موجودہ حالات اور فوج کی کمان میں تبدیلی

April 07, 2019

وزیراعظم عمران خان سے اگلے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے سوال کیا کہ پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں کیا وہ توسیع کریں گے؟ اس پر ہم سوچیں گے۔ بہت وقت پڑا ہے۔ ابھی تک ہم نے سوچا نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کا سوال کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ جب بھی کسی آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آتا ہے اس طرح کے سوالات ہونے لگتے ہیں۔ یہ سوالات اس لئے ہوتے ہیں کہ پہلے بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہو چکی ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہو جائے اور اس طرح کے سوالات نہ ہوں۔

پاکستان جن حالات سے دوچار رہا ہے، ان میں ہر دفعہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں فوج کی کمان تبدیل نہیں ہونا چاہئے اور آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہونا چاہئے لیکن عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ سیاسی حکومتیں اس حوالے سے فیصلہ کرتے ہوئے مبینہ طور پر سیاسی معاملات کو مدنظر رکھتی ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ سیاسی حکومتیں جو سوچ رہی ہوتی ہیں، حالات اس کے مطابق نہیں ہوتے۔ مثلاً محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی 1988ء کی پہلی حکومت میں جنرل مرزا اسلم بیگ کو جمہوریت بحال کرنے پر تمغۂ جمہوریت عطا کیا لیکن جنرل مرزا اسلم بیگ کے دور میں ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت 6اگست 1990ء کو آئین کے آرٹیکل اٹھاون 2بی کے تحت صدر اسحاق خان نے برطرف کر دی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مدتِ ملازمت کے دوران 18اکتوبر 1993ء کو قائم ہوئی اور جنرل جہانگیر کرامت کی مدتِ ملازمت کے دوران آئین کے مذکورہ بالا آرٹیکل کے تحت 5نومبر 1996ء کو برطرف کر دی گئی۔ اس وقت اگرچہ آرمی چیف سمیت سروسز چیفس کا تقرر صدر کرتے تھے لیکن جہانگیر کرامت کی تقرری صدر فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر کی ہو گی۔

اسی طرح میاں نواز شریف کی پہلی حکومت جنرل اسلم بیگ کی مدتِ ملازمت کے دوران 6نومبر 1990ء کو قائم ہوئی اور جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مدتِ ملازمت کے دوران 18جولائی 1993ء کو صدر مملکت نے آرٹیکل اٹھاون ٹو بی کے تحت برطرف کر دی۔ دوسری حکومت جنرل جہانگیر کرامت کی مدتِ ملازمت کے دوران 17فروری 1997ء کو قائم ہوئی اور جنرل پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999ء کو ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ ایک سال قبل یعنی 6اکتوبر 1998ء کو جنرل پرویز مشرف کی اس عہدے پر تقرری ہوئی تھی۔ عبدالوحید کاکڑ اور جنرل پرویز مشرف کی تقرری میں میاں محمد نواز شریف کی رائے اور مشورہ کہیں نہ کہیں شامل ہوگا۔ میاں محمد نواز شریف نے اپنی تیسری حکومت میں جو جون 2013ء کو قائم ہوئی، جنرل راحیل شریف کا تقرر خود 29نومبر 2013ء کو کیا لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں کی کیونکہ بعض حلقوں کے خیال میں وہ جنرل راحیل شریف کے بارے میں اپنی پہلی والی رائے تبدیل کر چکے تھے۔ مطلب یہ کہ سیاسی حکومتوں کی اس معاملے میں سیاسی سوچ بچار کا مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ صدر آصف علی زرداری کے دور میں پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدتِ ملازمت میں 3سال کی توسیع کی اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کئے۔ اس بات سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی استثنائی مثال کے ذریعہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومتوں کا آئینی مدت پوری کرنے یا نہ کرنے کا تعلق آرمی چیف کی تقرری سے ہوتا ہے۔ لہٰذا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اس معاملے پر سیاسی نہیں بلکہ ملکی سلامتی کے معروضی حالات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے۔

بعض لوگ غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع دینے سے اس کے جونیئر افسران میں فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے 12سال 169دن تک یہ منصب اپنے پاس رکھا۔ جنرل پرویز مشرف اس عہدے پر 9سال 53دن فائز رہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے 6سال تک پاک فوج کی کمان سنبھالی لیکن کوئی ایسی بات نہیں ہوئی، جسے فرسٹریشن کا نتیجہ قرار دیا جا سکے۔ یہ مشہور مقولہ ہے کہ حالتِ جنگ میں فوج کی کمان تبدیل نہیں ہونا چاہئے۔ اگرچہ پہلے بھی کئی مرتبہ حالات کو بنیاد بنا کر آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن ایسا موقع بھی آتا ہے، جب حالات واقعی اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں۔ کوئی اتفاق کرے یا ناں لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1970ء کے بعد پاکستان کے حالات بہت زیادہ سنگین ہیں۔ پاکستان اس وقت بھارت کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ملک میں انتخابات کی وجہ سے جنگی جنون پیدا کر رکھا ہے اور بھارت ہماری سرحدوں پر مسلسل مہم جوئی کر رہا ہے۔ بعض حلقوں کا یہ کہنا درست ہے کہ بھارت کے عام انتخابات تک مودی کوئی بھی شرارت کر سکتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں قیامِ امن کے عمل میں پاکستان مکمل طور پر ملوث ہے اور امن دشمن قوتوں کے سخت ردعمل کے خطرات ہر وقت منڈلا رہے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے جو حکمت عملی وضع کی ہے، وہ اب تک بہت کامیاب ہے۔ انہوں نے پاکستان کے لئے متحدہ عرب امارات سے مالی امداد لینے کے لئے سفارت کاری کا فریضہ بھی انجام دیا اور سعودی عرب کے ساتھ بھی معاملات بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

ان کی پالیسیوں کو ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ان حالات کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ہر قسم کے حالات میں فوج کی کمان کی تبدیلی کا ایک ہی نظام وضع ہونا چاہئے۔ موجودہ نظام پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔