کراچی، اب بھی سیاسی قیادت کا متلاشی

April 01, 2019

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اقتدار میں آنے سے قبل گزشتہ سال جولائی میں ملک میں حقیقی تبدیلی لانے کے لئے 100 دنوں کا جو پروگرام دیا تھا، اس کا ایک نکتہ یہ تھا کہ کراچی کی شکل بدل دی جائے گی۔ اس کے لئے انگریزی میں ’’ٹرانسفارمیشن آف کراچی‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ کراچی کی شکل بدلنے کے لئے100دنوں کے اندر تو کوئی اقدامات نہیں ہوئے، البتہ ’’کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی‘‘ تشکیل دی گئی، جو پی ٹی آئی کے ان ارکان قومی وصوبائی اسمبلی پر مشتمل تھی، جو کراچی سے منتخب ہوئے تھے۔ یہ سارے ارکان عام انتخابات میں ان نشستوں پر منتخب ہوئے، جن پر 1985ء سے زیادہ تر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ارکان منتخب ہوتے آرہے تھے۔ کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی نے اپنے وژن اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کی رہنمائی کے مطابق کراچی کا چہرہ تبدیل کرنے کے لئے جو ترقیاتی منصوبے تجویز کئے، انہیں کراچی کے لئے خصوصی ترقیاتی پیکیج کا نام دیا گیا اور وزیراعظم عمران خان نے اگلے روز کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں 162ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کردیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ پیکیج کراچی کی شکل تبدیل کرتا ہے یا نہیں اور یہ پیکیج کراچی کے عوام کی توقعات کے مطابق ہے یا نہیں، جنہوں نے بظاہر 33سال بعد ایم کیو ایم کے بجائے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا؟

وزیراعظم عمران خان کے کراچی کے لئے ترقیاتی پیکیج سے قبل متعدد وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں نے پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور معاشی شہ رگ کے لئے کئی ترقیاتی پیکیجز دیئے لیکن ان ترقیاتی پیکیجز کے باوجود ان حکومتوں کو چلانے والی سیاسی جماعتیں کراچی میں اپنی مقبولیت برقرار نہ رکھ سکیں۔ اس پر کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کے عوام میں کچھ خرابی ہے لیکن تاریخی اور جدلیاتی مادیت کا سب سے زیادہ ادراک رکھنے والے چین کے عظیم انقلابی رہنما مائوزے تنگ کا کہنا ہے کہ ’’عوام کبھی غلط نہیں ہوتے۔ ہمیں عوام کے فیصلوں سے اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرنا چاہئے‘‘۔ مائوزے تنگ کے اس قول کی روشنی میں اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے کہ کراچی کے عوام قصور وار نہیں بلکہ بدقسمت ہیں جنہوں نے اپنی حقیقی قیادت کی تلاش میں ہر سیاسی جماعت اور ان کے رہبروں پر اعتبار کیا لیکن کوئی سیاسی جماعت اور اس کے قائدین نہ صرف انہیں ’’اون‘‘ (OWN) نہیں کرسکے بلکہ ان کے مسائل بھی نہیں سمجھ سکے۔

سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی کی شکل تبدیل کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے۔ کراچی میں ایشیاء کی سب سے بڑی اسٹیل مل قائم کی، جس نے صنعتوں کو جنم دیا اور کراچی میں روزگار کے ایسے مواقع پیدا ہوئے، جو نہ پہلے کبھی پیدا ہوئے تھے اور نہ آئندہ کبھی پیدا ہوئے۔ کراچی کے لئے سب سے بڑا ترقیاتی پیکیج محترمہ بے نظیر بھٹو نے دیا۔ یہ 121 ارب روپے کا پیکیج تھا، جو وزیراعظم عمران خان کے 162 ارب روپے کے پیکیج سے بھی اس لئے بڑا تھا کہ اس وقت کے 121 ارب روپے آج کے 162 ارب روپے سے کئی گناہ زیادہ تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کےاس ترقیاتی پیکیج نے کراچی کا چہرہ واقعی تبدیل کردیا۔ بے شمار منصوبے مکمل ہوئے ان منصوبوں کے لئے فنڈز کا ضروری انتظام کیا گیا، جو پی ٹی آئی کی حکومت ابھی تک نہیں کرسکی ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی حکومت کا کراچی کے بارے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت جیسا وژن ہے۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کراچی میں اپنی مقبولیت کھوتی گئی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں کراچی کی اکثریتی نشستیں حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کراچی پر اپنی سیاسی گرفت کمزور کرتی گئی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے فوری بعد 2008ء کے عام انتخابات میں ملیر میں اپنی ایک نشست ہار گئی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ملیر کی ایک سے زیادہ نشستیں اسے نہیں ملیں اور 2018ء کے عام انتخابات میں لیاری کی سب سے زیادہ مضبوط نشست پر پیپلز پارٹی ہار گئی۔

کراچی نے جماعت اسلامی اور اس کی اتحادی مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی مینڈیٹ دیا اور انہوں نے بھی کراچی میں بہت کام کیا۔ جماعت اسلامی کے میئر نعمت اللہ خان نے کراچی میں جتنا ترقیاتی کام کیا، اتنا کراچی کی کوئی بلدیاتی حکومت نہیں کرسکی۔ اس کے باوجود جے یو پی، جماعت اسلامی اور متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور ان کی اتحادی جماعتیں کراچی میں اپنی سیاسی مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکیں۔

ایسا کیوں ہوا؟ اس پر شاید پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت ایم ایم اے کی قیادت نے شاید سنجیدگی سے غور کیا ہوگا لیکن ان سیاسی جماعتوں کی عوام میں نمائندگی کرنے والے دوسرے درجے کی سیاسی قیادت حقیقی اسباب کا ادراک نہیں کرپائی ہوگی۔ ان سیاسی جماعتوں نے کراچی کے لئے بہت کچھ کرنے کے باوجود مخصوص نسلی، لسانی اور مسلکی گروہوں کو شعوری یا غیر شعوری طور پر زیادہ خوش کرنے کی کوشش کی اور یہ احساس ہی نہیں کیا کہ دیگر گروہ ناخوش اور ناراض ہوسکتے ہیں۔ اس ماحول میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے شہر کے ایک بڑے لسانی گروہ کی سیاست کی اور طویل عرصے تک کراچی کی سیاست پر کنٹرول کئے رکھا۔ اس کی قیادت نے کراچی کی ترقی کے لئے بہت سے منصوبوں کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچایا لیکن بالآخر ایم کیو ایم بھی کراچی میں اسی انجام سے دوچار ہوئی، جس سے قبل ازیں دیگر سیاسی جماعتیں دوچار ہوئیں۔ اب پی ٹی آئی اس شہر کی نمائندگی کررہی ہے اور اس نے بھی کراچی کے لئے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کردیا ہے۔

اصل مسئلہ کراچی کا کیا ہے؟ اس پر کسی نے سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ کراچی ایک بندرگاہ ہے اور تاریخ میں ہمیشہ کسی بھی ریاست یا ملک کی بندرگاہ اس ملک یا ریاست کا معاشی حب ہوتی ہے۔ بندرگاہ والے شہر میں ہر قوم، نسل، لسانی گروہ، مذہب، مسلک اور طبقاتی گروہ کے لوگ آباد ہوتے ہیں اور ایسا شہر ہمیشہ ’’کاسموپولیٹن‘‘ ہوتا ہے، چاہے اس کی آبادی کتنی بھی کیوں نہ ہو۔کراچی کے اس ’’کاسموپولیٹن‘‘ والے جوہر یعنی ایک کہکشاں کو کسی نے نہیں سمجھا اور اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکا۔سب سے اہم اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے جو ترقیاتی پیکیج دیا ہے، اس کے لئے فنڈز کا انتظام بھی نہیں ہے کیونکہ معاشی مشکلات کے باعث وفاقی حکومت کے پاس مالیاتی گنجائش ہی نہیں ہے کہ وہ اس ترقیاتی پیکیج پر عمل درآمد کرسکے۔ اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے اس ترقیاتی پیکیج پر سندھ حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا ہے۔ اس نے ترقیاتی منصوبے تجویز کرتے وقت شہر کی کثیر اللسانی ترکیب اور غریب آبادیوں کے مسائل کو بھی مدنظر نہیں رکھا اور بعض ایسے اقدامات کا اعلان بھی کردیا ہے، جو آئینی طور پر صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کا کراچی میں مستقبل کچھ بھی ہو، کراچی کے عوام بدقسمت ہیں، جو اب تک قیادت کی تلاش میں ہیں۔ کراچی ایک بندرگاہ اور کاسموپولیٹن سٹی ہے۔ اس ترقیاتی پیکیج سے تحریک انصاف کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کیا کراچی کے عوام کو حقیقی قیادت مل گئی ہے۔