتی ہیں، صدر تارڑ انہی کے توسط سےجی او آر ون کے سب سے شاندار گھر میں قیام پذیر ہیں، صدر ممنون نے تو دورانِ صدارت ہی کراچی کے بڑے خوبصورت سرکاری مکان کی تزئین و آرائش کا کام مکمل کرا لیا تھا، اب اسی میں رہ رہے ہیں۔ میں نے بل پیش کرنے والے ارکان سے پتا کرایا کہ ایسا حیرت انگیز خواب انہوں نے کیسے دیکھا، انہیں کیا ضرورت پڑ گئی تھی کہ انہوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ جب عثمان بزدار وزیراعلیٰ نہیں رہیں گے تو کہاں رہیں گے۔ معلوم ہوا خود بکریاں چرانے والے دلِ خانہ بدوش میں یہ خواہش جاگی۔

بے شک وزیراعلیٰ پنجاب اپنے مستقبل سے متعلق پریشان ہیں، انہیں ہونا بھی چاہئے کیونکہ ہر طرف یہی افواہیں گرم بلکہ سرگرم ہیں کہ اُن کی ملازمت کے باب میں الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ بیچارے اب دنوں کے مہمان ہیں عمران خان نے تو ایک عام آدمی وزیراعلیٰ بنایا تھا مگر افسوس کہ نہ وہ وزیراعلیٰ بن سکا نہ عام آدمی رہا۔

سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے رشتہ دار کئی گھنٹے سیون کلب روڈ پر آکر بیٹھے رہے مگر وزیراعلیٰ نے اُن سے ملاقات بھی مناسب نہ سمجھی۔ اپنے گھر میں بیٹھے رہے۔ اس طرح کے کئی اور واقعات بھی پیش آئے، ایک دن ایک پولیس آفیسر کا انٹرویو کرنا تھا۔ انٹرویو لینے کے لئے وزیراعلیٰ، آئی جی اور چیف سیکریٹری کے درمیان کرسی نشیں تھے جیسے پولیس آفیسر اندر داخل ہوا تو وزیراعلیٰ سر کہتا ہوا اپنی کرسی سے اٹھا اور اسے گلے لگا لیا۔ انٹرویو کے لئے آنے والے کا ایسا استقبال دیکھ کر آئی جی اور چیف سیکریٹری حیرت سے ششدر رہ گئے حالانکہ وہ فطرتاً افسروں کی عزت افزائی کے قائل ہیں۔بعض اوقات ان کو ڈیپریشن سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ تقاریب میں اس لئے نہیں جاتے کہ وہاں کوئی غلطی سرزد نہ ہو جائے۔عثمان بزدار کےایک قریبی دوست جو شہباز شریف کےبھی نزدیک رہے تھے، وزیراعلیٰ بننے کے بعد ہر جگہ عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ نظر آتے تھے اور عثمان بزدار کو بتاتے تھے کہ ’’اب یہ کہو۔ اب یہ بولو‘‘۔ یہ مشورے میڈیا کے کیمروں میں ریکارڈ ہو جاتے مگر انہیں کوئی پروا نہ تھی۔ انہوں نے اپنے لئے ایک وزارت کا انتخاب کیا۔ تھوڑا تجربہ پہلے ہو چکا تھا۔ جب ان پر کرپشن کے الزامات عمران خان کے سامنے آئے تو انہوں نے کہا کہ اسے فوری طور پر ہٹا دیا جائے مگر وزیراعلیٰ نے ہمت سے کام لیتے ہوئے اسے ہٹانے کیلئے دو ماہ کی مہلت مانگی تو عمران خان کو ایسا لگا جیسے عثمان بزدار کےنزدیک کرپشن کوئی بڑی بات ہی نہیں۔ عمران خان نے پہلی بار سوچا کہ عثمان بزدار والا فیصلہ غلط ہو گیا ہے اور غلطی پر ڈٹے رہنا احمقوں کا کام ہے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے والا بل اتحادی جماعت کے ارکان کی طرف سے آیا تھا، اس سے عثمان بزدار کا کوئی تعلق نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عثمان بزدار کہاں سے پی ٹی آئی کے کوئی کارکن تھے۔ وہ بھی تو اتحادی جماعت کے ایم پی اے تھے۔ ایک اتحادی جماعت کے لیڈر چوہدری پرویز الٰہی نے اُن سے مکہ مکرمہ جاکر ملاقات کی۔ اللہ کے گھر میں راز و نیاز کی کیا باتیں ہوئیں یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہی ملاقات وزیراعلیٰ کے جوڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔