ہومیو اسپینن کی جگہ مافوق الانسان

April 13, 2019

یہ بھی ہونا تھا کہ لندن سے 1960سے آئی ہوئی مارجری حسین نے شوہر کے انتقال کے بعد واپس لندن جانے کا ارادہ کرلیا، مارجری نے پاکستان کے مصوروں اور ان کے فن پر جتنا زیادہ لکھا ہے، یہاں میں صرف قدوس مرزا کے ساتھ لکھنے کا تقابل کرسکتی ہوں کہ یہ دونوں گزشتہ چالیس برس سے عصری اور عالمی مصوری کی باریکیوں کو ہمارے سامنے لاتے رہے ہیں، یہیں پر میں عمران قریشی کو بھی عالمی انعام مصوری میں حاصل کرنے پر مبارکباد دیتی ہوں، ساتھ ہی ساتھ خود سے بھی اور آپ سب سے یہ سوال کر رہی ہوں کہ مارجری حسین کو 60سال پاکستان میں رہ کر اس لئے واپس جانا پڑا کہ یہاں اس کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا کہ پاکستان کی مٹی نے شوہر کے مرنے کے بعد پائوں نہیں پکڑے کہ بڑھاپا گزارنے کیلئے پاکستان میں اولڈ پیپلز ہوم نہیں ہیں، ہر چند مردوں کیلئے موجودہ حکومت نے پناہ گاہیں بنائی ہیں، جو عارضی وقت گزارنے کیلئے، گھڑی دو گھڑی ٹھہرنے کیلئے، دوسراہت دیتی ہیں مگر زندگی کو تو باقاعدہ چھت چاہئے ہوتی ہے۔

ویسے تو مجھے بھی زندگی کی بے ثباتی پر پہلے بھی اعتماد نہ تھا مگر سعید نقوی کی کتاب نے تو مجھے عجب مخمصے میں ڈال دیا ہے، سعید ویسے مشہور ڈاکٹر ہیں، اَدب میں بھی دخیل ایسے مشکل ترین انتھرا پالوجی کی کتابیں جن میں جینیات کی اَن کہی تاریخ بھی شامل ہے، میرے سامنے ’’بندہ بشر‘‘ کے عنوان سے کتاب ہے، جس میں ساڑھے سترہ ارب کی تاریخ سے شروع ہو کر اور موجود تک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسان سیارے کی حدود پھلانگتا ہے، جوہری ہتھیار نوع انسانی کی بقا کو خطرے میں ڈالتے ہیں، حیات زیادہ سے زیادہ فطری چنائو کے بجائے، ذہین ڈیزائن سے تراشی جاتی ہے اور جب یہی اسلوب، زندگی بن جائے تو پھر سعید نقوی کے بقول ہومیو اسپینین کی جگہ مافوق الفطرت ہستیاں لے لیتی ہیں۔ آگے ہومیو اسپینین کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہمارے جنگلی عم زاد ہیں بلکہ ایک زمانے میں بہت سے جنگلی مادر زاد بھی تھے، ایسی ہی توجیہ کسی سائنسدان کی جانب سے آئی تھی کہ دوسرے سیاروں کی جانب جانے کی کوشش مت کریں، پھر زمین کے رہنے والے بھی بہت تنگ ہوں گے، کتاب باب دَر باب اور صفحات دَر صفحات پڑھتی جاتی تھی اور مجھے پروفیسر ڈاکٹر تیمور رحمات کے فلاسفروں کی تاریخی توضیح پر دیئے گئے لیکچرز یاد آرہے تھے کہ وہ زمانہ جب بڑے بڑے فلاسفر پیدا ہوئے وہ تو زیادہ تر قبل از مسیح کہ علاوہ قبل از بدھ ازم کا ہے، سائنسی تحقیق کا زمانہ تو یہی دو ہزار سال پرانا ہے، ورنہ کتاب تو بتاتی ہے کہ ساڑھے چار ارب سال پہلے سیارۂ زمین کی پیدائش ہوئی، تین اعشاریہ آٹھ ارب سال پہلے، حیاتیات کا آغاز ہوا، تیرہ ہزار سال تک صرف ہومیو اسپینین، ہی واحد نوع زندگی تھے۔ پانچ سو سال پہلے سائنسی انقلاب کے بعدازاں یہ سیارہ واحد سیاسی اکھاڑہ بن جاتا ہے۔

ڈاکٹر سعید نقوی نے اتنی خوبصورت نثر لکھی ہے کہ پڑھ کر، بار بار جھومنے اور لطف لینے کو جی کرتا ہے، آیئے میں ایک باب جو کہ قانون، مذہب کے حوالے سے ہے، اس کا ایک پیرا گراف لطف لینے کیلئے پیش کرتی ہوں:۔

’’وسطی ایشیا کے نخلستان میں واقع، سمرقند کے قدیم بازار ہیں، شام کے بیوپاری، نرم چینی ریشم پر ہاتھ پھیرتے گھوم رہے ہیں، میدانوں میں جنگجوئی قبائل، مغرب بعید سے گھاس ایسے بالوں والے غلاموں کے تازہ گروہ کی نمائش کر رہے تھے اور دکاندار چمکدار نقرئی سکے جن پر بدیسی تحریر اور اَجنبی بادشاہوں کی تصویریں تھیں، جیبوں میں بھر رہے تھے، مشرق ومغرب، شمال وجنوب، اس دور کے مرکزی چوراہے پر انسانیت روز اکٹھی ہو جاتی تھی، یہی عمل اس وقت تک دُہرایا جاتا ہے جب قبلائی خاں 1281ءمیں جاپان پر حملہ کرتا ہے‘‘۔

اب ایک اور خوبصورت پیرا گراف:۔ اسی دوران میں خانہ کعبہ کے اطراف، افراد کسی اور مقصد سے اکٹھے ہوتے ہیں، اگر آپ 1300عیسوی میں اس مقدس عمارت کا طواف کر رہے ہوتے تو اپنے ہمراہ میسو پوٹیمیا کے افراد کو دیکھتے، جن کے لمبے چغے ہوا میں اُڑ رہے تھے اور آنکھیں بے خودی سے چمک رہی تھیں۔

قانون اور مذہب کے باب میں یوں ترجمہ کیا ہے ’’آج مذہب کو تعصب، اختلاف اور انتشار کی وجہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پیسے اور سلطنت کے ساتھ مذہب، انسانیت کو متحد کرنے والا تیسرا بڑا عنصر ہے کیونکہ تمام سماجی قاعدے اور ُرتبے فرضی ہیں‘‘۔ کتاب کے آخر میں کہتے ہیں، ’’ہم پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں لیکن نہیں جانتے کہ اس طاقت کو کیسے استعمال کریں، انسان پہلے سے کہیں زیادہ غیر ذمہ دار ہوگئے ہیں، ہمیں نہیں معلوم ہماری منزل کیا ہے!‘‘